قدوة السالکین....تاجدارِ طریقت....پروانہ
شمع رسالت....پیر طریقت رہبر شریعت....تاجدار علم ومعرفت
حضرت مولانا امام شاہ فضل رحماں صدیقی گنج مراد آبادی علیہ الرحمة
(....سالانہ عرس (۲۲ ربیع الاوّل )کے موقع پر خصوصی تحریر....)
صالحین کے واقعات و حالات میں اہلِ نظر کے لئے بڑی ہی نصیحت و بصیرت کا
سامان ہوتا ہے، ان سے دلوں کو روشنی، روحوں کو تازگی اور فکر و نظر کو
بالیدگی ملتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے جہاں اور اسرار ورموز اور
شرائع و قوانین کی عقدہ کشائی کی ہے۔وہیں انبیائے سابقین اور اقوام ماضیہ
کے حالات و واقعات بھی بڑی اثر انگیزی اور فیاضی سے بیان کئے ہیں اور ہمارے
لیے انہیں سامانِ نصیحت و بصیرت قرار دیا ہے۔
ارشادِ ربانی ہے ”بے شک ان کے واقعات میں اہل عقل کے لئے بڑی نصیحت ہے۔
بلاشبہ ان کے حالات و واقعات میں ہمارے لیے درس عبرت ہے ۔ان کے اسرار و
افکار میں ہمارے لئے گنجینہ حکمت ہے۔ ان واقعات میں جو کیف و لذت مستور ہے۔
ان کا لطف اسی وقت حاصل ہوتا ہے۔جب حضورِ قلب اور اکتساب فیض کے ارادے سے
ان مطالعہ کیا جائے۔
چودھویں صدی ہجری ایک طرح سے عظیم شخصیات کی صدی ہے۔ خاص طور پر ہندوستان
میں جس قدر عظیم المرتبت اور برگزیدہ ہستےاں اس صدی نے پیدا کیں شاید ہی
کبھی اس سے پہلے ایسا ہوا ہو۔ مذہب،سیاست،معاشرت،صحافت غرض یہ کہ ہر شعبے
میں بڑے بڑے لوگوں نے اپنی صلاحیتوں کالوہا منوا یا اور شاندار کارنامے رقم
کئے۔ علماء مشائخ میں بھی ایسی ایسی شخصیات پیدا ہوئیں جن کی عظمت کا
اعتراف رہتی دنیا تک ہوتا رہے گا۔
حضرت مولانا امام شاہ فضل رحماں صدیقی گنج مراد آبادی قدس سرہ بھی ایسی ہی
شخصیت تھے جن پہ ہندوستان کی سرزمین ہمیشہ فخر کرتی رہیگی۔آپ مسلمانوں کے
زمانہ عروج میں پیدا ہوتے تو یقیناً امام شبلی اور حضرت جنید بغدادی رحمة
اللہ علیہم کے ہم پلہ قرار پاتے۔ لیکن افسوس کہ دورِ زوال میں ہندوستان ان
کی صلاحیتوں سے خاطر خواہ فائدہ نہ اٹھا سکا۔اس کے باوجود اس دور کا تذکرہ
نگار ان الفاظ کو صفحہ قرطاس پر ضبط تحریر میں لائے بغیر نہ رہ سکا“۔حضرت
مولانا فضل رحماں کے اوصاف حمیدہ اور خصائص پسندیدہ ایسے نہیں ہیں کہ زبان
بریرہ قلم بے بنیاد کاغذ پہ ان میں سے تھوڑے بھی لکھ سکے اور انسان ضعیف
البسیات کی کیا مجال ہے کہ ان کا عشر عشیر بھی بیان کر سکے ۔
(تذکرہ علماءہند صفحہ ۹۷۳ مولوی رحمان علی)
حضرت مولانا امام شاہ فضل رحماں صدیقی گنج مراد آبادی یکم رمضان المبارک
بوقت صبح صادق ۸۰۲۱ئ کو اودھ کے علاقے اناﺅں میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد کا
اسم مبارک (حضرت) شاہ اہل اللہ تھا جو حضرت شاہ عبدالرحمن لکھنوی کے مرید
تھے اور حضرت گنج مراد آبادی کا نام ”فضل ِ رحماں“ آپ ہی نے تجویز فرمایا
اور اسی سے آپ کی تاریخ ولادت نکلتی ہے (تذکرہ محدث سورتی صفحہ ۳۵)
آپ کا سلسلہ نصب ۹۲ واسطوں سے ہوتا ہوا خلیفہ اول حضرت سیدنا ابو بکر صدیق
رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے۔ تاریخی روایات کے مطابق اس دور میں یہ بات
مشہور ہو گئی تھی کہ حضرت اہل اللہ کے یہاں ایک ایسا بچہ پیدا ہوا ہے جو
رمضان کے مہینے میں دودھ نہیں پیتا۔ اس بات کا اس قدر چرچا ہوا کہ جب کبھی
رمضان المبارک کی ۹۲ تاریخ کو مطلع ابر آلود ہوتا تو لوگ آپ کی والدہ کے
پاس آکر دریافت کرتے کہ کیا آج آپ کے بچے نے دودھ نوش فرمایا ہے۔آپ کی
والدہ بتاتیں کہ ہاں تو وہ یقین کر لیتے کہ شوال کا چاند ہو گیا۔ (مسالک
السالکین صفحہ ۷۹۱ جلد دوم)
بے شک اللہ جسے اپنا محبوب بنا لیتا ہے اسے شریعت کی پاسداری عہد طفلی ہی
سے ودیعت فر ما دیتا ہے کیونکہ وہ تو دوسروں کو شریعت کا تابع بنائے گا۔
بھلا خود کیونکر خلافِ شرع کام کرے گا۔ بچپن میں روزہ رکھنا اور دودھ نہ
پینا شرعی حکم نہیں مگر آپ کا دودھ نہ پینا اور روزہ رکھنا آپ کی ولایت کی
طرف اشارہ تھا۔
آپ نے ابتدائی کتب درس نظامی (فقہ، اصول و کلام کا تکملہ وغیرہ) حضرت
مولانا نور الحق بن مولانا انوار الحق فرنگی علی سے لکھنو میں کیا۔ آپ نے
فرمایا ”ہم نے ان سے تفسیر بیضاوی و کامل قدوری اور پھر ہدایہ مکمل پڑھیں
۔اس کے بعد دہلی کا سفر اختیار فرمایا۔ جہاں حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی
قدس سرہ سے قرآن کریم حرفاً حرفاً صحاح ستہ، موطا امام مالک، موطا امام
محمد،مسند امام اعظم،تفسیر قرطبی، دارمی، دار قطنی، معجم کبیر،مستدرک،جامع
صغیر، قسطلانی، تفسیر کبیر، تفسیر روح البیان، تفسیر بغوی ،فقہ میں فقہ
اکبر، شرح فقہ اکبر کا مکمل درس لیا اور سند فراغت سے سرفراز ہوئے۔
حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی آپ کو تمام طلباء سے الگ بعد نمازِ عشاء درس
دیا کرتے تھے اور اس درس میں صرف شاہ صاحب کے داماد سید ظہیر الدین شہید کو
شرکت کی اجازت تھی ۔ایک روز سید ظہیر الدین شہید نے دورانِ درس شاہ صاحب سے
عرض کیا کہ مولانا فضل رحماں کو سب سے الگ درس دینے میں کیا حکمت ہے تو شاہ
صاحب نے فرمایا کہ مولوی فضل رحماں کو سب سے علیحدہ پڑھانے میں یہ راز ہے
کہ ”وہ توجہات رسالت سے پڑھتے ہیں۔ ان کو برابر حضوری رسالت حاصل رہنے کو
وجہ سے میں بھی یہ پسند کرتا ہوں کہ میری راتیں بھی حضوری رسالت میں حدیث و
قرآن خوانی کے ساتھ گزریں“۔ مولوی فضل رحماں کو بفیض مصطفائی و بہی علوم
عطا ہو رہے ہیں۔ سب کچھ وہ آنحضرت ﷺ سے پا لیتے ہیں اور پوچھ لیتے ہیں(رحمت
و نعمت صفحہ ۶۱۱)
حضرت مولانا فضل رحماں کو علم حدیث سے خصوصی شغف تھا اور معقولات کے شدید
مخالف تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ سے ارادت رکھنے والے علماء نے علم حدیث کے
فروغ کی جانب خصوصی توجہ دی۔ اگر بہ نظر غائر ہندوستان میں علم حدیث کے
فروغ کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ آپ ہی سے فیض یافتہ اربابِ علم
