بھیڑیوں نے ایک دن بکریوں کے حق میں جلوس نکالا کہ ان کو
جنگل میں بلا خوف و خطر پھرنے کی آزادی دی جائے،جنگل سب کا ہے اس پر کسی
ایک کا حق نہیں،جب بکریوں نے دیکھا کے بھیڑیے ہمارے حق میں ہماری آزادی کے
لئے جلوس نکال رہے ہیں وہ بہت خوش ہوئیں اور انہوں نے آپس میں اجلاس کیا کہ
اب ہمیں کوئی خطرہ نہیں اب ہم آزاد ہیں بھیڑے بھی ہمارے ساتھ ہیں ،ان میں
سے ایک بوڑھی بکری تھی وہ بہت سیانی تھی اس نے ان سے کہا کے آپ خوش نہ ہوں
یہ آپ کے حق میں نہیں اصل میں یہ آپ کے خلاف ہیں مگر سب جوان بکریوں نے اس
سیانی بکری کی بات نہ مانی اور دوسرے دن بے خوف و خطر جنگل میں نکل
گئی،بھیڑیوں نے جب دیکھا کہ بکریاں پورے جنگل میں نکل گئی ہیں اب ان کا
شکار کرنا بہت آسان ہے تو انہوں نے ایک ایک کر کے اپنی مرضی کے شکار کئے
اور جی بھر کے اپنے پیٹ کی پوجا کی۔بھیڑیوں کا وہ جلوس اصل میں بکریوں کی
آزادی کے لئے نہیں تھا بلکہ اپنی حکمت عملی تھی جس سے وہ آسانی سے ان کا
شکار کر سکیں۔اکثر ہم غریب عوام کے لئے ایک مثال دیتے رہتے ہیں کہ سیاست
دان،امیر اور با اثر لوگ غریبوں کو بھیڑ بکریاں سمجھتے ہیں،اور یہ بات اکثر
ہوتی بھی سچ ہے کیونکہ عام حالات میں عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے
سیاست دان اور اسمبلیوں تک پہنچنے والے عوامی منتخب لوگ ہاتھ ملانا پسند
نہیں کرتے،ان کو لفٹ تک نہیں کرواتے،مگر جب وہ کسی مشکل میں پھنستے ہیں یا
ان پر کوئی ازامائش آتی ہے تو یہ پھر عوام سے نہ صرف ہاتھ ملاتے ہیں بلکہ
ان سے گلے ملتے ہوئے ان کو اپنا بھائی کہتے ہیں،جب کہ انہیں پتہ ہوتا ہے کہ
یہ لوگ ہمارے معیار کہ نہیں ہیں مگر ان کے بغیر ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے تو
یہ پہلے ان کے حق میں نکلتے ہیں بیان دیتے ہیں کہ یہ ظلم ہو گیا یہ مشکل ہو
گئی،غریب عوام پس گئی،ان کی زندگیاجیراَ ہو گئی غریب کے منہ سے نوالہ چھین
لیا گیا،عوام کو بجلی صاف پانی نہیں مل رہا ،وہ وعدے جو حکومت نے کئے تھے
وہ پورے نہیں ہوئے،حکمرانوں نے اتنا قرض لے لیا کام کچھ نہیں کیا،مگر یہاں
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کونسا دور حکومت تھا جس میں غریب یا عام آدمی
کو کسی بھی حوالے سے ریلف ملا ہو،مہنگائی ہر دور کا برنیگ ایشو رہا ہے،
بجلی کی لوڈشیڈنگ، گندہ پانی،بے روزگاری،صحت کی سہولیات یہ وہ ایشو ہیں جو
ملک کے وجود میں آنے سے لیکر اب تک چلتے آرہے ہیں عوام ان تمام مسائل سے
گزرتی آرہی ہے ہر دور میں تعلیم مشکل رہی ،قانون میں تفریق رہی،صحت اور
ملاوٹ میں عروج رہا اور یہی باتیں ہر دور کی اپوزیشن کا موضوع رہی ہیں،بات
یہ بھی سوچنے والی ہے کہ جو لوگ ،جو سیاست دان ماضی کے دور کی مثالیں دیتے
ہیں اس وقت ایک مزدور کی تنخواہ بھی کم ہوتی تھی اگر اوریج نکالی جائے تو
ماضی میں مزدور کی تنخواہ کے مطابق اس وقت مہنگائی تھی،اور آج بھی ایک
مزدور جو روز کا دوہزار بھی کماتا ہے اسی اوسط سے مہنگائی سے متاثر ہو رہا
ہے،کل بھی بچوں کو اچھے سکول میں پڑھانا مشکل تھا آج بھی ہے،کل بھی قانون
غریب ک ے لئے تھا آج بھی ہے،کل بھی ملاوٹ والی ادویات،کھانے پینے کی دونمبر
اشیاء تھی آج بھی ہیں، کل بھی لوگ خود کشیاں کرتے تھے آج بھی میری مراد کل
