آزادی یا غلامی

اگرسننے والے مزاج آشناہوں توگفتگوکرنے کامزاآتاہے اوران سب کی سننے کی خواہش بھی مزادیتی ہے لیکن پتہ نہیں ان دنوں طبیعت کیوں بوجھل سی رہتی ہے ۔اردگردسناٹاسامحسوس ہوتاہے اورجذبات کی شائیں شائیں نے کپکپی طاری کر رکھی ہے۔اسی لئے گزشتہ چندنوں سے فون کاگلہ دباکر سب کے ساتھ رابطہ منقطع کئے خاموش بیٹھاہوں۔اچانک کل صبح کسی نے گھرکادروازہ زورزورسے پیٹناشروع کردیا۔دروازہ کھولاتوباباجی نےفون نہ اٹھانے کی شکائت شروع کردی۔ منافقت بھری مسکراہٹ سے آنے کامقصددریافت کیاتوبولے:”جنوبی ایشیااور جمہوریت”پرایک مباحثہ کی دعوت دینے آیاہوں …….. انکارنہیں چلے گا۔اب وہاں جوکچھ کہاسنا؛آپ بھی پڑھ لیں،اس سے متفق ہوناکیاضروری ہے،معلوم نہیں۔

“جناب صدرمجلس!موجودافرادکی تقاریرآپ نے سنیں جن میں انہوں نے آزادملک کے آزاد شہریوں کی پرکیف زندگی کے بڑے سہانے مناظر دکھائے ہیں۔ان تمام حضرات کی تقاریرسے میں محظوظ ہوئے بغیرنہیں رہ سکا۔یقین ہوگیاہے کہ بینائی اس حد تک کمزورہوسکتی ہے،معلومات کااس قدر فقدان ہوسکتاہے یاہم حقائق سے نظریں چراتے ہیں!ہماری خودمیں مصروف زندگیاں ہمیں اجازت نہیں دیتیں کہ ہم عوام کی اس دھندلائی ہوئی تصویرکادوسرارخ بھی دیکھ سکیں جہاں صرف دکھ ہے، دردہے،محرومی ہے،احساسِ غلامی ہے،اپنے تمام اورمکمل وجودکے ساتھ بھی بے دست وپائی ہے،آزادملک کے شہری ہونے کے باوجوداحساسات تک پہرے میں ہیں،زندگی کی ہرسانس مقروض ہرفکرپہ پہرہ ہرجنش پرچیک ہر بات کی نگرانی۔یہ تو ایک مڈل کلاس اورکچھ سوچنے سمجھنے والے کاحشرہے اوریہ بھی عوام کی زندگی کاایک رخ ہے۔

آپ کواورقابل احترام ساتھیوں کوبہت خوشی ہوگی سن کر،جنوبی ایشیامیں ہرایک آزادہے،دال کھائے،چٹنی کھائے،کھاسکے توکھائے ورنہ آزادہے کہ رات کوبھوکا ہی سوجائے۔اگراس کامعصوم بچہ بیمارہے اوراس کودواکی ضرورت ہے تووہ بالکل آزادہے چاہے اس کوبخارسے سلگ کر مرنے دے،چاہے10روپے کی میٹھی گولیاں لادے…….. جس طرح چاہے مرنے دے اس پرکوئی پابندی نہیں۔وہ کسی کی ذمہ داری نہیں ہے،اس کی موت کسی کابوجھ نہیں۔اگروہاں کے شہری کو بڑھاپے یاادھیڑعمری نے آلیاہے،اس کوکوئی تکلیف ہے تووہ بالکل آزادہے چاہے اپنی کھولی میں دم توڑے،سڑک کے کنارے کھانس کھانس کرمرجائے یاچلتی ہوئی کسی منی بس سے اترتے ہوئے اس کے پہیوں تلے کچلاجائے اورہاں اگرکوئی مقروض ہے،اولادکابوجھ ہے،ذمہ داریاں ہیں، قرض اتارناہے تووہ بالکل آزاد ہے گردہ بیچ ڈالے،اپنالہوفروخت کردے اپنی ایک آنکھ بیچ دے۔ اگرعورت ہے تو اپنا جسم بیچ دے،عزت وآبروسربازارنیلام کردے کیونکہ وہ آزاد وطن کا آزادشہری ہے۔

اگرکوئی نوجوان اپنی ڈگریاں ہاتھوں میں اٹھائے شہرمیں دن بھرآوارہ گردی کرناچاہے توکرسکتاہے اسے مکمل آزادی ہے۔وہ جب تک اورجتنا چاہے سڑکیں ناپ لے اورجب چاہے جس طرح چاہے خودکشی کرلے۔ریل کی پٹری پرلیٹ جائے گھرمیں پنکھے سے لٹک جائے زہرپی لے……اس پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ اس کی اپنی زندگی تھی،اپنی موت ہے،وہ آزادہے جس طرح چاہے مرجائے ۔ ایک اوردلچسپ بات ہےاوریہ پہلو بھی اجاگرکرنا مناسب سمجھتاہوں کہ ہمارے ہاں ہرطرح کی آزادی ہے ہم جس کی بہن بیٹی بیوی کوجب چاہیں اورجہاں سے چاہیں اٹھالیں اوراس کے ساتھ جوچاہے سلوک کریں……..اورپھرجس طرح چاہیں کہانی ختم کرادیں۔خواہ ہم اسے کاری کہہ دیں اس کو زندہ دفن کردیں چاہیں تواس کوختم کرنے سے پہلے کتوں سے نچوابھی سکتے ہیں۔ہمیں کوئی کچھ نہیں کہے گا۔ہم آزاد ہیں۔