و دانش کے دم قدم سے آج تک علم حدیث کی شمع بر صغیر پاک و ہند میں روشن ہے۔
آپ سلسلہ قادریہ نقشبندیہ مجددیہ کے شہر آفاق بزرگ حضرت مولانا شاہ محمد
آفاق دہلوی رحمة اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ سلوک کی تعلیم حاصل کی
اور بیعت خلافت سے سرفراز ہوئے۔ آپ کے مرشد نے آپ کو علامہ ابن جزری کی
کتاب حصن حصین پڑھائی اور اس کے پڑھنے اور پڑھانے کی اجازت عطا فرمائی۔
حضرت شاہ آفاق دہلوی آپ سے بے پناہ محبت فرماتے تھے اور بیشتر الوفات آپ کے
مرشد نے آپ کی اقتداء میں نماز ادا فرمائی۔ مرشد کی نظر عنایت دیکھ کر بعض
مریدوں نے عرض کیا کہ وہ پہلے سے مرید ہیں لیکن ان پر اتنی نظر عنایت کیوں
نہیں جتنی کہ مولوی فضل رحمان پر ہے۔ حضرت شاہ آفاق نے جواب دیا”تم کو میں
چاہتا ہوں کہ کچھ ہوجاﺅ اور ان کو حق تعالیٰ چاہتا ہے لہٰذا میں بھی اسی کو
چاہتا ہوں جس کو حق تعالیٰ چاہتا ہے“ (تذکرہ اولیائے پاک و ہند صفحہ ۰۹۳)
آپ کو مجاہد اور ریاضت سے حد درجہ شغف تھا۔ چنانچہ زندگی کا بیشتر حصہ اپنی
خانقاہ میں بسر کیا۔ آپ کے مجاہدہ باطنی اور علم و عرفان کی شہرت ایسی عام
تھی کہ لوگ دور و نزدیک سے جوق در جوق آپ کی زیارت کے لئے گنج مراد آباد
پہنچا کرتے تھے۔ صاحب نزہتہ الخواطر مولانا عبدالحئی رقم طراز ہیں ”جہاں تک
کہ آپ کے کشف و کرامت کا تعلق ہے تو وہ حد تواتر کو پہنچ گئی ہیں اور اس
بارے میں بھی اولیائے متقد مین حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ کے
علاوہ اور کوئی نظیر نہیں ملتی (نزہتہ الخواطر جلد ہشتم صفحہ ۱۷)
راقم الحروف کہ نزدیک آپ کی سب سے بڑی کرامت یہ تھی کہ آپ کی ذات والا غیر
منقسم ہندوستان کی آخری غیر متنازع شخصیت تھی۔ جس دور میں علماءکے درمیان
مسلکی اختلافات رونما ہو چکے تھے۔ اس کے باوجود آپ مختلف الخیال علماء کی
نگاہوں میں محبوب و مقبول اور مرکز عقیدت رہے۔ آپ کا آفتاب ولایت آج بھی
نصف النہار پر ہے اور بہر دور اس کی آب وتاب میں کمی آنے کا اندیشہ نہیں۔
آپ نے ۵۰۱ سال کی طویل عمر پائی اور ۲۲ ربیع الاول ۳۱۳۱ئ بروز جمعہ بعد
نمازِ عصر داعی اجل کو لبیک کہا۔
گنج مراد آباد (ہندوستان) میں مزار مرجع الخلائق ہے۔ آپ کے وصالِ پر ملال
پر پورے ہندوستان میں انتہائی رنج و غم کا اظہار کیا گیا۔ حضرت مولانا سید
حاجی محمد قاسم حسین ہاشمی مصطفائی فضل رحمانی بریلوی(مریدوخلیفہ حضرت شاہ
فضل رحماں) فرماتے ہیں کہ حضرت شاہ فضل رحماں گنج مراد آبادی کے وصال پر
آفتاب کراماتِ سلوک غروب ہوگیا۔تاجِ درویشی اہلِ سلوک سے اہلِ جذب میں
منتقل ہو گیا۔
(بیعت کی حقیقت صفحہ ۳۱)
سر سید احمد خان نے علی گڑھ انسٹیٹیوٹ گزٹ میں تعزیتی نوٹ میں لکھا ”حضرت
شاہ فضل رحماں عارف باللہ تھے۔ ان کی ذات ستودہ صفات علماء مشائخ کے لئے
رہنمائی اور حصولِ قرب الہٰی کا ذریعہ تھی۔ آپ کے عقیدت مند ہر سال
ہندوستان اور پاکستان کے مختلف گوشوں میں آپ کا عرس نہایت عقیدت و احترام
سے مناتے ہیں۔ |