اسلامی ممالک میں رمضان المبارک کا احترام پھر سے ایک مرتبہ پامال

یہ اسلامی ممالک میں کیسے دہشت گرد ہیں جنہیں مسلمان کہتے ہوئے بھی شرم محسوس ہوتی ہے کیونکہ ابھی رمضان المبارک کا آغاز ہونے ہی والا تھا کہ شمالی افغانستان کے صوبہ بغلان میں صوبائی پولیس ہیڈ کوارٹرز پر خودکش بم دھماکے اور مسلح شدت پسندوں کے حملے میں متعدد سیکیوریٹی اہلکار ہلاک و زخمی ہوگئے ۔ افغانستان کے صدر اشرف غنی نے اس حملے سے دو روز قبل ہی طالبان کو ماہِ صیام المبارک کے احترام میں جنگ بندی کی پیشکش کی تھی لیکن انکے صدر کی اس پیشکش کے دو بعد ہی پُل خمری میں صوبائی پولیس کے ہیڈکوارٹر کے قریب بم دھماکے سے حملہ کیا گیا پھر فائرنگ کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق حملے کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی ہے ، طالبان کے ترجمان ذبیح اﷲ مجاہد نے دعویٰ کیا ہے کہ حملہ آور ہیڈکوارٹر کے اندر داخل ہوگئے تھے ۔ طالبان کی جانب سے جاری کئے گئے بیان کے مطابق ایک خودکش حملہ آور بارود سے بھری ایک جیپ پر سوار تھا اس نے اس جیپ کو ہیڈکوارٹر کے سامنے دھماکے سے اُڑالیا ، طالبان کے چند ساتھی سرکاری سیکیوریٹی اہلکاروں سے لڑرہے تھے۔ بغلان کے پبلک ہیلتھ ڈپارٹمنٹ کے ڈاکٹر مبارک حبیب کے مطابق بغلان کے سینٹرل ہسپتل میں گولیوں سے زخمی 40افراد کو لایا گیا جن میں سیکوریٹی فورسز کے اہلکاروں کے علاوہ خواتین و بچے بھی شامل بتائے گئے۔ جبکہ ایک نجی ہاسپتل آٹھ اہلکاروں کو شریک کیا گیا جن میں دو اہلکاروں کی حالت تشویشناک بتائی گئی۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ افغانستان کے صدر اشرف غنی ملک میں امن و سلامتی کیلئے طالبان سے جنگ بندی معاہدہ چاہتے ہیں لیکن طالبان اشرف غنی کی حکومت کو کٹھ پتلی حکومت قرار دے کر ان کی حکومت سے بات چیت کرنا نہیں چاہتے۔ صدر کی جانب سے گذشتہ دنوں دارالحکومت کابل میں چار روزہ مشاورتی لویا جرگے (بڑا اجتماع ہے ، افغانستان میں اہم سیاسی و سماجی معاملات پر بات چیت کیلئے جرگوں کا انعقاد 18ویں صدی عیسوی میں احمد شاہ درانی کے دور سے ہوااور افغان آئین کے مطابق لویا جرگہ عوامی رائے کا سب سے اہم ترین اظہار قرار دیا جاتا ہے)کا آغاز ہوا تھا اور صدر اشرف غنی نے اس موقع پر کہا تھا کہ یہ جرگہ طالبان سے مذاکرات کے ڈھانچے اور ان سے بات چیت کے لئے حدود کا تعین کرے گا۔ جرگے کے افتتاحی اجلاس میں ملک بھر سے 3200نمائندوں نے شرکت کی جس میں خواتین کی بڑی تعداد بھی موجود تھی۔اس موقع پر صدر نے اس اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نہ صرف انہیں جرگے پر مکمل اعتماد ہے بلکہ ہر افغان شہری آپ پر بھروسہ کرتا ہے کہ آپ اپنی فہم و فراست اور ذہانت کو استعمال کرتے ہوئے اس ملک کے مستقبل کا تعین کریں گے۔ سمجھا جارہا تھا کہ پوری قوم کی نظریں اس مشاورتی جرگے پر ہیں ۔لیکن طالبان کی جانب سے جاری کئے گئے ایک بیان میں اس لویہ جرگے کو ایک ناکام کوشش قرار دیا ہے اور مزید بتایا گیا کہ یہ جرگہ امریکی قبضے کو جواز فراہم کرنے کیلئے منعقد کیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ اشرف غنی کی جانب سے بلائے جرگہ سے کئی سیاسی قائدین بشمول ملک کے چیف ایگزیکیٹو عبداﷲ عبداﷲ نے بھی اس کا بائیکاٹ کیا ہے انہوں نے صدر اشرف غنی کو اس جرگے سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش قرار دیا ہے۔ صدر افغانستان کی کوشش ماہِ صیام سے قبل جنگ بندی کی تھی لیکن طالبان نے جس طرح صوبہ بغلان میں ہوئے خودکش بم دھماکہ اور فائرنگ کی ذمہ داری قبول کی ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ملک امن و آمان کی بحالی کیلئے طالبان راضی نہیں ہیں اور وہ ایک ایسے موقع پر جبکہ مسلمان ماہ مبارک کی رحمتیں ، سعادتیں اور برکتیں حاصل کرنے کی تیاریوں میں تھے کہ یہ دھماکہ کرکے پھر ایک مرتبہ ملک میں خوف و ہراس کا ماحول پیدا کردیا گیا ہے کاش طالبان اسلامی وقار کو ملحوظ رکھتے ہوئے ملک میں امن و سلامتی کیلئے خود پہل کرتے۰۰۰

