افغانستان میں قیام امن کے لئے پاکستان نے فعال کردار ادا
کیا۔ طالبان سے افغانستان میں جنگ کے خاتمے اور قیام امن کے لئے آل افغان
پیس کانفرنس میں شرکت کے لئے آمادگی ظاہر کردی ہے۔ طالبان کو مذاکرات کی
میز پر لاکر پاکستان نے نا صرف قیام امن کیلئے مثبت کوشش کی بلکہ خطے کے
امن و استحکام کیلئے بھی کردارادا کیا ہے۔ اس ضمن میں خطے میں اس مثبت
اثرات مرتب ہوں گے اور امریکہ کی جانب سے بلوچستان میں سرگرم علیحدگی
پسندوں کے سب سے بڑے گروپ بی ایل اے اور تین دوسریگروپوں کو عالمی ہشت گرد
قرار دینا پاکستانی کاوشوں کی ہی ایک کڑی ہے۔ طالبان کی یہ رضامندی پاکستان
کی سفارتی کامیابی ہے۔ اس سلسلے میں طالبان نے اپنی سابقہ شرط بھی برقرار
رکھی ہے کہ وہ ایسے کسی بھی مذاکراتی عمل کا حصہ نہیں بنیں گے جس میں کابل
حکومت کا کوئی نمائندہ شریک ہو۔ اہم امر یہ ہے کہ طالبان کی شرط تسلیم کرتے
ہوئے قطر اور جرمنی نے کانفرنس میں افغانستان کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے
والے بااثر افراد کو مدعو کیا ہے۔ بھارت افغان اور ایران سے آئے مسلح افراد
بلوچستان میں سرگرم ہیں اور ان کا مشن پاکستان کے خلاف علیحدگی ہے۔ اہم امر
یہ ہے کہ بلوچستان ہی سے کلبھوش یادیو کو بھی دبوچ لیا گیا تھا جب بھارتی
خفیہ ایجنسی کا یہ ایجنٹ اپنے آقاوں کے حکم پر دہشت گردی میں ملوث تھا اور
بلوچستان میں دہشت گردی کا نیٹ ورک منظم کررہا تھا۔ افغانستان کے صدر ساڑھے
تین سال کے وقفے کے بعد پاکستان آئے اس اہم دورے کے دوران دونوں ملکوں کے
درمیان تعلقات امن اور اہم معاملات پر بات چیت ہوئی۔ امریکی وریز خارجہ کی
جانب سے یہ وضاحت سامنے آئی ہے کہ امریکہ افغانستان سے انخلا کے لئے تیا
رہے۔ وریزاعظم عمران خان جلد ہی امریکہ کا دورہ کریں گے۔ امریکی رہنماوں سے
ملاقات کے دوران مسلہ افغان بھی زیر بحث آئے گا۔ افغان راہنماوں کے درمیان
مذاکرات کی میزبانی قطر اور جرمنی کریں گیاور امریکی نمائندے خلیل زاد نے
اس سلسلے میں قطر اور جرمنی کا شکریہ بھی ادا کیا ہے۔ بلوچستان میں علیحدگی
پسندوں کے تقریباً پچاس چھوٹے چھوٹے گروپ کام کررہے ہیں مگر تین گروپ سب سے
زیادہ منظم ہیں جبکہ دو گروپوں جنداﷲ جیش العدل اور فدائین اسلام پر
پاکستان ایران اور افغانستان میں تخریبی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے شواہد
ہیں۔ اس سلسلے میں اسلام آباد میں وزارت خارجہ نے امریکی فیصلے کو سراہا ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان نے بی ایل اے پر امریکہ سے دہشت گرد تنظیم قرار دے کر
پابندی کا مطالبہ ماضی میں کیا تھا اور بالا آخر یہ مطالبہ تسلیم کرلیا گیا
اور یہ پاکستان کی سفارتی سطح پر بہت اہم کامیابی ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ
کے مطابق بی ایل اے کے خلاف یہ فیصلہ ان خونی حملوں کے بعد لیا گیا۔ جن میں
چینی مفادات کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس سلسلے میں امریکہ میں بی ایل اے
سمیت چار تنظیموں کے اثاثے منجمند کردیے گئے ہیں۔ اس ضمن میں امریکی شہریوں
کو ان کے ساتھ کسی بھی قسم کے لین دین پر پابندی عائد کر دی ہے۔ طالبان کے
ترجمان کے مطابق امریکہ سے مذاکرات کا مقصد امریکی اور نیٹو فوجیوں کے
افغانستان سے انخلا کا طریقہ کار طے کرنا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے دہشت
گرد قرار دے کر پابندی لگائے جانے والے گروپ کے بارے میں کہا ہے کہ
بلوچستان میں ان کا کام نسلی تعصب کی بنیاد پر بلوچ علاقوں شہروں اور
پاکستانی سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنا نا تھا۔ سات اور آٹھ جولائی کو ہونے
والی امن کانفرنس کے انعقاد اور کامیابی کے لئے پاکستان کا پس منظر اور
کردار نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ امریکی حکومت کی جانب سے ان تنظیموں پر
پابندی حوصلہ افزا اقدام ہے۔ اہم امر یہ ہے کہ امریکہ اول تو طالبان سے
مذاکرات کا حامی نہیں تھا لیکن بالاآخر اسے تسلیم کرنا پڑا کہ پاکستان کی
مدد کے بغیر افغانستان میں خونریزی کا یہ عمل بند ہو سکتا ہے۔ امریکہ کی
افواج افغانستان سے واپسی کے راستے پر ہیں۔ بی ایل اے کو امریکہ کی طرف سے
دہشت گرد تنظیم قرار دیئے جانے کے بعد خطے کے دوسرے ممالک بھی اقدامات کریں
گے۔
|