گزشتہ روز پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو
زرداری کے جانب سے اپوزیش پارٹیوں کے اعزاز میں ایک افطار پارٹی کا اہتمام
کیا گیا تھا جس میں مریم نواز سمیت مسلم لیگ(ن) کے سرکردہ راہنماؤں نے شرکت
کی ، پیپلز پارٹی کے اہم راہنما بھی اس موقعہ پر موجود تھے جبکہ مولانا فضل
الرحمن بھی اس افطار ی سے خاصے خوش اور پر امید ہو کر تشریف فرما تھے۔اس
اکٹھ کا نام تو افطاری تھا مگر دراصل یہ ایک سیاسی اجلاس تھا جس میں موجودہ
حکومت سے جان خلاصی کی تجاویز پر بحث کرنا مطلوب تھا ۔ کافی بحث و تمحیص کی
گئی، متعدد تجاویز سامنے آئیں مگر جس نکتہ پر اتفاق ہوا، وہ یہ تھا کہ عید
الفطر کے بعد آل پارٹی کانفرنس بلائی جائے اور تمام پارٹیوں کو ایک نکتہ پر
قائل کرکے اگلا قدم اٹھایا جائے۔کل امیر جمعیت علماء اسلام(ف) مولانا فضل
الرحمن نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ عیدالفطر کے بعد ہماری میز بانی
میں آل پارٹیز کانفرنس ہو گی ۔جس میں آئیندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔
سوال یہ ہے کہ کیا عید کے بعد اپوزیشن پارٹیاں کسی ایک نکتہ پر متفق ہو کر
حکومت کے خلاف موثر تحریک چلا سکی گی ؟اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لئے ہمیں
نہ صرف موجودہ حکومت کی عوام میں مقبولیت یا غیر مقبولیت کے گراف کو دیکھنا
ہوگا بلکہ اپوزیشن پارٹیوں کے سٹریٹ پاور اور اسٹیبلیشمنٹ کے رویہ کو بھی
مدِ نظر رکھنا ہو گا۔ جہاں تک موجودہ پاکستان تحریکِ انصاف پارٹی کی حکومت
کی اب تک کارکردگی اور عوام میں مقبولیت کا تعلق ہے تو یقینا عوام کی ایک
کثیر تعداد موجودہ حکومت سے خوش نہیں ہے ، مہنگائی اور بے روز گاری میں
مسلسل اضافہ نے عوام کو موجودہ حکومت سے کافی بد ظن کیا ہے البتہ ایسے لوگ
بھی کم نہیں ،جنہیں یہ امید ہے کہ عمران خان کی نیک نیتی اور کوششیں ضرور
رنگ لائیں گی ۔حقیقت بھی یہی ہے کہ عمران خان کو اقتدار میں آنے کے بعد
کافی زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، ملک کی معاشی صورتِ حال اتنی دِ گر
گوں تھی اور اس وقت بھی ہے کہ عمران خان اور اس کی ٹیم چکرا کے رہ گئی ہے
پھر تحریک انصاف میں اکثریت نوجوانوں کی ہے جو اب بھی عمران خان سے امید کی
رسی سے بندھے ہو ئے ہیں ، لہذا ایک اندازے کے مطابق موجودہ حکومت کے خلاف
عوام کا سڑکوں پر نکلنا اگر ناممکن نہیں، تو ممکن بھی نظر نہیں آتا۔
جہاں تک اپوزیشن پارٹیوں کے سٹریٹ پاور کا تعلق ہے تو بے شک جمیعت العلماء
(ف) یا جماعتِ اسلامی کے پاس دینی مدرسوں کے طلباء کی صورت مین یا قلیل
تعداد عام آدمی کی صورت میں سٹریٹ پاور موجود ہے ۔ن لیگ یا پیپلز پارٹی کے
کارکن بھی کثیر تعداد میں موجود ہیں جو وقتی طور پر حکومت کے لئے پریشانی
کا باعث بن سکتے ہیں،معاشی نقصان کا باعث بھی بن سکتے ہیں مگر ان کا احتجاج
حکومت کے لئے ایسی صورتِ حال کا باعث نہیں بن سکتا ، جس کی وجہ سے حکومت
مستعفی ہو جائے یا طاقتور طاقتیں حکومت کو چلتا کر دیں۔
اسٹیبلیشمنٹ کا رویہ کیا ہو گا ؟ ایک محتاط اندازے کے مطابق وہ عمران خان
کو اتنا جلد گھر بھیجنا گوارا نہیں کریں گے ، انہیں سیاست دانوں کے تمام
کرتوتوں کا بخوبی علم ہے ، عمران خان جو بھی ہے، کرپٹ نہیں ہے اور اپنی
بساط بھر ملک کو ٹھیک کرنے کی سعی کر رہا ہے۔
ملک میں موجود بڑے سیاسی پارٹیوں میں ایسی لیڈر شپ بھی موجود نہیں ، جو
اسٹیبلشمنٹ اور عوام میں بیک وقت مقبول ہو، ایسی صورتِ حال میں اسٹیبلشمنٹ
کی ہمدردی موجودہ حکومت کے ساتھ ہی ہو گی،۔ مولانا فضل الرحمن کی کو شش ہو
گی کہ عیدالفطر کے بعد جتنی جلد ممکن ہو، حکومت کے خلاف احتجاج شروع کیا
جائے مگر دیگر جماعتیں سخت گرمی کے موسم میں عوام کے نکالنے کو مشکل سمجھتے
ہوئے عید الاضحی کے بعد احتجاج کو فوقیت دیں گے، غالب امکان یہ ہے کہ ماہِ
اگست کے بعد اپوزیشن پارٹیاں لنگوٹ باندھ کر حکومت کے خلاف احتجاج کریں گے
اور یوں عوام کو حکومت اور اپوزیشن پارٹیوں کے درمیان ملاکڑا ( سندھی زبان
میں ملاکڑا کھڑی کشتی کو کہتے ہیں ) دیکھنے کا مو قعہ ملے گا ۔نتیجہ اس کا
زیرو ہی ہو گا کیونکہ ہماری عوام کو مہنگائی یا دیگر معاشی مشکلات برداشت
کرنے کے عادت ہے اور بقولِ غالب ،،،،
رنج سے خوگر ہو جائے انسان تو مِٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پہ اتنی پڑیں کہ آسان ہو گئیں
|