عمران خان ترجیحی بنیادوں پر پاکستان کے اقتصادی اور
معاشی بحرانوں پر قابو پانے کیلئے ہر ممکن کوششیں کر رہے ہیں۔ماضی کی ناکام
خارجہ پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان پوری دنیا میں تنہا ہو گیا تھا جس کی ایک
بڑی وجہ حکمرانوں کی انجمن ترقی نسل کو ملکی سالمیت کے معاملات پر ترجیح
دینا تھا۔ ابھی بھی جو لوگ کرپشن کے بعد قانون و احتساب کے شکنجے میں ہیں
وہ ملکی سالمیت سے کھلواڑ کر رہے ہیں۔ حالانکہ عمران خان حکومتی معاملات
چلانے کیلئے نابلد تھے لیکن انہوں نے بہت جلد ان معاملات کے پیچ و خم کو
نزدیکی سے جان لیا ہے۔ وہ جان گئے ہیں کہ جب تک اشرافیہ کی اصلیت عوام کو
نہیں دکھائی جائے گی اور انہیں آنے والی غیر ملکی امداد بند نہیں کی جائے
گی تب تک احتساب کا عمل انجام پذیر نہیں ہو پائے گا۔ حال ہی میں وزیر اعظم
نے اپنے وفد کے ہمراہ ایران کا دورہ کیا ہے جہاں سب سے زیادہ اقتصادی ترقی
اور دونوں ممالک کی سالمیت کو تقویت دینے پر توجہ دی گئی ہے۔اس سے پہلے کہ
اس پر ہم مزید بات کریں ذرا پاک ایران تعلقات کا مبہم سا جائزہ لے لیتے ہیں۔
عمران خان اکثر ڈاکٹر علی شریعتی کے اس کو قول کو دوہراتے رہتے
ہیں’’عزت،ذؒلت ، زندگی ، موت اور رزق و تنگدستی کا ماخذ صرف اﷲ پاک ہے ‘‘۔ایرانی
علما اور ماہرین فنون نے ہمارے ہاں علمی سطح پر اپنے گہرے نقو ش چھوڑے ہیں۔
دونوں ممالک میں بسنے والے بلوچوں کی آپس میں رشتہ داریاں ہیں۔ ایران اور
پاکستان نے مختلف سیاسی تنازعات کے بارے میں مشترکہ لائحہ عمل اپنایا۔
ایران اور برطانیہ کے درمیان اینگلو ایران آئل کمپنی کو قومیانے کے فیصلے
کی وجہ سے تنازع پیدا ہوا تو وزیر اعظم لیاقت علی خان نے ایرانی اقدام کو
قومی تقاضوں سے ہم آہنگ قرار دیا اور برطانیہ کی قطعاََ پرواہ نہ کی۔ 1965
اور 1971 کی جنگوں میں ایران نے پاکستان کی بھرپور مدد کی اور اقوام متحدہ
کے فورم میں بھی ایران نے پاکستان کا ساتھ دیا۔ 1971 میں شاہِ ایران نے
سقوطِ ڈھاکہ کے بعد پاکستان کا دورہ کر کے پاکستانی قوم کے دکھوں پر مرہم
رکھنے کی کوشش کی۔بنگلہ دیش کو بھی ایران نے اس وقت تسلیم کیا جب پاکستان
نے اس کو تسلیم کیا اور اسکے علاوہ کشمیر کا مسئلہ جب بھی اقوام متحدہ میں
پیش ہوا ایران نے ہمیشہ پاکستان کی حمایت کی۔شاہِ ایران جب بھی پاکستان کا
دورہ کرتے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا مشترکہ اعلامیہ شامل کرواتے۔ایرانی
دفتر خارجہ بھی بار بار اس بات کا اعادہ کرتا کہ کشمیریوں کو اپنا مستقبل
خود طے کرنے کا اختیار ملنا چاہئے۔ایران نے پاکستان میں صنعتی اداروں کے
قیام کیلئے وقتاََ فوقتاََ پاکستان کی مالی امداد کی اور کئی سال تک کم
قیمت پر روزانہ بیس ہزار بیرل تیل فراہم کرتا رہا جبکہ 1982 میں پاکستان نے
ایران کو سات لاکھ ٹن سالانہ گندم کی ترسیل کا سلسلہ شروع کیا جو کافی مدت
تک جاری رہا۔ 1964 میں استنبول میں ایران ، ترکی اور پاکستان کے سربراہان
علاقائی تعاون برائے ترقی (R.S.D )کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد رکھی اور
