ملک میں جاری لوک سبھا انتخابات کے تیسرے مرحلہ تک جس
انداز میں ووٹنگ ہوئی ہے ،اور تقریباً تین سونشستوں پر پولنگ مکمل ہوچکی ہے
،انتخابی مہم کے دوران جو سرگرمیاں اور حرکتیں جاری ہیں ،اس سے اندازہ
ہورہا ہے کہ آئندہ چار مراحل میں برسراقتدار بی جے پی اور اس کے اتحاد این
ڈی اے اور حزب اختلاف میں شدید گھمسان ہونے کا امکان ہے ،کیونکہ ہر کسی کی
زبان اخلاقی طورپر سب کچھ بھول چکی ہے ،اتنا کہا جاسکتا ہے کہ 17ویں لوک
سبھا کے الیکشن اپنی نوعیت کے الگ انتخابات ہوں گے اور ان کے نتائج بھی سب
کو حیران کردیں گے۔
2014میں سیاسی پارٹیوں کے ذریعہ انتخابی مہم اور تشہیر کے لیے جو اقدامات
کیے گئے ،ان کی وجہ سے انتخابی مہم کا طریقہ بدل گیا تھا جوکہ اس مرتبہ بھی
برقرار ہے۔شمالی ہند میں جو جوش وخروش نظرآرہا ،جنوب اور مغربی ہندوستان
میں اتنا شورشرابہ نہیں ہے،پھر انتخابی جلسوں اور ریلیوں کا انعقاد جاری
وساری ہے۔ورنہ 1951میں پہلے انتخابات سے 90کے عشرے تک جو تشہیر اور انتخابی
مہم کے دوران جو حالات ہوتے اور رات دن میں ایک جیسا ماحول رہتا تھا،اسے
بھلایا نہیں جاسکتا ہے ،لیکن اچانک 90کی دہائی میں چیف الیکشن کمشنر ٹی این
سیشن کی شکل میں ایک ایسا عہدیدار جلوہ افروز ہوا کہ اس نے کمیشن کے قوانین
کو بھر پور انداز میں نافذ کیا اور تقریباً25-30سال گزرجانے کے بعد اس کا
اثر نظرآرہا ہے۔شام میں ہونے والے جلسے صبح سویرے تک جاری رہتے اور کوئی
سننے بولنے والا نہیں تھا ۔جلسوں اور جلوس کے لیے وقت کی پابندی اور
لاؤڈاسپیکر کا بیجا استعمال ،پوسٹر اور بینرس بازی کا خاتمہ ہوا ،کمیشن کے
قوانین وضوابط کے بھر پور انداز میں نافد ہونے سے خاطر خواہ نتائج سامنے
آئے ہیں۔وقت کی پابندی پر بھی عمل آوری ہوئی ہے ،ورنہ بڑے لیڈروں کے انتظار
میں صبح ہوجاتی تھی،ایک ساتھ یا دوتین مراحل میں ہونے والے انتخابات میں
تشدد اور خون خرابہ میں قیمتی جانیں ضائع ہوتی تھیں ،اس بار انتخابات سات
مراحل میں ہونے والے ہیں اور فی الحال تین مرحلے پُرامن طورپر ہوچکے ہیں
اور چوتھا مرحلہ پیر 29اپریل کو منعقد کیا جائے گا جبکہ بقیہ مراحل 19مئی
تک مکمل ہوجائیں گے اور 23مئی کو نتائج کا دن ،امیدواروں اور رائے دہندگان
کے لیے قیامت کا دن ہوگا۔
ملک میں سات مراحل میں ہونے والے انتخابات دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا
اہم ترین الیکشن ہے اور اسے ایک خاموش انقلاب بھی قراردیا جاسکتا ہے ،فی
الحال مجموعی طورپر پولنگ پُرامن رہی ہے البتہ مغربی بنگال، آندھراپردیش
اور ایک دوریاستوں میں معمولی تشدد پیش آیا ہے ،عام طورپر انتخابی مہم کے
دوران ایک امیدوار کو پارٹی کا بینراور نشان ملنے کے بعد بھی کافی محنت
کرنی پڑتی ہے ،لیکن تشہیری ایجنسیوں اور اداروں نے اس طریقہ کار کو آسان
کرکے رکھ دیا جبکہ ذرائع ابلاغ کی محتاجی لینے بجائے سوشل میڈیا کا رول اہم
ہوچکا ہے اور ہر کوئی اس کا بھر پورفائدہ اٹھانے کی کوشش میں لگا ہے ،جس کو
سب سے زیادہ بھارتیہ جنتاپارٹی نے استعمال کیا اور یہ طریقہ اس کے لیے
فائدہ مند بھی رہا ،لیکن اس کے ساتھ ساتھ گلے کی ہڈی بھی بن چکا ہے ،کیونکہ
سوال وجواب میں بی جے پی رہنماء کھسیانی بلی کھمبا نوچے کی مترداف ہوجاتے
ہیں۔بی جے پی نے پچھلی بار تشہیر کے لیے جوطریقہ کار اپنا یا ہے ،اسے سبھی
نے اچک لیا بلکہ پہلے چند ایک ہائی فائی امیدوار ہی اس طریقہ کو اپنا تے
تھے،لیکن اب سب اس دوڑ میں شامل ہوچکے ہیں اور اس کے بہتر اثرات کی امیدہے۔
