مسلمانوں کے خلاف نفرت وعناد پھیلانا وزیراعظم مودی کی
مجبوری ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں ۔ اول تو یہ کہ ان لوگوں نے اپنے بھکتوں
کے اندر مسلمانوں کے خلاف اس قدر زہر بھردیا ہے کہ اگر یہ امت کی ہمدردی
میں ایک لفظ بول دیں تب بھی ان کے رائے دہندگان پر گراں گزرتا ہے۔ بی جے پی
کو یہ پتہ چل گیا ہے کہ کچھ مفاد پرست مسلمانوں کو میڈیا میں دکھاوے کے لیے
تو خریدا جاسکتا ہے لیکن لاکھ کوشش کے باوجود بھی مسلم عوام بی جے پی کو
معاف نہیں کرے گی اور اس کے جھانسے میں نہیں آئے گی ۔ امت مسلمہ آنکھیں
موند کر بھیڑ بکریوں کی مانند اپنے رہنماوں کی پیروی نہیں کرتے ۔ وہ جس کسی
کو دیکھتے ہیں کہ اس نے کمل تھام لیا ہے تو اس سے پیٹھ پھیر لیتے ہیں ۔ اس
کی تیسری اورآخری وجہ یہ ہے کہ جو نااہل حکومت اپنے سارے منصوبوں میں
اوندھے منہ گر جائے اس کےلیے قوم پرستی آگ بھڑکا کر اس پر اپنی سیاسی
روٹیاں سینکنے کے علاوہ اس کے پاس کوئی چارۂ کار نہیں رہتا۔ یہ قوم پرستی
چونکہ کشمیر اور پاکستان کے خلاف بھڑکائی جا رہی ہے اس لیے اس کی آنچ
مسلمانوں پر بھی آجاتی ہے۔
دلتوں کا معاملہ اس سے مختلف ہے ۔ ان کو بہلا پھسلا کر ساتھ کیا جاسکتا ہے
اس لیے دلتوں کی خاطر مگر مچھ کے آنسو بہانہ بی جے پی کی ضرورت ہے۔ یہی
وجہ ہے کہ نجیب احمد کی گمشدگی کو نظر انداز کرنے والے نریندر مودی کو روہت
ویمولا سے ہمدردی جتانی پڑتی ہے۔ محمد اخلاق اور پہلوخان کی وارداتوں پر
مونی بابا بنے رہنے والا وزیر اعظم اونا میں دلتوں کو گائے کے نام زدو کوب
کیے جانے پر بے چین ہوجاتا ہے اور اس کا ’دلت پریم‘ چھلکنے لگتا ہے۔ مودی
جی گجرات ہزاروں میل دور جاکر اعلان کر تے ہیں کہ ’’مارنا ہی ہے تو مجھے
گولی مارولیکن میرے دلت بھائیوں کو نہ مارو‘‘۔ افسوس کہ ہندوستانی جمہوریت
میں یہ مضحکہ خیز بیان بھی عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے کافی ہوجاتا ہے۔ اس
لیے کہ کوئی گئورکشک بھلا ’گئو براہمن پرتی پالک‘ کوگولی مارنے کا خیال بھی
اپنے دل میں نہیں لاسکتا ۔ اس پاکھنڈ کے بجائے مودی جی کو کہنا چاہیے تھا
کہ میں اونا میں ظلم کا ارتکاب کرنے والوں کو سخت سزا دلاوں گا، لیکن مودی
جی بھلا اپنے ہی لوگوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کا خطرہ کیسے مول لے سکتے
ہیں؟
وزیراعظم کا یہ بیان گجرات انتخاب سے پہلے کا تھا ۔ اس کے بعد دلتوں نے بی
جے پی کو سبق سکھایا اور اسے ۱۱۶ سے ۹۹ تک پہنچا دیا۔ گجرات کے اندر دلتوں
کے طاقتور رہنما جگنیش میوانی نے انتخاب میں کامیابی حاصل کی لیکن اس کے
باوجود زمینی حقائق نہیں بدلے۔ مودی جی کے آبائی ضلع مہسانہ میں ایک دلت
نوجوان کو اپنی برات میں گھوڑی پر بیٹھ کرجانے کی علی الاعلان سزا دی گئی۔
اس کے پورے سماج کا بائیکاٹ کردیا گیا۔ گاؤں کے سرپنچ نے دیگر رہنماؤں کے
