سورۃ الانبیاء آیت ۵۳ کہا اللہ تعالیٰ نے ’’ہر نفس کو
موت کا مزہ چکھنا ہے، اس سے پہلی آیت۴۳ میں فرمایا ’’اور اے نبی ! ہم نے
آپ سے پہلے بھی کسی بشر کو ہمیشہ کی زندگی نہیں دی، پھر اگر آپ مرجائیں
تو کیا وہ ہمیشہ رہنے والے ہیں ‘‘ ۔ پھر سورۃ آ لِ عمران کی آیت ۵۴۱ میں
کہا ’’اور کوئی جاندار اللہ کے حکم کے بغیر مر نہیں سکتا، اس نے موت کاوقت
لکھا ہوا ہے ‘‘ ۔ پھر سورۃ النسا ء میں کہ ’’تم کہیں رہو موت تو تمہیں آکر
رہے گی خواہ بڑے محلوں میں رہو‘‘ ۔ زندگی اور موت لازم و ملزوم ہیں ، آج
وہ کل ہماری باری ہے، کون کب چلا جائے گا کسی کو اس کا معلوم نہیں ۔ انور
شعیب کاوہ وقت آچکا تھا، اللہ پاک نے ان کے لیے جومقرر کیا ہوا تھا انہوں
نے اللہ کے حکم پر لبیک کہا اور اس دنیا سے وہاں چلے گئے جہاں ہم سب نے ایک
نہ ایک دن جانا ہے ۔ پروفیسر انور شعیب خان 1858 میں پیدا ہوئے ، 1982ء میں
جامعہ کراچی سے لائبریری سائنس میں ماسٹر کیا، اور اسی شعبہ میں پہلے
سیمینار لائبریرین ، بعد ازاں لیکچرر ہوگئے ۔ پھراسسٹنٹ پروفیسر کے عہدہ پر
فائز ہوئے اور اسی حیثیت سے اگست 2018ء میں مدت لازم مکمل کر کے ریٹائر
ہوگئے ۔ میں نے انہیں ان کی بھر پور جوانی میں بھی دیکھا ، سائنس گریجویٹ
تھے، گولڈ میڈل حاصل کیا، پڑھنے میں طاق تھے، میرٹ پر شعبہ میں ملازمت مل
گئی ۔ استاد کی حیثیت سے اپنی زندگی کے 35 سال مکمل کیے ۔ اللہ کی جانب سے
آپ کا بلاوا آچکا تھا ، انور شعیب خان صاحب نے عید کے دن یعنی جون 2019ء
مطابق یکم شوال المکرم 1440ھ کو داعی اجل کو لبیک کہا ۔ جمعہ کے دن 7 جون
کو جامعہ کراچی کے قبرستا میں تدفین ہوئی ۔ میں نے انور شعیب کو جامعہ
کراچی کے شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس کے طالب علم کی حیثیت سے بھی
دیکھا اور پھر شعبہ میں لیکچر ر کی حیثیت سے طویل عرصہ خدمات کے دوران ان
سے اکثر ملاقات اور مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی ۔ عمر میں مجھ سے
چھوٹے تھے، ہمارے تعلقات پیشہ ورانہ اور دوستانہ تھے ۔ ان کی طویل پیشہ
ورانہ ندگی میں کبھی کوئی ایسی بات جو تہذیب اور شائستگی سے گری ہوئی ہو ان
کی زبان سے نہیں سنی، وہ بہت زیادہ سوشل بھی نہیں تھے لیکن ہر ایک سے محبت
سے ملاکرتے، خلوص و محبت کا پیکر کہا جائے غلط نہ ہوگا ۔
طالب علمی کے زمانے میں خوبصورت و خوب رو نوجوان تھے، اپنے سبجیکٹ پر مکمل
عبور رکھتے تھے، طلباء کو محنت سے پڑھاتے، شفقت سے ان کے ساتھ پیش آتے ،
رفتہ رفتہ ان کی ظاہری شخصیت میں تبدیلی آتی گئی ، داڑھی رکھ لی، لباس
شلوار قمیض اور واسکٹ ہوگیا، مذہبی رنگ غالب آتا گیا، لیکن ان کے مزاج میں
جو ملنساری، شفقت ، محبت ، اچھے اخلاق تھے وہ ویسے ہی رہے ۔ وہ بہت با
اصولو ل انسان تھے کسی معاملے میں قانون اور اصول کے خلاف بات انہیں ہرگز