ملک کی 17ویں لوک سبھا کے لیے ہورہے الیکشن کے دوران بھارتیہ جنتاپارٹی نے
پہلے دومراحل میں ترقی اور عوامی فلاح کے نعرے کو مضبوطی سے پکڑا ،اعلیٰ
رہنماء تو اسے ہی تھامے ہوئے تھے،لیکن اچانک کیا ہوا کہ بی جے پی کی ٹرین
پڑی سے اتر گئی ہے ، سینکڑوں امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ ای وی ایم مشینوں
میں بند ہوچکا ہے ،لیکن اس درمیان یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ ترقی اور
عوامی فلاح وبہتری کے نام پر ووٹوں کی مانگ کرنے والی برسراقتدار بھارتیہ
جنتا پارٹی (بی جے پی) نے تفرقہ ڈالنے کی پالیسی اورجارحانہ رُخ اختیار
کرلیا ہے۔بھوپال سے مالیگاؤں بم دھماکوں 2008کی ملز م سادھوی پرگیہ سنگھ
ٹھاکرکو انتخابی میدان میں امیدوار بنانے کااعلان کرنا ،واضح اشارہ کرتاہے
کہ بی جے پی کو کہیں نہ کہیں کوئی بات کھٹک رہی ہے ،اور وزیراعظم
نریندرمودی سمیت بی جے پی کی اعلیٰ لیڈرشپ سادھوی کو’ ہندودہشت گردی ‘کے
الزام کا جواب قراردے رہے ہیں ،کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مودی جی
صرف ایک پارٹی کے لیڈر بنے رہنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں،انہوں نے انتخابی
مہم کے دوران جس انداز کے بیانات دیئے اور جوطریقہ کار اختیار کیا ،وہ ان
کو زیب نہیں دیتا ہے ،
اس میں کوئی شک نہیں کہ بی جے پی نے ان پانچ سال کے دوران ترقی کو اہم
موضوع بنایا تھا ،لیکن تقریباً چھ مہینے قبل اسے احساس ہوا کہ اس عرصہ میں
لیے گئے چند ایک فیصلہ اسے کہیں نہ کہیں نقصان پہنچا سکتے ہیں اور اقتدار
تک پہنچنا مشکل ہوجائے گا تو اچانک اس نے قوم پرستی ،فرقہ پرستی اور ہندتوا
جیسے نعروں کو اپنا لیا ،اس درمیان کئی ایسے واقعات اور وارداتیں پیش آئیں
کہ ہر کوئی سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ ’وکاس ،وکاس‘ چلانے اور چیخنے والے کس
دگڑ پر چل چکے ہیں ،بھارتیہ جنتا پارٹی نے ترقی کے نام پر ووٹ مانگنے کی
ایک اچھی شروعات کی تھی ،لیکن اچانک خود اس کی ہمنوا تنظیموں کے موڑبدل گئے
ہیں،انہوں نے من مانی کرنا شروع کردی ہے ،الیکشن کمیشن ،عدلیہ اور انتظامیہ
کے متعدد فیصلے رنگ ڈھنگ بدل جانے کی گواہی دے رہے ہیں۔
جیسے کہ پہلے بھی اس بات کا ذکرکیا جاچکا ہے کہ انجانے خوف کا شکار بی جے
پی اب مہاراشٹر نونرمان سینا کے سربراہ راج ٹھاکرے سے بھی سہمی ہوئی ہے اور
مہاراشٹر میں ہر ایک لیڈر اسے کوس رہا ہے ،دوسری طرف حال کے کئی واقعات میں
الیکشن کمیشن شش وپنچ میں مبتلا نظرآرہا ہے ،سادھوی پرگیہ سنگھ کے الیکشن
لڑنے کے بارے میں صحیح موقف پیش کرنے میں کمیشن ناکام رہا جبکہ این آئی اے
عدالت کا فیصلہ بھی کوئی واضح رُخ پیش نہیں کرسکا ہے ،جیسے جیسے دن گزررہے
ہیں ،ایسا ماحول بنتا جارہا ہے کہ کسی کوکچھ نہیں سمجھ پڑرہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس عشرہ کے آغاز سے وقت نے کروٹ لے لی ہے ،ہر ایک ہاتھ
اسمارٹ فون ،اور اس میں سوشل میڈیا کی سرگرمیاں کسی کے لیے خطرناک ثابت
ہوسکتی ہیں،جائزہ لیجئے ،نوجوان ہی نہیں لڑکپن کی دہلیز کو چھورہے بچوں کو
اچھے بُرے کی تمیز ہوچکی ہے ،سوال وجواب کے اس سنگین دور میں چاہے بی جے پی
ہو یا کانگریس اور کوئی دوسری سیاسی پارٹی ایک عام آدمی اپنے ہاتھ ایسی
طاقت رکھتا ہے کہ اس کی بنیاد پر وہ بڑے سے بڑے طرم خان سے سوال کرسکتا ہے
کہ یعنی اب زمانہ ایسا ہے کہ ’’آپ کو ان کے سوال کا جواب اور اپنی کارکردگی
کا حساب دینا ہوگا۔‘‘انتظار کی گھڑیاں ختم ہوچکی ہیں۔ |