لوگوں کی یہ بات قطعی غلط ہے کہ ہم پرکوئی چیک لگا سکتاہے اورجوہماراسماج ہے ناں اس میں تومزیدآزادی یہ بھی ہے کہ جب جس کا بس چلے وہ دوسری خاتون کو جلا دے۔یہ نہیں کرسکتاتوکم ازکم اس پرتیزاب توپھینک سکتا ہے ناں۔

ہمارا قانون ہماری پولیس بھی بالکل آزادہیں ان کوکوئی کچھ نہیں کہہ سکتا نہ ہاتھ پکڑ سکتاہے نہ پوچھ سکتاہے،وہ جس کو چاہیں مجرم بنادیں اورجس کوچاہیں معصوم۔اسی آزادی کی وجہ سے آج وہ جمہوری ایوان وجود میں آیاہے جس میں صرف مراعات یافتہ لوگ ہی براجمان ہوسکتے ہیں مگریہاں موجود معززافرادیقیناًاس حقیقت سے واقف ہوں گے کہ آزادی اور جمہوریت کے راگ الاپنے والے تمام لوگ کس طرح ایوان تک پہنچتے ہیں۔حالت جب یہ ہوکہ عوام کے نمائندگان کو نمائندگی دینے کا فیصلہ بھی کہیں اورسے ہوتاہوتوکیایہ آزادعوام کی نمائندگی ہے؟

میں پوچھتاہوں جس ملک میں صابن اورڈٹرجنٹ سے لیکرتمام کی تمام اشیاصرف غیرملکی کمپنیاں بناتی ہوں اورملک میں روٹی سے لیکرپٹرول اورتیل وگیس کی قیمتیں تک آئی ایم ایف طے کرے، اس ملک کوکیاآپ آزادکہہ سکتے ہیں؟آزادی کسی دیوی پری یاکسی مجسمہ کانام تونہیں ہے کہ وہ آپ نے نصب کردیااورسب نے تالیاں بجادیں۔اس کے بعدزندگی پہروں میں رہے سانس بھی قیدمیں ہو……..ہم نے صرف لفظ ِجمہوریت کالولی پاپ عوام کوپکڑادیا کہ خوش ہوجائیے۔آزادی تواپنی سر زمین پراپنے عقیدے نظریے کے ساتھ اپنے وسائل کوخوداستعمال کرکے اپنی مٹی پرآزادی سے چل کرپیٹ بھرکرروٹی کھانے اور نیند بھرکرسونے کانام ہے۔آزادی میں اپنے حال اورمستقبل کے فیصلے خودکرنے کااختیارہوتا ہے۔آزاد وطن میں ہرایک اپنا نقطہ نظربیان کرنے اوراپنی مرضی سے جینے میں آزادہوتاہے۔

جمہوری وطن کے لوگوں اوربچہ جمہورامیں بڑافرق ہوتاہے۔کاش یہ ہمارے مظلوم اورپسے ہوئے عوام کوپتاہوتا۔اگروہ یہ جان جائیں توجومنظرآج ہے وہ نہ ہو۔جس آزادی کے راگ ہم اورآپ الاپتے رہتے ہیں وہ اگرحقیقتاًعوام کونصیب ہوتوہماری اور آپ کی بڑی مشکل حل ہوجاتی۔ہماری یہ پرتعیش زندگی جس کاہرہرپل غریب عوام کے خون سے نچڑکربناہے،مجھے ان بڑے بڑے ایوانوں لمبی لمبی ائیرکنڈیشنڈ گاڑیوں بلندوبالاسیمینارہالوں سے غریب عوام کے جلے ہوئے خون اور بھنے ہوئے گوشت کی بوآتی ہے۔میرادل لرزتاہے کہ جن کے ٹیکسوں سے حکمرانوں نےعیاشی کی، جنہیں مہنگائی کے عذاب نے پیس ڈالا،غریب عوام کی کھال توکیاان کی چربی اورگوشت کی تہہ کوبھی جلاکریہ سارا کاروبارہم نے سجالیاہے،کہیں ایسانہ ہوکہ ایک دن ہم سب اس میں دفن ہو جائیں

خالقِ ارض وسماان کابھی رب ہے،آزادی کے نعروں میں جس دن اس نے چاہارنگ بھردیاتوہم اور آپ عوام سے بچ کرکہاں جائیں گے؟اس لیے کہ جس کاخو ن، جس کا پسینہ جس کاووٹ اورجس کا نوٹ ہے اس کاکوئی اختیارنہیں۔آپ چاہے بجلی دیں چاہے نہ دیں اورخودایئرکنڈیشنڈکمروں میں بیٹھ کران کوصبراوراولو العزمی کادرس دیں ایسانہیں ہوسکتا۔یہ سب کچھ ہم پرعوام کا قرض ہے جو انہوں نے اپنی کمرتوڑکردیاہے۔یہ لوٹاناہوگا! آزادی عوام کے لحاظ سے یہ چندپہلوتھے جومختصراً ًمیں نے آپ کے سامنے رکھ دئیے۔وقت کی کمی کے باعث اختصاربرتاہے۔آزادی کیاہوتی ہے کیسی ہونی چاہیے؟آپ تھوڑی دیرکیلئے خود کوعوام سمجھ کرمحسوس کیجیے پھرہم میں سے کسی کویہ بتانے کی ضرورت نہیں پڑے گی کہ عوام آزادہیں یانہیں۔میں آزادی یاغلامی کا فیصلہ آپ پرچھوڑتاہوں۔

 

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 356073 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.