گوارا نہ کرتھی ۔ لائبریرین کی حیثیت سے اگر کوئی ٹیچر بھی ان سے کوئی کتاب
مختصر وقت کے لیے بھی طلب کرتا تو وہ کتاب جاری ہونے کی مکمل کاروائی کرتے
پھر اسے اجاذت ہوتی کہ وہ کتاب لے جائے ۔ وہ ایک اچھے استاد، محنتی
لائبریرین ہی نہی ایک اچھے انسان بھی تھے ۔ ہر دیک کے دکھ درد میں کام آنا
ان کی زندگی کا لازمی جذ تھا ۔
میری ان سے آخری ملاقات ان کے انتقال سے کوئی چار یا پانچ ماہ قبل ہوئی ۔
میں اپنے بہنوئی شاہد احمد صدیقی کے انتقال پر ان کے گھر واقع آصف نگر ،
دستگیر سوسائیٹی پہنچا ہوا تھا ، رات کا وقت تھا، لوگوں کے درمیان ایک سفید
داڑھی والے صاحب جانے پہچانے لگے، میں انہیں مسلسل پہچاننے کی کوشش کررہا
تھا، جوں ہی ان کی نظر مجھ پر پڑی، فوراً میری جانب لپکے اور گلے ملے، ان
کے پاس بھی یہ سوال میرے لیے تھا کہ آپ یہاں کیسے اور میرے ذہن میں بھی یہ
سوال تھا کہ آپ یہاں کیسے،ہم دونوں باہر ہی بیٹھ گئے اور دونوں نے تفصیلات
بتا کر اپنی اپنی حیرانی کو دور کیا ۔ میں نے انہیں بتایا کہ شاہد احمد
صدیقی میرے بہنوئی ہیں ، انہوں نے کہا کہ میں کئی سال سے شاید صاحب کا
پڑوسی ہوں ، سامنے میرا گھر ہے، انور شعیب نے بتایا کہ وہ میرے بہنوئی کے
صرف پڑوسی ہی نہیں ہیں بلکہ ان کے اچھے قریبی دوست ، ہم مسلک اور ایک ہی
مسجد کے نمازی بھی ہیں ۔ اس کے علاوہ حلقہ نعت رسول مقبول ﷺ کے ساتھی بھی
تھے ۔ میرے بہنوئی بھی بریلوی مسلک کے پابند اور انور شعیب بھی، انور شعیب
کا تو علم نہیں کہ یہ نعت رسول مقبول ﷺ پڑھتے بھی تھے یانہیں البتہ میرے
بہنوئی خوب جھوم جھوم کر نعت شریف پڑھا کرتے تھے ۔ جس مسجد کے یہ دونوں
احباب نمازی تھے وہاں نعت مقبول ﷺ پڑھنے والوں کا بڑا حلقہ ہے ، یہ دونوں
ہی اس کے عقیدت مندوں میں شامل تھے ۔ انور شعیب پی ایچ ڈی میں انرول تھے،
ان کے پی ایچ ڈی کے مقالہ کا عنوان مولانا احمد رضا خان بریلوی رحمت اللہ
علیہ کی علمی و تصنیفی خدمات سے متعلق تھا ۔ وہ بہت عرصہ سے اس کوشش میں
تھے کہ پی ایچ ڈی کر لیں ، لیکن ایسان ممکن نہیں ہوا، حالانکہ ان کے شعبہ
کے کئی جونیئر اور ان کے شاگرد اساتذہ اپنی تحقیق مکمل کرچکے تھے، میرا
ذاتی خیال یہ ہے کہ ان کی زندگی کے نجی معاملات کچھ گھبیر تھے، شادی بہت
لیٹ ہوئی، بچے بھی چھوٹے چھوٹے، ان کی ذمہ داریاں ، پھر انسان کی زندگی میں
ایک وقت ایسا آتا ہے کہ جب وہ اپنے والدین ،بہن بھائیو ں کے ساتھ گزرنے
والی زندگی سے اپنی اور اپنی بیوی بچوں کی زندگی میں داخل ہوتا ہے، اس
حوالے سے بے شمار مشکلات کا اسے سامنا کرنا پڑتا ہے ، خیال یہی ہے کہ وہ
بھی اسی قسم کی مشکلات اور پریشانیوں میں گھرے رہے ، ممکن ہے کچھ دیگر
وجوہات بھی رہی ہوں ۔ بس ان کی قسمت میں پی ایچ ڈی کرنا نہیں تھا ، وہ نہیں
کرسکے ۔ انور شعیب نے بتایا کہ انہوں چند سال قبل یہ مکان خرید لیا تھا ،
