تاریخ لکھی جارہی ہے اور لکھی
جاتی رہے گی ، اس قلم کے نیچے ابو جہل بھی آتے رہیں گے اور شیخ عبدالقادر
جیلانی بھی ۔ فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم تاریخ کے صفحات پر کس کیٹیگری
میں اپنا نام لکھوانا چاہتے ہیں ۔آج کئی عشروں بعد بھی لوگوں کے دلوں میں
روشن چراغ کی مانند شیخ عبدالقادر جیلانی اپنے کردار کی اُس پختگی کے باعث
زندہ ہے جو چوروں ، ڈاکوﺅں اور لٹیروں کو بھی کلمہ طیبہ پڑھ کر پکا مسلمان
بنا دیتی ہے تو دوسری طرف دنیا لاکھ کہتی پھرے کہ ابو جہل جیسا دانا پورے
عرب میں نہ تھا، وہ پہلا فرد تھا جسے 40برس کی عمر میں قریش کی سرداری ملی
، جو بہت دور گزرتی اونٹنی کو دیکھ کر اُس کی نسل بتا دیتا، جسے عرب والے
ابوالعمر ’داناﺅں کا باپ“ کہہ کر پکارتے تھے لیکن تاریخ کے صفحات میں وہ
ہمیشہ جاہلوں کا باپ ہی لکھا جائے گا کہ جان کر بھی اللہ کے سچے دین کو
جھٹلاتا رہا کہ کہیں قریش والے ناراض نہ ہو جائیں ۔ جب قومیں ڈر کے مارے سچ
کو سچ کہنا چھوڑ دیں تو پھر تاریخ اُنہیں ابو جہل ہی کہہ کر پکارتی ہیں اور
جو مال و زر کی لالچ سے بے پروا ہو کر سچائی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے
وہ شیخ عبدالقادر جیلانی ۔
صدیاں ہوتی ہیں جب عرب سالار قتیبہ بن مسلم نے اسلامی لشکر کشی کے اصولوں
سے انحراف کرتے ہوئے سمر قند کو فتح کر لیا تھا ۔ اصول یہ تھا کہ حملہ کرنے
سے پہلے تین دن کی مہلت دی جائے ۔ اور یہ بے اصولی ہوئی بھی تو ایسے دور
میں جب زمانہ بھی عمر بن عبدالعزیزؓ کا چل رہا تھا ۔ سمر قند کے پادری نے
مسلمانوں کی اس غاصبانہ فتح پر قتیبہ کے خلاف شکایت دمشق میں بیٹھے
مسلمانوں کے حاکم کو ایک پیغامبر کے ذریعے خط لکھ کر بھجوائی ۔ پیغامبر نے
دمشق پہنچ کر ایک عالیشان عمارت دیکھی جس میں لوگ رکوع و سجود کر رہے تھے ۔
اُس نے لوگوں سے پوچھا ، کیا یہ حاکم شہر کی رہائش ہے ؟ لوگوں نے کہا یہ تو
مسجد ہے ، تو نماز نہیں پڑھتا کیا؟پیغامبر نے کہا نہیں ، میں اہل سمر قند
کے دین کا پیروکار ہوں ۔ لوگوں نے اسے حاکم کے گھر کا راستہ دکھا دیا۔
پیغامبر لوگوں کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے حاکم کے گھر جا پہنچا ، کیا
دیکھتا ہے کہ ایک شخص دیوار سے لگی سیڑھی پر چڑھ کر چھت کی لپائی کر رہا ہے
اور نیچے کھڑی ایک عورت گارا اُٹھا کر اسے دے رہی ہے ۔ پیغامبر جس راستے سے
آیا تھا واپس اسی راستے سے ان لوگوں کے پاس جا پہنچا ،جنہوں نے اُسے راستہ
بتایا تھا۔ اُس نے لوگوں سے کہا میں نے تم سے حاکم کے گھر کا پتہ پوچھا تھا
نہ کہ اس مفلوک الحال شخص کا جس کے گھر کی چھت بھی ٹوٹی ہوئی ہے ۔ لوگوں نے
کہا ،ہم نے تجھے پتہ ٹھیک ہی بتایا تھا، وہی حاکم کا گھر ہے ۔ پیغامبر نے
بے دلی سے دوبارہ اسی گھر پر جاکر دستک دی ، جو شخص کچھ دیر پہلے تک لپائی