ماہِ صیام کے آغاز پرپاکستان میں دہشت گردانہ حملہ
رمضان المبارک کے دوسرے روزے کے ابھی چند گھنٹے گزرے ہی تھے کہ اسلامی ملک پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور میں صوفی بزرگ داتا گنج بخش ؒ کے مزار کے باہر خودکش حملہ کیا گیا یہ حملہ داتا گنج دربار کے گیٹ نمبر دو پر تعینات ایلیٹ فورس کی گاڑی کو مبینہ طور پر نشانہ بنایا گیا جس میں نو افراد جن میں دو خواتین ، ایک سیکوریٹی گارڈ اورپولیس اہلکاروں کے علاوہ عام شہریوں کی ہلاکت بتائی جارہی ہے ،اس حملہ میں 25افراد بشمول چار پولیس اہلکار زخمی بتائے جارہے ہیں۔ لاہور میں اندرون شہر کے گنجان آبادی والے علاقے میں واقع حضرت داتا گنج بخش ؒ کا مزار واقع ہیں جہاں پرہرروز سینکڑوں عقیدت مند حاضری دیتے ہیں ۔ حملہ کے بعد پنجاب پولیس کے سربراہ عارف نواز خان نے اس دہشت گرد حملہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب بھر میں سماج دشمن عناصر کے خلاف کریک ڈاؤن کا سلسلہ جاری ہے اورانہوں نے کہا کہ پولیس پر حملہ دہشت گردوں کی بوکھلاہٹ کی علامت ہے۔داتا گنج بخش ؒ کی مزار کو اس سے قبل بھی دہشت گردوں کیجانب سے نشانہ بنایا جاتا رہا ہے ، 2؍ جولائی 2010ء میں دو خودکش حملہ آوروں نے درگاہ کے احاطے میں داخل ہوکر اپنے آپ کو دھماکے سے اڑا لیا ھتا جس کے نتیجے میں کم و بیش 42افراد ہلاک اور 175افراد زخمی ہوئے تھے۔ افغانستان اور پاکستان میں دہشت گردمختلف ناموں سے اپنے آپ کو جہادی تنظیموں سے وابستہ بتاتے ہیں جبکہ اسلام ایک امن پسند مذہب ہے اور ایسے موقع پر جبکہ ماہِ صیام کا آغاز ہوچکا ہے ایسے میں اگر کسی نام نہاد جہادی تنظیم یا فرد ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرتا ہے تو اسکا اسلام سے تعلق بھی شک کے دائرے میں شمار ہوگا کیونکہ ایک مسلمان اپنے اس عظیم الشان مذہب اسلام کے آغاز سے قبل ہی اپنے گناہوں پر نادم ہوکر خالق حقیقی کو منانے کی تیاریاں کرتا ہے اور سب کچھ گناہوں سے اجتناب کرکے روزہ ، نماز کی پابندی کرتے ہیں جبکہ نام نہاد اسلامی گروپ اگر خودکش حملے کررہے ہیں تو اس کی ہر صورت میں شدید مذمت کی جانی چاہیے۔