تینوں ممالک کے درمیان آر سی ڈی شاہراہ بنائی گئی جو کراچی سے شروع ہو کر
ترکی کے شہر اڑیسہ تک تعمیر کی گئی ہے۔ اس کی ایک شاخ ایران میں بندر گاہ
عباس تک اور دوسری زاہدان سے بازرگان تک پھیلی ہوئی ہے۔اگرچہ شروع میں اس
تنظیم کی کارکردگی بہتر رہی مگر ایران میں انقلاب کے بعد اس تنظیم کی
کارکردگی ختم ہو گئی۔پاک ایران تعلقات بگاڑنے میں را نے بلوچ قومیت پرستی
کو ہوا دی اور گریٹر بلوچستان کے قیام میں ایران کی دلچسپی پیدا کی ، جس کا
بڑا مہرا اس وقت کلبھوشن یادیو اور حاجی بلوچ کی صورت میں پاکستان کے قبضے
میں ہے۔ 1971میں جب بنگلہ دیش وجود میں آیا تو شہنشاہ ایران سے ایک بیان
منسوب کیا گیا کہ اگر پاکستان مزید ٹوٹا تو ایران اپنے پڑوسی علاقے
بلوچستان کو اپنی تحویل میں لے لے گا۔ تاہم بعد میں شہشاہ ایران نے ان
خدشات کو کم کرنے کی کوشش کی اسکے علاوہ 1979میں جب نام نہاداسلامی انقلاب
آیا تو ایران نے امریکہ اور مغربی ممالک سے اپنے سفارتی اورسیاسی رابطے ختم
کر دئیے ۔اس انقلاب کے بعد ایران اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں گرم
جوشی نہ رہی اور زاہدان ریڈیو سے پاکستان کے خلاف امریکہ ایجنٹ ہونے کا
الزام عائد کیا جا تا رہا مگر اس کے بعد ایرانی حکومت کو پاکستان کی اہمیت
کا احساس ہونے لگا ۔ اکبر ولایتی کے دورہِ ء پاکستان میں دونوں ممالک کے
درمیان دوستی کی ترویج اور معاشی تعاون کے ایک معاہدے پر دستخط کیے گئے،
مگر بعد میں ایرانی انقلاب کو پاکستان ایکسپورٹ کرنے کی کوشش کی گئی تو
دوسری طرف مشرقِ وسطیٰ کے ممالک سے اسکو روکنے کی کوشش میں پاکستان مذہبی
فرقہ بندی کی وجہ سے فرقہ پرستی کی دہشت گردی کا ایسا شکار ہوا ہے جس کا
سلسلہ آج تک کم نہ ہو سکا۔
آج پاکستان اس فرقہ واریت اور نسلی تعصب کی غنڈہ گردی پر بہت حد تک قابو پا
چکا ہے ، لیکن پاکستان میں موجود موسوی، لوائے زینبیون اور فاطمیون کی روک
تھام بھی بے حد ضروری ہو چکی ہے۔ اسی لئے پاکستان نے کالعدم تنظیموں کو
قومی دھارے میں لانے کی بات کی اور اس کے بعد سے ان تنظیموں پر مسلسل کڑی
نگاہیں ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ایران کی موجودہ ہٹ دھرمی، پاکستان میں بھارتی
مداخلت کی اجازت دینے ، او ر گوادر پورٹ منصوبے کو ثبوتاژ کرنے کیلئے چاہ
بہار پورٹ میں بھارتی انویسٹمنٹ کا یقین ہونے کے باوجود ایران کے ساتھ
مذاکرات اور مشترکہ فورس بنانے کے پیچھے کا پسِ منظر یہ ہو سکتا ہے کہ
پاکستان میں موجود منی ایران نے یہ شرط دی ہو کہ ایران کو پاکستان خوش کر
لے تو داخلی سطح پر وہ پاکستان کی سالمیت کیلئے نقصان دہ ثابت نہیں ہوں
گے۔خیر یہ ایک بات ہو سکتی ہے لیکن عمران خان نہ بھولیں کہ ایرانی اپنے
سپریم لیڈر اور ا س کے انقلاب کے زیادہ وفادار ہیں بانسبت کسی بھی طرح کی
سرمایہ کاری کے۔ کیونکہ امریکہ اور ایران تعلقات سب کے سامنے ہیں۔نام نہاد
اسلامی انقلا ب کے بعد ایران کیلئے سب سے اہم تمام مسلم ممالک میں اپنا
اسلام پھیلانا ہے اس کے علاوہ سب دوہری پالیسیاں ہیں۔ |