کر رہا تھا وہی اندر سے نمودار ہوا۔ میں سمر قند کے پادری کی طرف سے بھیجا
گیا پیغامبر ہوں کہہ کر اُس نے اپنا تعارف کرایا اور خط حاکم کو دے دیا۔
اُس شخص نے خط پڑھ کر اُسی خط کی پشت پر ہی لکھا : عمر بن عبدالعزیز کی طرف
سے سمر قند میں تعینات اپنے عامل کے نام ، ایک قاضی کا تقرر کرو جو پادری
کی شکایت سنے ۔ مہر لگا کر خط واپس پیغامبر کو دے دیا ۔
پیغامبر وہاں سے چل تو دیا مگر اپنے آپ سے باتیں کر تے ہوئے ، کیا یہ وہ خط
ہے جو مسلمانوں کے اُس عظیم لشکر کو ہمارے شہر سے نکالے گا؟سمر قند لوٹ کر
پیغامبر نے خط پادری کو تھمایا، جسے پڑھ کر پادری کو بھی اپنی دنیا اندھیر
ہوتی دکھائی دی ، خط تو اُسی کے نام لکھا ہوا تھا جس سے اُنہیں شکایت تھی،
اُنہیں یقین تھا کہ کاغذ کا یہ ٹکڑا انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکے گا۔
مگر پھر بھی خط لے کر مجبوراً اُس حاکم سمر قند کے پاس پہنچا جس کے فریب کا
وہ پہلے ہی شکا ر ہو چکے تھے ۔ حاکم نے خط پڑھتے ہی فوراً ایک قاضی ( جمیع
نام کا ایک شخص) کا تعین کر دیا جو سمر قندیوں کی شکایت سن سکے ۔ موقع پر
ہی عدالت لگ گئی ، ایک چوبدار نے قتیبہ کا نام بغیر کسی لقب و منصب کے
پکارا، قتیبہ اپنی جگہ سے اُٹھ کر قاضی کے رو برو اور پادری کے ساتھ ہو کر
بیٹھ گیا۔
قاضی نے سمر قندی سے پوچھا ، کیا دعویٰ ہے تمہارا؟
پادری نے کہا : قتیبہ نے بغیر کسی پیشگی اطلاع کے ہم پر حملہ کیا، نہ تو اس
نے ہمیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تھی اور نہ ہی ہمیں کسی سوچ و بچار کا
موقع دیا تھا ۔ ( ایک تاریخی نکتہ ملحوظ فرما لیجئے کہ قتیبہ بن مسلم رحمتہ
اللہ علیہ کا اُس وقت تک انتقال ہو چکا تھا ، یہاں پر قتیبہ سے مراد اُن کا
نائب ہے) ۔
قاضی نے قتیبہ ( کے نائب ) کو دیکھ کر پوچھا ،کیا کہتے ہو تم اس دعویٰ کے
جواب میں ؟
قتیبہ ( کے نائب) نے کہا : قاضی صاحب ، جنگ تو ہوتی ہی فریب اور دھوکہ ہے ،
سمر قند ایک عظیم ملک تھا، اس کے قرب و جوار کے کمتر ملکوں نے نہ تو ہماری
کسی دعوت کو مان کر اسلام قبول کیا تھا اور نہ ہی جزیہ دینے پر تیار ہوئے
تھے، بلکہ ہمارے مقابلے میں جنگ کو ترجیح دی تھی ، سمر قند کی زمینیں تو
اور بھی سر سبز و شاداب اور زور آور تھیں، ہمیں پورا یقین تھا کہ یہ لوگ
بھی لڑنے کو ہی ترجیح دیں گے ۔ ہم نے موقع سے فائدہ اُٹھایا اور سمر قند پر
قبضہ کر لیا ۔ قاضی نے قتیبہ ( کے نائب)کی بات کو نظر انداز کر تے ہوئے
دوبارہ پوچھا: قتیبہ میری بات کا جواب دو ، تم نے ان لوگوں کو اسلام قبول
کرنے کی دعوت ، جزیہ یا پھر جنگ کی خبر دی تھی ؟
قتیبہ( کے نائب)نے کہا: نہیں قاضی صاحب، میں نے جس طرح پہلے ہی عرض کر دیا
ہے کہ ہم نے موقع سے فائدہ اُٹھایا تھا۔ قاضی نے کہا : میں دیکھ رہا ہوں کہ