ساتھ مندر سے فرمان جاری کیا کہ ان کے ساتھ کسی طرح کا میل جول نہ رکھاجائے
۔ کسی بھی دلت کو کھانا اور پانی نہیں دیاجائے۔ گاڑیوں پر بیٹھنے کی اجازت
نہ ہو۔کوئی گاؤں والا اگردلتوں کی مدد کرے تو اس سے پانچ ہزار جرمانہ وصول
کرنے کے بعد اس کو بھی گاؤں سے نکال دیا جائےگا۔اس اعلان کے بعد دکانداروں
نے ان کو دودھ یا دیگر ضروری گھریلو سامان تک بیچنے سے منع کر دیا ۔ اس
معاملے میں گاؤں کے سرپنچ وینوجی ٹھاکور کی گرفتاری کے علاوہ چار دیگر کے
خلاف بھی ایس سی –ایس ٹی ایکٹ کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا لیکن عام
طور پر دباو بڑھا کر ایسے مقدمات ختم کروا دیئے جاتے ہیں۔ سنگھ پریوار ہندو
سماج سے ذات پات کی تفریق مٹانے کا دعویدار ہے ۔ برسوں سے اسے گجرات میں
اقتدار حاصل ہے اب تو مرکز کی حکومت بھی اس کے پاس ہے اس کے باوجوداس سانحہ
کا ظہور کیا اس کی ناکامی نہیں ہے؟ یا یہ دعویٰ بھی پاکھنڈ ہے؟
دلتوں پر مظالم بی جے پی کے اقتدار تک محدود نہیں ہیں۔ راجستھان کے اندر
کانگریس کی حکومت ہے اور ایک مالی وزیر اعلیٰ ہے اس کے باوجود الور ضلع کے
تھانہ غازی تعلقہ میں کئی دبنگوں نے باری باری ایک نئی نویلی دلت دلہن کو
اغواء کرکے خاوند کے سامنے اس کی اجتماعی عصمت دری کی اور دھمکانے کے لیے
اپنی گھناونی حرکت کا ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل کردیا۔ اس حیوانیت کا
مظاہرہ کرنے والے درندوں کا تعلق بھی اپنے آپ کو پسماندہ کہنے والے گوجر
سماج سے ہے۔ اس واردات کو پانچ دنوں تک انتخابات کے پیش نظر دبا دیا گیا
اور پھر اس کے بعد پولس نے شکایت درج کی ۔ ابھی اس معاملے کی دھول بھی نہیں
بیٹھی کہ الور ہی میں حاملہ بہوکو ڈلیوری کے لیے لانے والی ساس کا سپتال کے
دو ملازم نے ریپ کردیا ۔ ملزمین نےا ٓبرو ریزی کے بعد متاثرہ کو خوفزدہ
کرنے کے لیے اس کے نوزائیدہ پوتے کوجان سے مارنے کی دھمکی دے دی ۔ یہ
شرمناک واقعات ایک ایسے وقت میں رونما ہوتے ہیں کہ جب ملک بھر میں جمہوریت
کا جشن بپا ہے اور ہر سیاسی جماعت دلتوں سے ہمدردی کا ڈھونگ رچا رہی ہے۔
دلتوں کی بابت کھوکھلے الفاظ سے قطع نظر مودی راج میںان کی حالت ابتر ہوئی
ہے۔ اس دوران نظم و نسق کا نظام اس طرح بگڑاکہ عوام کے دل سے قانون کا
احترام ہی ختم ہوگیا۔ جس کے من میں جب آیا اس نے جس کو چاہا موت کے گھاٹ
اتار دیا ، ہجومی تشدد ایک عام سے بات ہوگئی ۔ اس درندگی کا زیادہ تر شکار
مسلمان ہوئے لیکن دوسرے طبقات بھی اس کے نرغے میں آگئے اس لیے کہ معاشرے
کے اندر جب نفرت کی آگ بھڑکائی جاتی ہے تو کوئی بھی اس کی لپیٹ میں آسکتا
ہے۔ اسی ماہ بہار کے ارریہ ضلع میں ۴۴ سالہ مہیش یادو کورابرٹس گنج تھانہ
کے ہری پور گاؤں میں ایک بھیڑ نے مویشی چرانے کے شک میں پیٹ پیٹ کر مارڈالا
۔ پاکستان کو غیر مہذب ملک کہا جاتا ہے لیکن وہاں کے باشندوں نے ہندوستانی