اس سے قبل وہ اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے ہمراہ منگھو پیر روڈ پر کسی
آبادی میں رہا کرتے تھے ۔ شادی اور بچوں کے بعد وہ اس علاقے میں منتقل
ہوگئے تھے ۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ انہیں ریٹائر ہوئے چند ماہ ہی ہوئے
ہیں ، جب میں نے ان کے بچوں کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے بتا یا کہ
ابھی اسکول جارہے ہیں ، خود ہی وضاحت کی کہ شادی لیٹ کی ، اس لیے ابھی بچوں
کی ذمہ داریاں ہیں ۔ میں نے انہیں تسلی دی کہ اللہ سب بہتر کردے گا، فکر کی
کوئی بات نہیں ، اللہ کے فضل و کرم سے ہم آپ جو پینشنرز ہیں بہت سے نوکری
کرنے والوں سے بہت بہتر ہیں ۔ میں بھی اسی بستی کا رہائشی تھا، اپنے والدین
، بہن بھائیوں کے ساتھ ;8246;190 کا مکین رہا ،لیکن بہت پہلے کوئی اسی کے
دیہائی میں یہاں سے منتقل ہوگیا تھا ۔ اس رات انور شعیب سے خوب باتیں ہوئیں
، کیونکہ میں نے رات وہیں گزارنا تھی ، انہوں نے اپنا گھر بھی دکھا یا اور
بہت اصرار کیا کہ میں ان کے گھر آرام کروں ۔ بڑے پرخلوص انسان تھے، ان کی
گفتگو میں میٹھاس پایا جاتا تھا، دھیمہ لہجہ، آہستگی سے بات کیا کرتے،
چہرہ پر مسکراہٹ نمایاں محسوس ہوا کرتی ۔
شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس ، جامعہ کراچی میں انور شعیب کے ساتھ ہی
محمد صدیق مرحوم کا تقرر بھی لیکچرر کی حیثیت سے ہوا تھا، اس وقت یہ دونوں
نوجوان شعبہ کے جونئر اساتذہ ہوا کرتے تھے، دونوں میں دوستی بھی خوب تھے،
باوجود مسلک کے اختلاف کے، دونوں ایک ساتھ رہا کرتے، کسی بھی پیشہ ورانہ
پروگرا م میں دونوں ساتھ نظر آتے ۔ اتفاق اور اللہ کی مرضی محمد صدیق
ریٹائرمنٹ سے بہت پہلے ہی اللہ کا پیارے ہوگئے ۔ شعبہ کی یہ جوڑی ٹوٹ
گئی،محمد صدیق بھی نفیس انسان تھے، ہنستا مسکراتا چہرہ، پتلے دبلے، چھوٹا
قد، باریش، اللہ ان کی مغفرت فرمائے ۔ انور شعیب جوانی میں کلین شیو تھے،
نکلتا ہوا قد، گھٹاہوا جسم، کتابی چہرہ، گندمی رنگ، پہلے کالی، پھر مہندی
لگی اور اب سفید داڑی کے ساتھ نورانی چہرے کے مالک تھے ۔ اچھے استاد ہی
نہیں ، با اخلاق انسان بھی تھے ۔ لیکن تھے خان صاحب جب غصہ آتا تو لال
پیلے ہوجاتے، اختلاف یا غصہ کسی اصول کی خلاف ورزی پر ہی آیا کرتا تھا ۔
پڑوسیوں سے دوستانہ مراسم ، ایک دوسرے کا خیال کرنے والے ۔ ہمدر ہر ایک کی
دکھ تکلیف میں آگے آگے رہنا ان کی عادت تھی، انہیں معلوم ہوجائے کہ کسی
پڑوسی کو کچھ تکلیف یا پریشانی ہے یا یہ ضرورت ہے تو وہ اسے پورا کیے بغیر
نہ رہتے، لیکن خانصاحبیت اپنی جگہ تھی ۔ اس کی ایک وجہ ان کا ہندوستان کے
اس شہر سے تعلق بھی ہوسکتا ہے جہاں سے پروفیسر ڈاکٹر محمود حسین مرحوم تھے،
یعنی فرخ آباد ،ڈاکٹر محمود حسین مرحوم کو بھی جب غصہ آتا تو سرخ سفید تو
تھے ہی لال پیلے ہوجایا کرتے تھے ۔ کہا کرتے کہ میں فرخ آباد کا پٹھان ہوں
