جاوید ملک /شب وروز
روشنیوں کے شہر کی ننھی کلی مرجھاگئی
نشوہ زندگی کی آخری سانسیں بھی ہار گئی
شکر ہے اس کی وجہ موت ایک غلط انجکشن بنا ، وہ گلیوں میں دندناتے پھرتے کسی
جنسی درندے کی حیوانیت کا شکار نہیں ہوئی ، کسی بد عمل معلم کی وحشت کی
بھینٹ نہیں چڑھی ، کسی اندھی گولی کا نشانہ نہیں بنی ،ورنہ تو ہر روز اس
ارض پاک پر نہ جانے کتنی نشوہ معاشرے کی بے اصولی اور نظام کی بدبختی پر
قربان ہوجاتی ہیں ۔
نشوہ اس لیئے منفرد ہے کہ اس کی موت نوحہ بن گئی ،وقتی طور پر ہی سہی مگر
اس نے سوئے ہوئے ضمیروں کو جھنجوڑ ضروردیا ،اس کی بے نور آنکھوں کے سوال اس
قدر وحشی تھے کہ ہر شخص کانپ گیا ، معصوم بچی کی لاش پر بلکتے باپ سینہ
کوبی کرتی ماں کی چیخیں تازیانے کی طرح ہماری بے حسی پر برسیں مگر اب بھی
مجھ سمیت کوئی بھی وثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ نظام کی سولی پر چڑھنے والی
قوم کی اس بچی کو انصاف میسر آئے گا کیونکہ بد قسمتی سے اس ملک میں انصاف
اتنا مہنگا ہے کہ غریب کو موت کی قیمت پر بھی نہیں ملتا ۔
میں جانتا ہوں کہ نشوہ خبر بنی تو اس کا دکھ ملک کے کونے کونے میں بسنے
والے ہر شخص کی آنکھ سے آنسو بن کر بہتا رہا اس کی تکلیف نے سب کو بے چین
بھی کیا مگر اصل ماتم یہ ہے کہ اس قوم کا حافظہ ملکی معیشت سے بھی زیادہ
کمزور ہے ۔ ابھی چند ماہ پہلے یہ قوم سانحہ ساہیوال پر ٹسوے بہا کر ان بے
گناہوں کو یادوں سے محو کرچکی ہے ، ماڈل ٹاؤن کی درندگی پر مٹی ڈال چکی ہے
انہیں تو مظفر گڑھ کی وہ سونیا بی بی بھی یاد نہیں جس نے قانون کی چوکھٹ پر
شعلوں کا کفن اوڑھ لیا تھا مگر طاقت ور کی تجوری کھلی تو انصاف نے گھنگرو
باندھ لیئے تھے انکوائری کمیٹی نے لکھا کہ انصاف نہ ملنے پر خود سوزی کرنے
ولای خاتون ڈرامہ کررہی تھی ۔
جب کوئی سانحہ رونما ہوتا ہے دو چار روز شام غریباں بپا کی جاتی ہے ادارے
مستعدی کے ریکارڈ توڑتے ہیں حکمران بیانات داغتے ہیں ٹی وی چینلز کی
سکرینیں چھنگاڑتی ہیں اخبارات کی شہ سرخیوں سے شعلے لپکتے ہیں پھر سب لسی
پی کر سوجاتے ہیں ایسے بھول جاتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں فائلوں پر گرد
کی تہہ بسیرا جمالیتی ہے نظام اپنی غلاظت اور فرسودگی کے ساتھ ہمارا منہ
چڑھاتا ہے اور ہم کسی بے زبان جانور کی طرح اس کی چابک پر سرپٹ دوڑتے ہیں ،
ہانپتے کانپتے بس دوڑے چلے جاتے ہیں ۔
عمران خان نے برسوں بعد اس قوم کی آنکھوں میں تبدیلی کے خواب سجائے تھے ،ادھ
موئی امیدوں کو نئی سانسیں دی تھیں مجھے ان کے اخلاص کا یقین بھی ہے مگر
رضیہ غنڈوں میں پھنس گئی ہے گزشتہ روز بلاول بھٹو جب اسمبلی میں کہہ رہے
تھے کہ ایک آنکھ سے دیکھتا ہوں تو مشرف کابینہ دوسری آنکھ سے دیکھتا ہوں تو
پیپلز پارٹی کی کابینہ دکھائی دیتی ہے تحریک انصاف کی کابینہ کہاں ہے اس پر
شور و غل کرنے والے حکومتی بنچوں کے ارکان کو اپنے سر پیٹنا چاہیے تھا کیا
بائیس سالہ جدوجہد کا چہرہ مانگے تانگے کی کابینہ ہے بائیس سالہ تربیت کا
حاصل مراد سعید ، زرتاج گل ، شریں مزاری اور گنڈا پوری ہیں ۔
اقتدار سنبھالتے ہی عمران خان کی ناک کے بال بن جانے والے سبھی چہرے
متنازعہ ہیں میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ کپتان سے یہ فیصلے کون کرواتا ہے
۔ نئے وزراء کے انتخاب پر تو بہت لے دے ہوچکی ذرا نو رتنوں کا ہی جائزہ لے
لیں ۔ عمران خان کی آنکھ کا ایک تارہ یوسف بیگ مرزا ہے جنہیں وزیر اعظم کا
معاون خصوصی تعینات کیا گیا ہے یہ صاحب پہلے مشرف اور بعد ازاں پی پی دور
میں بھی ایم ڈی پی ٹی وی رہ چکے ہیں کروڑوں روپے کی کرپشن کے الزامات ہر
دور میں ان پر عائد ہوتے رہے ہیں اور اب نیب تحقیقات بھی کررہا ہے ایک اور
غیر اعلانیہ معاون خصوصی بھی ہیں جن کی نیک نامی کا اندازہ اس بات سے لگایا
جاسکتا ہے کہ پیپلز پارٹی دور میں وزارت اطلاعات کی راہ داریوں میں وہ مک
مکا درانی کے نام سے جانے جاتے تھے سنا ہے خفیہ اداروں نے بھی کچھ صاحبان
کے کرتوتوں سے کپتان کو آگاہ کیا ہے ان لوگوں نے اختیارات کے تجاوز سے
تبدیلی کا حلیہ بگاڑ دیا ہے اور اب تبدیلی بالوں میں مٹی ڈالے بین کررہی ہے
آٹھ ماہ بہت ہوتے ہیں امید ہے کہ وزیر اعظم کی آنکھوں سے پٹی ہٹ گئی ہوگی
اور کچھ مزید سخت اقدامات دیکھنے کو ملیں گے ورنہ ریزہ ریزہ خوابوں کی
کرچیاں تو برسوں سے ہم سمیٹتے آہی رہے ہیں بلا کے سخت جان ہیں یہ دھوکہ بھی
سہہ جائیں گے ۔ |