سے ماضی کی تمام حکومتوں سے ہے ،آج اور کل میں کوئی فرق نہیں تو پھر یہ
جلسے جلوس کس کے لئے،پھر یہ عوام،غریب کے حق میں نعرے کس کے لئے،سفارش کل
بھی تھی آج بھی ہے،علاقائی،برادری،فرقہ،سیاسی،مذہبی ازم کل بھی تھے آج بھی
ہیں،سوائے کچھ چہرے بدلے،کچھ الفاظ بدلے،کچھ معیار بدلے،جو کے فطری تقاضہ
ہے یہ سب نہ بھی چائیں تو تبدیلی آنی ہے،پھر بدلا کیا،اگر ہم اوسط زندگی کا
تجزیہ کریں جو خاندان کل مضبوط تھا آج بھی ہے ہاں اگر کچھ اضافہ ہوا تو اس
کی وجہ ہر گز ملکی پالیسی نہیں بلکہ وہ اس خاندان کی ذاتی قربانیاں ہیں
اکثر لوگ اپنے خاندان کے حالات بہتر کرنے کے لئے بیرون ملک چلے جاتے ہیں
اور وہاں وہ دن رات ایک کر کے اپنی فیملی کو سپورٹ کرتے ہیں اس میں کسی
حکومت کا یا کسی سیاست دان کا کیا کارنامہ ہے،پاکستان کے جو چند خاندان ہیں
جو ملک پر حکمرانی کر رہے ہیں ان کو مہنگائی کا کیا اندازہ انہیں تو آج بھی
آٹے،دال چینی کا بھاو نہیں پتہ ،جتنا ان کے کتے یا جانور کھاتے ہیں اتنے
میں غریب یا عام آدمی کا پور ا خاندان پلتا ہے،جب ان کو مہنگائی سے کوئی
فرق ہی نہیں پڑتا تو پھر وہ غریبوں کے حق میں کیسے باہر نکل سکتے ہیں اگر
وہ واقعی اتنے ہمدرد ہیں تو انہوں نے اپنے دور اقتدار میں غریب کو کیا ریلف
دیا وہ بتائیں،غریب آدمی اس قدر بے بس اور مجبور ہوتا ہے کہ وہ ہر اس آدمی
کو اپنا مسیحا سمجھ بیٹھتا ہے جو اس کے حق میں بولتا ہے کیونکہ اس کے پاس
اسکے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا،جیسے ایک پیاسا صحرا میں چلتا ہے اسے دور
ایک سایا نظر آتا ہے اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ شاہد یہاں پانی ہو اور اسی
امید پر وہ کہیں کلومیٹر دور چلا جاتا ہے مگر پانی نہیں ملتا،غریب اور
کمزور کی بھی یہی مثال ہے کہ اس کے پاس سوائے اس کے کوئی آپشن نہیں ہوتا کے
وہ کسی کی جھوٹی حمایت کرنے والے کو بھی سچا سمجھ کر اس کا ساتھ دے مگر
ہوتا پھراس کے ساتھ وہی ہے جو برسوں سے غریب عوام کے ساتھ ہوتا آرہا ہے۔جو
حکمران،جو لیڈر،جو عوامی نمائندے اپنے ملک کی ترقی چاہتے ہیں،جو عوام کی
روز مرہ کی زندگی بہتر کرنا چاہتے ہیں وہ ایسی پالیساں بناتے ہیں،ایسے
قانون پاس کرتے ہیں،ایسی اصلاحات اور بہتری لاتے ہیں جو ملک میں بسنے والوں
کے لئے برابر ہوتیں ہیں جس سے امیر غریب سب بلا تفریق مستفید ہوتے ہیں جس
میں کوئی فرق نہیں رہتامگر ہمارے ملک معاشرے میں کوئی ایسی تبدیلی نہیں آتی
جس سے عام آدمی کی زندگی میں بہتری آئے بس یہ سب اپنے اپنے شکار کو آسان
کرنے کے لئے بھیڑیوں کی طرح بکریوں کے حق میں ان کی آزادی کے لئے جلوس
نکالتے ہیں اور پھر اپنی مرضی کا شکار کرتے ہیں،72سالوں میں کیا تبدیلی
آئی۔ہم لوگ اصل میں بھیڑ چال ہیں کسی انگریز سے سن لیا کے ماں روئے بغیر
بچے کو دوھ دنہیں دیتی آج بھی اسی پر چل رہے ہیں جب کہ ماں کو خود پتہ ہوتا
ہے میرے بچے کو کب بھوک لگتی ہے یہ اس کی ذمہ داری میں ہے مگر ہم نے اس کو
اصول اور قانون بنا دیا کہ جب تک عوام خود کشیاں نہیں کرے گی ہم جاگے گے
نہیں۔کیا ہم ایسی سوچ لے کر ترقی کر سکتے ہیں۔ کیا ہم تبدیلی لا سکتے ہیں
کیا ہم اس ہجوم کو قوم بنا سکتے ہیں؟کیا یہ ہجوم قوم بن سکتی ہے، |