فوج کے پائیلٹ ابھینندن کے ساتھ ایسا بہیمانہ سلوک نہیں کیا ۔اس سے فی
الحال وطن عزیز کی اخلاقی صورتحال کا پتہ چلتا ہے ۔ گزشتہ سال دسمبر میں
بھی ارریہ سے مویشی چوری کے شک کی بنیاد پر تقریباً ۳۰۰ لوگوں نے محمد کابل
پر حملہ کردیا تھا۔ اگر محمد کابل کے حملہ آوروں کو قرار واقعی سزا دی
جاتی تو مہیش یادو پر یہ وقت نہ آتا۔
بہار کو عام طور پر تشدد کا گڑھ سمجھا جاتا ہے لیکن اتراکھنڈ تو نام نہاد
مہذب براہمنوں کا علاقہ ہے۔ وہاں پر بھی حال میں ایک دلت نو جوان کو مبینہ
طور پر بےرحمی سے پٹائی کرکے ہلاک کردیا گیا۔ ٹہری ضلع میں جان گنوانے والے
۲۳ سالہ جتیندر داس کا قصور صرف یہ تھا کہ اس نے نام نہاد اونچی ذات کے
اشرافیہ کے برابر والی کرسی پر بیٹھکر کھانا کھا نے کی جرأت کی تھی۔
جتیندر کی بہن پوجا کے مطابق یہ واقعہ ایک دلت کی تقریبِ شادی میں پیش آیا
۔ وہ بدمعاش دلت کے یہاں دعوت اڑانے کے لیے تو بے حیائی سے پہنچ گئے مگر
ایک دلت جوان کو اپنے سامنے کھاتے دیکھ کر پکاراٹھے’’ یہ نیچ ہمارے ساتھ
کھانا نہیں کھا سکتا۔ کھائےگا تو مرےگا‘‘۔ پورے خاندان کی معاشی ذمہ داری
سنبھالنے والے جتیندر کی ہلاکت نے سارے اہل خانہ کو پریشانی میں مبتلا
کردیا ہے۔ اس معاملے میں ایس سی –ایس ٹی ایکٹ کے تحت معاملہ درج کرلیا گیا
لیکن کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ۔ٹہری کے علاقہ میں ۶ ماہ قبل بھی
شراب نہیں دینے کے جرم میں ایک دلت نوجوان کی پٹائی کی گئی تھی جوہنوز
لاپتہ ہے۔ پولس اس سنگین واردات کی ایف آئی آر تک درج کرنے کی روادار نہیں
ہے۔۔ اس طرح کے مظالم ’مجھے گولی ماردو‘ جیسے جملوں سے کم نہیں ہوں گے بلکہ
مجرمین کو سزا دینے سے ہی رکیں گے۔
ریزرویشن اور اس کی بنیاد پر ملنے والی سرکاری ملازمت کو ان مظالم کی روک
تھام کی تدبیرسمجھا جاتا ہے لیکن ۱۹۸۵ بیچ کے آئی اے ایس افسر جگموہن
سنگھ راجو نے پچھلے ہفتہ ایس سی ایس ٹی ایکٹ کے تحت چار افراد کے خلاف
شکایت درج کرانے کی کوشش کی تو پولس نے اس سے انکار کردیا۔ مجبوراً راجو کو
پسماندہ ذاتوں کے قومی کمیشن سے رجوع کرنا پڑا۔ راجو کو شکایت ہے کہ ۲۰۱۵
سے اس کی ترقی رکی ہوئی ہے اور اس کے جونیر آگے بڑھ چکے ۔ راجو کے ساتھ یہ
تفریق و امتیاز اس کی ذات کے سبب ہورہا ہے۔ راجو کو اندیشہ ہے کہ اسے اور
اس کے خاندان کی جان کو خطرہ ہے ۔ اس کے دوستوں نے خبردار کیا ہے کہ اس کے
ہاتھ پیر توڑ دیئے جائیں گے۔ جگموہن راجو کو یہ خطرات وزیراعظم کے دفتر سے
ہیں ۔۳۴ سال تک اعلیٰ عہدوں پر فائز رہنے والے سرکاری افسر کا اگر یہ حال
ہے تو اس سے عام دلتوں کی حالتِ زار کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔مسلمانوں
کی بابت تو خیر یہ کہا جاتا ہے کہ وہ بی جے پی حمایت نہیں کرنے کی سزا پاتے
ہیں لیکن یہ دلت سماج تو بڑی آسانی سے فسطائیت کا آلۂ کار بن جاتا پھر
اس کو کس بات کی سزا ملتی ہے؟
|