، انہیں میں نے وائس چانسلر کی حیثیت سے دیکھا، وہ پی ایل اے کے بانی صدر
اور اپنی حیات تک صدر رہے ۔ پی ایل اے کے قانون میں شروع میں کسی نان
پروفیشنل کو صدر بنانے جانے کی شق تھی ۔ ایک واقع پروفیسر انور شعیب خان ان
کی خانصاحبیت اور ہمدری کا کچھ اس طرح ہے کہ ان کے گھر کے سامنے اکرم صاحب
ان کے پڑوسی کو پانی کی مشکل تھی ان کے گھر شاید کنواں یا بورنگ کا پانی
میسر تھا، انہوں نے خان صاحب سے کہا کہ اپنے گھر سے پاءپ لگا کر ہ میں پانی
دے دیں ۔ انور شعیب ہمدر ی کا پیکر، فوراً کھڑے ہوگئے ، خدمت میں ، ابھی
پاءپ لگنے کی نوبت نہیں آئی تھی کہ پڑوسی نے کہہ دیا کہ میں اپنے گھر سے
بجلی کا تار لگا لیتا ہوں ، مقصد یہ رہا ہوگا تاکہ انور شعیب صاحب کی بجلی
خرچ نہ ہو ، خانصاحب نے جوں ہی یہ جملہ سنا بجلی کا تار لگانے والا پڑوسی
پر برس پڑے ، پانی کا پاءپ نکال باہر کیا ، کہنے لگے جایئے کوئی پانی وانی
نہیں دے سکتا میں ۔ آپ نے مجھے اتنا چھوٹا سمجھ رکھا ہے، خیر پڑوسی نے
معزرت کی ، الفاظ واپس لیے تو خاں صاحب نے اسے پانی اپنے گھر کی بجلی سے
فراہم کیا ۔
انور شعیب دل کے عارضہ میں مبتلا تھے لیکن نہ معلوم کیا مصلحت انہیں در پیش
تھی کہ انہوں نے یہ راز اپنے دل ہی میں رکھا، رمضان میں مکمل روزے رکھے،
نماز، تراویح مکمل عبادات کیں ، عید کے دن نہیں انہیں دل میں تکلیف محسوس
ہوئی، حسب عادت وہ دل کو خاطر میں نہیں لائے ، عید کے نماز پڑھنے چلے گئے،،
عید کی نماز کے دوران انہیں گھبراہٹ محسوس ہوئی، جیسے تیسے نماز پوری کی،
مسجد سے ان کے گھر کا سفر کچھ طویل ہے، ان کے بیٹے نے بتا یا کہ راستے میں
انہیں متلیاں بھی ہوئیں ، کیفیت اس حد تک خراب ہوگئی کہ ان کے لیے گھر
پہنچنا مشکل ہوگیا، انہوں نے راستہ میں کسی سے عید بھی نہیں ملی ، یہ کہہ
کر منع کردیا کہ ابھی میری طبیعت ٹھیک نہیں پھر ملوں گا ۔ گھر پہنچ کر
طبیعت بہتر ہوئی ، عید کی مصروفیات میں لگ گئے، ڈاکٹر یا اسپتال نہیں گئے،
ممکن ہے یہ خیال رہا ہو کہ ان کے اسپتال جانے سے بچوں کی عید خراب ہوگی،
لوگ پریشان ہوں گے ،عید کے دن ہی گھر سے باہر کسی سے ملاقات کررہے تھے،
گھبراہٹ ہوئی، گھر واپس چلے گئے بستر پر لیٹے حالت بگڑتی چلی گئی، بچے بھی
چھوٹے تھے، بیوی نے بھی اس کیفیت کا ادراک نہ کیا، جب کافی وقت گزرا ، اور
بچوں نے محسوس کیا کہ ان کے ابا مسلسل خاموش ، اور جسم میں کسی قسم کی حرکت
نہیں تو پریشانی کے عالم میں پڑوسیوں کو اطلاع کی، ان کے پڑوسی اکرم صاحب
ہی انہیں مامجی اسپتال لے گئے ، جہاں ڈاکٹر ز نے کہا کہ انہیں اس دنیا سے
رخصت ہوئے بیس پچیس منٹ ہوچکے ہیں ۔ اب کیا ہوسکتا تھا ، بیوی اور بچوں کا
قیامت ٹوٹ پڑی جمعہ کا دن نصیب ہوا، نماز جمعہ کے بعد نماز جنازہ اداکی
گئی، اور پھر پہنچی وہی پے خاک جہاں کا خمیر تھا یعنی جامعہ کراچی کے
قبرستاب میں ان کی والدہ کے برابر میں تدفین ہوئی ۔ جامعہ کراچی کا یہ