تم اپنی غلطی کا اقرار کر رہے ہو، اس کے بعد تو عدالت کا کوئی اور کام رہ
ہی نہیں جاتا۔
قتیبہ : اللہ نے اس دین کو فتح اور عظمت تو دی ہی عدل و انصاف کی وجہ سے ہے
نہ کہ دھوکہ دہی اور موقع پرستی سے ۔ میری عدالت یہ فیصلہ سناتی ہے کہ تمام
مسلمان فوجی اورانکے عہدہ داران بمع اپنے بیوی بچوں کے ، اپنی ہر قسم کی
املاک، گھر اور دکانیں چھوڑ کر سمر قند کی حدود سے باہر نکل جائیں اور
سمرقند میں کوئی مسلمان باقی نہ رہنے پائے ۔ اگر ادھر دوبارہ آنا بھی ہو تو
بغیر کسی پیشگی اطلاع و دعوت کے اور تین دن کی سوچ وبچار کی مہلت دیئے بغیر
نہ آیا جائے ۔ پادری جو کچھ دیکھ اور سن رہا تھا وہ اُسے ناقابل یقین بلکہ
ایک مذاق اور تمثیل نظر آرہا تھا۔ چند لمحوں کی یہ عدالت، نہ کوئی گواہ اور
نہ ہی دلیلوں کی ضرورت اور تو اور قاضی بھی اپنی عدالت کو برخاست کر کے
قتیبہ کے ساتھ ہی اُٹھ کر جارہا تھا۔ اور چند گھنٹوں کے بعد ہی سمر قندیوں
نے اپنے پیچھے گردوغبار کے بادل چھوڑتے لوگوں کے قافلے دیکھے جو شہر کو
ویران کر کے جارہے تھے ۔ لوگ حیرت سے ایک دوسرے سے سبب پوچھ رہے تھے اور
جاننے والے بتا رہے تھے کہ عدالت کے فیصلے کی تعمیل ہورہی تھی ۔ اور اُس دن
جب سورج ڈوبا تو سمر قند کی ویران اور خالی گلیوں میں صرف آوارہ کتے گھوم
رہے تھے اور سمر قندیوں کے گھروں سے آہ وپکار اور رونے دھونے کی آوازیں
سنائی دے رہی تھیں ، اُن کو ایسے لوگ چھوڑ کر جارہے تھے جن کے اخلاق،
معاشرت ، برتاﺅ، معاملات اور پیارومحبت نے اُن کو اور ان کے رہن سہن کو
مہذب بنا دیا تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ سمر قندی یہ فراق چند گھنٹے بھی برداشت
نہ کر پائے ، اپنے پادری کی قیادت میں کلمہ طیبہ کا اقرار کرتے ہوئے
مسلمانوں کے لشکر کے پیچھے روانہ ہوگئے اور اُن کو واپس لے آئے ۔
پاکستان کی قومی اسمبلی کے فلور پر فخر سے خود کو غوث اعظمؓ کی اولاد کہنے
والے وزیر اعظم گیلانی غافل ہیں اُس تاریخ سے جو لکھ چکی ہے کہ کس طرح
اُنہوں نے ایک سال تک عدلیہ کی آزادی میں رکاوٹیں ڈالی اور پھر ایک رات
عوامی ہجوم کے سامنے بے بس ہو کر ہتھیار ڈال دیئے صرف یہی نہیں تاریخ یہ
بھی لکھ چکی ہے کہ کس طرح عدالت عالیہ کے فیصلے کے خلاف پیپلز پارٹی نے
پورے سندھ میں احتجاج کرتے ہوئے نہ صرف اربوں کا نقصان کر ڈالا بلکہ کئی
انسانی جانوں کے ضیاع کا سبب بھی بنی اور اس پارٹی کے قیادت کوئی اور نہیں
بلکہ وہی شخص کر رہا تھا جو خود کو شیخ عبدالقادر گیلانی ؒ کی اولاد
گردانتا ہے ۔ تاریخ لکھی جارہی ہے اور لکھی جاتی رہے گی ۔ اس قلم کے نیچے
ابو جہل بھی آتے رہیں گے اور شیخ عبدالقادر جیلانی بھی ۔ فیصلہ ہمارے ہاتھ
میں ہے کہ ہم تاریخ کے صفحات پر کس کیٹیگری میں اپنا نام لکھوانا چاہتے ہیں
۔ |