ترکی شہر استنبول کے میئر کے دوبارہ انتخابات
انتخابات میں کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ عوام اپنے حق رائے دہی کے ذریعہ کرتے ہیں لیکن ان دنوں عوامی فیصلہ کو ماننے سے انکار کیا جارہا ہے اس کی وجہ ہے بیلٹ باکس مشنوں میں گڑبڑکرنا۔ ہمارے ملک ہندوستان میں عام انتخابات کا سلسلہ جاری ہے ، اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے حکمراں جماعت بی جے پی پر الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ بیلٹ باکس میں ہیرا پھیری کی جارہی ہے جس کی وجہ سے بی جے پی کی کامیابی کئی مقامات پر یقینی دکھائی دیتی ہے لیکن سچ کیا ہے اس سلسلہ میں کچھ کہانہیں جاسکتا۔ اسی طرح ترکی کے شہر استنبول میں مارچ میں میئر کیلئے ہوئے انتخابات میں صدر رجب طیب اردغان کی جماعت اے کے پی کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا جبکہ اپوزیشن جماعت سی ایچ پی سے تعلق رکھنے والے ایکرم امامو گلو نے استنبول میں میئر کیلئے کامیابی حاصل کی تھی لیکن صدر رجب طیب اردغان کی پارٹی نے ان انتخابات میں منظم بدعنوانی اور بے قاعدگیوں کا ذکر کرتے ہوئے احتجاج کیا تھا کہ جس کی وجہ سے انتخابی بورڈ نے یہاں پر دوبارہ انتخابات منعقد کروانے کا اعلان کیا ہے۔ دوبارہ انتخابات کے فیصلہ پر ترکی کے صدر رجب طیب اردغان نے انتخابی بورڈ کی جانب سے کئے گئے فیصلہ کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ’’چوروں نے بیلٹ باکس کے ذریعے قومی امنگوں کو چوری کرلیا تھا‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ ان انتخابات میں منظم بدعنوانی اور بے قاعدگیاں ہوئیں تھیں۔ صدر اردغان کا کہنا ہیکہ استنبول میں دوبارہ انتخابات کا ہونا ایک بہترین جمہوری عمل ہے جبکہ اپوزیشن جماعت سی ایچ پی سے تعلق رکھنے والے ایکرم امامو گلو نے دوبارہ انتخاب کرانے کو غداری قرار دیا ہے ، حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ انتخابی بورڈ نے صدر رجب طیب اردغان کے دباؤ میں استنبول میں دوبارہ انتخابات کرانے کا حکم جاری کیا ہے اس سلسلہ میں یوروپی پارلیمنٹ کا کہنا ہیکہاستنبول میں میئر کے انتخاب کے نتائج کو تسلیم نہ کرنا ترکی میں جمہوریت کی ساکھ کو ختم کردے گا ۔ترکی میں 21؍ مارچ کو بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے تھے حکمراں جماعت اے کے پی نے عمومی طور پر 51فیصد ووٹ حاصل کئے لیکن دارالحکومت انقرہ ، ازمیر اور استنبول میں حکمراں جماعت کے امیدواروں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ صدر رجب طیب اردغان بھی استنبول کے میئر رہ چکے ہیں اور ماضی میں کئی بار انہوں نے کہا ہے کہ جس کے پاس استنبول ہے اس کے پاس ترکی ہے ۔ بتایا جاتا ہیکہ 21؍ مارچ کو ہونے والے انتخابات میں حزب اختلاف کی جماعت سی ایچ پی کے ایکرم امامو گلو 14ہزار ووٹوں کی اکثریت سے فاتح قرار دیئے گئے تھے لیکن حکمراں پارٹی کے دباؤ کے پیشِ نظر دوبارہ انتخابات سے ظاہر ہوجائے گا کہ انتخابات میں بے قاعدگیاں اور بدعنوانی ہوئی تھی یا نہیں ۔دوبارہ انتخابات کے نتائج آنے کے بعد یہ بھی واضح ہوجائے گاکہ آیا صدر رجب طیب اردغان سے استنبول کے عوام بیزار ہوچکے ہیں یا انہیں آج بھی ویسے ہی چاہتے ہیں ۔ اب دیکھنا ہیکہ دوبارہ انتخابات کس طرح شفافیت کے ساتھ منعقد ہوتے ہیں اور اس کے نتائج کس کے حق میں آتے ہیں اور اگر نتائج حکمراں امیدوار کے حق میں آتے ہیں تو اپوزیشن کس طرح خاموشی اختیارکرتے ہوئے اسے مان لینگے۔

ایران اور امریکہ کے درمیان جنگی ماحول
ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ، گذشتہ دنوں امریکہ نے اپنا ایک جنگی بحری بیڑا خلیج فارس میں بھیجا ہے جس کے بعد ایران نے امریکہ کی جانب سے 2015میں طے پانے والے عالمی جوہری معاہدے سے یکطرفہ دستبرداری کے ایک سال بعد اعلان کیا ہے کہ وہ معاہدے کے کچھ اہم نکات سے دستبردار ہورہا ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق ایرانی صدر حسن روحانی کا کہنا ہیکہ تہران افزودہ یورینیئم کے ذخائر ملک میں رکھے گا ، تاہم یہ کسی دوسرے ملک فروخت نہیں کی جائے گی۔ انہوں نے انتہائی حد تک افزودہ یوینیئم کی پیداوار 60روز میں دوبارہ شروع کرنے کی دھمکی دی ہے ۔ ایران کے اس فیصلہ کے بعد اب دیکھنا ہے کہ دیگر عالمی ممالک کی جانب سے کس قسم کا اظہار کیا جائے گا ۔ ایران اور عالمی ممالک کے ساتھ جوہری معاہدے کا مقصد ایران کو اقتصادی پابندیوں سے چھوٹ دے کر اس کے جوہری عزائم کو روکنا بتایا جاتا ہے ۔ ان دنوں ایران کی معیشت بُری طرح متاثر ہورہی ہے اگر امریکہ کی جانب سے پابندیوں کا یہ سلسلہ جاری رہا اور دوسرے ممالک کے ساتھ بھی تعلقات ٹوٹ گئے تومعاشی طور پر ایران مزید بُری طرح متاثر ہوگا اور اس کا نتیجہ کیا نکلے گا اس سلسلہ میں کچھ کہا نہیں جاسکتا۔
***

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 358 Articles with 256372 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.