چھوٹا سا قبرستان کس قدر علمی زرخیزی لیے ہوئے ہے ، جس مٹی سے اللہ نے
انسان کو بنایا ہے وہ وہیں واپس چلی جاتی ہے ۔ چنانچہ انور شعیب بھی اسی
جگہ چلے گئے ۔ اس چھوٹے سے قبرستان کی مٹی نے کیسے کیسے علم و دانش پیدا
کیے جو اسی مٹی میں ابدی نیند سورہے ہیں ۔ کس کس کا نام لوں پروفیسر
ڈاکٹرسلیم الزماں صدیقی، پروفیسر ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی، پروفیسر فرمان فتح
پوری، پروفیسر ڈاکٹر رضوان احمد،پروفیسر ڈاکٹر ابوالخیر کشفی، طاہرہ کشفی،
پروفیسر ڈاکٹر عبد المعید، پروفیسر ڈاکٹرشاہد علی رضوی، پروفیسر ڈاکٹر
افضال حسین قادری، پروفیسر ڈاکٹر نسیمہ ترمذی ، آج ہی اطلاع ملی کہ ڈاکٹر
ترمذی کا بھی انتقال ہوگیا ہے، مولانا منتخب الحق، پروفیسر ڈاکٹر ریاض
السلام ، پروفیسر ڈاکٹرشکیل اوج ، پروفیسر ڈاکٹر اسلم فرخی ، ڈاکٹر سید
وحید امام اور دیگر شامل ہیں ۔ یہ وہ احباب ہیں جن کی قبروں پر میں نے
حاضری دی، انور شعیب نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ جامعہ کراچی میں انہیں
احباب کے ساتھ گزارا جو اس قبرستان میں آرام فرماہیں ۔ ا ب وہ اپنی قبر کی
زندگی بھی انہیں کے ہمراہ گزاریں گے ۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے ۔
شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس ، جامعہ کراچی نے13جون 2019ء کو جامعہ
کراچی کے آرٹس آڈیٹوریم میں پروفیسر انور شعیب خان کے لیے تعزیتی اجلاس
منعقد کیا ۔ جہاں ان کے اساتذہ، دوستوں ، ساتھیوں اور طلبہ و طالبات کی ایک
بہت بڑی تعدا موجود تھی، راقم کو بھی اس تعزیتی اجلاس میں شریک ہونے اور
پروفیسر انور شعیب خان کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا موقع ملا
۔ کئی مقررین تھے جن میں پروفیسر صادق علی خان، پروفیسر ملاحت کلیم
شیروانی، پروفیسر ڈاکٹر منیرہ نسرین انصاری، ڈاکٹر فرحت حسین، نظامت شعبہ
کے ایک استاد راشد علی نے کی ۔ دیگر مقررین میں عامر سبحانی، جامعہ کراچی
کے لائبریرین اور دیگر نے بھی پروفیسر انور شعیب خان سے اپنے تعلق کے حوالے
سے اظہار خیال کیا ۔ پروفیسر انور شعیب خان کے چھوٹے بھائی اور ان کے تین
بچوں دو بیٹیوں اور ایک بیٹی نے بھی شرکت کی، یہ تینوں بچے اتنے چھوٹے ہیں
کہ انہیں ابھی کچھ نہیں معلوم کے ان کے ساتھ کیا حادثہ پیش آچکاہے، یقینا
وہ اندر سے بے حد انتہا غم ذدہ نظر آرہے تھے، اللہ ہی سب کی مدد کرنے والا
ہے، وہ انسان کو پریشانی میں ڈالتا ہے یہ اس کی مصلحت ہے، پریشانی سے
نکالنے کی قدرت بھی اللہ کے پاس ہے ۔ اللہ پاک پروفیسر انور شعیب خان کی
مغفرت فرمائے ، انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا ہو، گھر کے تمام
احباب خاص طور پر ان کے بچوں کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔ آمین(14جون2019ء)
|