پاکستان میں عام روایت ہے رمضان کی آمد سے قبل حکومت کی
طرف سے غریب آدمی کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے ریلیف پیکج کا اعلان کیا
جاتا ہے۔ سستے رمضان بازار سجائے جاتے ہیں،پنجاب میں شہبا ز شریف کے دور
حکومت میں سستی اشیاء کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے ہر سٹال پر خادم
اعلیٰ کی تصویر کو آویزاں کیا جا نا لازم تھا۔ گملے سے لیکر انڈوں کے سٹال
تک خادم اعلیٰ نظر آتے۔ خادم اعلیٰ چینی، خادم اعلیٰ آٹا، خادم اعلیٰ نمک،
خادم اعلیٰ برائلر،یہ کچھ ہی نہیں ان بازاروں کو چیک کرنے کیلئے صوبائی
وزیر بلال یسین تک ہیلی کاپٹر کا استعمال کرتے۔ ضلعی انتظامیہ امن و امان
قائم رکھنے کے ساتھ رمضان بازاروں کے دوروں پر توجہ مرکوز رکھتی۔ وقت بدل
گیا، حکومت بدل گئی، خاد م اعلیٰ نیب کی تحویل سے نکل کر لندن چلے گئے۔ نیا
پاکستان بن گیا، نئے پاکستان کے نئے وزیر اعلیٰ وسیم اکرم پلس عثمان بزدار
نے بھی رمضان بازار سجائے، ان بازاروں میں کیا ملتا ہے، کتنے میں ملتا ہے،
معیار کیا ہے،اس پر تبصرہ نہیں کروں گا۔ قارئین بہتر آْگاہی رکھتے ہیں۔
رمضان المبارک پاکستان میں روایتی طور پر گراں فروشی کیلئے مخصوص رہا ہے۔
تاجر برادری، تبلیغ اور دعوؤں کے برعکس رمضان کی آمد سے دو چار روز قبل ہی
قیمتیں بڑھنا شروع ہو جاتی ہیں۔ دوکاندار حسب خواہش قیمتوں میں اضافے کا
فرض ادا کرتے ہیں،جبکہ حکومت وقت رمضان المبارک میں گراں فروشی کے خلاف
متحرک نظر آتی ہے۔ نئے پاکستان میں اس مرتبہ کچھ نیا ہی ہوا، تاجر طبقے کے
ساتھ خود حکومت نے بھی اپنے صوابدید پر تیل پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں
اضافہ کرکے گرانی بڑھانے کا فریضہ انجام دیا۔ رمضان المبارک میں عوام پرد
وہری ضرب لگی،پہلے دوکاندار اپنی اجناس اور مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر
کے عوام پر ضرب لگاتے تھے تو حکومت گراں فروشی کے خلاف کاروائی کرتی، اس
دفعہ دوسری ضرب حکومت نے خود ہی لگا دی۔ رحمتوں اور برکتوں والا یہ مہینہ
روحانی طور پر تو ہمیں مالا مال کرتا ہے، معاشی طور پر پریشانی بڑھ جاتی
ہے۔ امن و امان بھی رمضان المبارک کے مہینہ میں اہم موضوع ہے۔ اس حوالہ سے
بھی سانحہ داتا دربار نے عام آدمی کو تشویش میں مبتلا کردیا۔ کہیں یہ حقیقت
تو نہیں کہ دہشتگردی واپس آرہی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری تو پہلے ہی نیشنل
ایکشن پلان پرعمل درآمد نہ ہونے پر رد عمل دے چکے ہیں۔ ایک طرف مہنگائی نے
عوام کو پریشان کیا تو دوسری طرف دہشتگردی، حکومت اپنے دعوؤں کے ساتھ عملی
اقدامات اٹھانے میں بھی مصروف ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار بھی فوٹو
سیشن کرواتے نظر آئے، اپوزیشن جسکا کام ہے کہ وہ عوام کی ترجمانی کرے اس کے
لئے سب سے بڑا مسئلہ نواز شریف کا جیل جانا تھا، نہ کہ عام آدمی کیلئے
افطاری کے وقت راشن کا انتظام اور ن لیگ کی قیادت خواہشمند تھی کہ عوام
سڑکوں پر امڈ آئیں۔یکم رمضان کو جلوس کی شکل میں میاں نواز شریف کو جیل میں
چھوڑ کر آنے کی نئی روایت قائم ہوئی، مجھے حکومت سے ہمدرد ی نہیں مگر سزا
یافتہ قیدی کیلئے رمضان المبارک میں اس طر ح کی سیاسی سرگرمی بھی قابل
تعریف اور قابل تقلید نہیں۔رمضان المبارک میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کا
طرز عمل درست نہیں۔
حکومت کی سیاسی او رعوامی سوجھ بوجھ کا یہ حال ہے کہ وہ اعداد و شمار کی
بجائے رمضان المبارک میں بھی اپوزیشن پر الزام تراشی، کرپشن اور چوری کے
الزامات لگا کر عام آدمی کو ریلیف دینا چاہتی ہے۔ عوام کی تکلیف اور بے
چینی کو ختم کرنے کیلئے حکومتی وزراء پورے جوش و خروش سے سیاسی مخالفین کو
لعن طعن کرنے میں مصروف ہیں۔ کیا عوام ایسے مطمئن ہو جائے گی، بین الاقوامی
ادارے نے صاف صاف کہہ دیا مہنگائی بڑھے گی، قیمتوں میں اضافہ ہوتا رہے گا۔
اس سے روگردانی ممکن نہیں، رمضان المبارک گزر بھی گیا تو اب مہنگائی کا یہ
طوفان تھمنے والا نہیں۔ نواز شریف جیل میں رہے یا آزاد، عام آدمی کے دن
پھرنے والے نہیں۔
|