سپریم کورٹ ملک کا سپریم ستون ہے

ملک کا سب سے اہم اعلیٰ ترین اور سب اداروں کے لیئے قابل احترام اور قابل اطاعت ادارہ عدالت عظمیؤ ہے۔ حکمران سیاسی لوگ ہوتے ہیں جو طالع آزما ہوتے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ ہمارے ملک میں مغربی جمہوری نظام کے تحت جب انتخابات ہوتے ہیں تو اقتدار کے حصول کے لیئے کس طرح سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔ اسے جوا کہہ لیں تو زیادہ مناسب ہے۔ کیونکہ جوا میں بھی کئی لوگ سرمایہ داﺅ پر لگاتے ہیں لیکن کامیاب تو ایک ہی ہوتا ہے۔ باقی سب کا مال کھوکھاتے۔ انتخابات لڑنے والے حضرات کسی غریب کو ایک وقت کا کھانا، کسی یتیم ،غریب بچے کو کپڑے ، کتابیں لیکر دینا گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں لیکن الیکشن آفس کے اخراجات کے نام پر رشوتوں کا بازار گرم ہوتا ہے۔ مشٹنڈے کھانے ، چائے، اور سموسے اڑاتے نظر آتے ہیں۔ بینروں پوسٹروں کے اخراجات کا اندازہ لگائیں تو اس رقم سے سے ہزاروں بچوں کے لیے اور کتابیں کاپیاں آسکتی ہیں۔

لیکن ایسا کون سوچے؟ یہاں تو حصول اقتدار کی دوڑ ہے ۔مطمع نظر صرف اور صرف قومی دولت لوٹنا اور راتوں رات مالدار بننا ہے۔ ایسے لوگوں جب ایوان اقتدار میں داخل ہوتے ہیں تو وہ عوام کو اپنا غلام اور عوام کی دولت کو مال غنیمت تصور کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں نے اپنے رشتہ دار مختلف عہدوں پر تعینات کرا رکھے ہیں۔ من پسند لوگوں کی کلیدی عہدوں پر تقرریاں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیئے ہوتی ہیں۔ یہ حکمران مافیا ہے اور اسکا نیٹ ورک اب برادری اور رشتہ ازم ہے۔ اسے مضبوط و مستحکم کرنے کے لیئے لڑکوں اور لڑکیوں کے باہمی عقد بھی نظریہ ضرورت ہوتے ہیں۔حکمران طبقہ عام طور پر معاشرہ کا انتہائی ظالم اور لٹیرا صفت ہوتا ہے۔کیونکہ یہ مغربی جمہوری نظام کی پیداوار ہے۔ اس کا تعلق اللہ اور رسول اور اسکے دیئے ہوئے نظام سے نہیں ۔ہر چہ خواہی می کرد کے اصولوں پر چل کر انہوں نے اس ملک میں ججوں سے بھی خوب کام لیا۔ ظالموں کو آزادی دلائی، بےقصوروں کو تختہ دار پر لٹکایا، ہر طالمانہ اور غیر آئینی قدم کو ججوں سے قانونی تحفظ دلایا۔ نظریہ ضرورت جیسی بھونڈی اصطلاحات کی تخریج و ترویج کی۔ اللہ کی مہربانی ہوئی کہ خلاف معمول موجودہ چیف جسٹس ایک متکبر فوجی جرنیل کے سامنے ڈٹ گئے کہ جسکے سامنے بڑے بڑے سیاستدان بکریاں بنے ہوئے تھے۔کمانڈو ہونے کا دعویٰ کرنے والا تو کھوکھلا ڈھانچا بن گیا اور کمانڈو کی صفات جرات و بہادری اور خطرات سے کھیلنے کی ہمہ تر صفات اللہ پاک نے اسے عطا کردیں کہ جسے جرنیل صاحب حقارت سے مخاطب کر رہے تھے۔ کہتے ہیں سچ ہی غالب آتا ہے۔ عوام لٹیرے حکمرانوں سے نفرت ہی کرتے چلے آئے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ مظلوم عوام حکمرانوں کے خلاف داد رسی کے لیئے ججوں کے پاس جاتے تو وہ محسوس کرتے کہ آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا۔ اللہ پاک کا فرمان ہے کہ تلک الایام نداولھا بین الناس کہ یہ دن ہیں انہیں ہم لوگوں کے درمیان پھیرتے ہیں۔

موجودہ حکمرانوں نے دوسروں کی نسبت کم نہیں لوٹا۔ کسی نے کہا کہ صدر زرداری اور میاں نواز شریف اگر اپنی بیرون ملک دولت واپس لے آئیں تو ملک کی معاشی حالت بہت اچھی ہوجائے گی۔ مگر یہاں سے ہوس دولت کی کوئی منزل مقصود نظر ہی نہیں آتی۔ سوئزر لینڈ کی دولت کے تحفظ کے لیئے نیب کا سربراہ پی پی کا سابق ایم پی اے لگا دیا ۔ مزید تحقیقات سے تحفظ کے لیئے وسیم کا ایف آئی اے میں ہونا بھی ضروری ہے۔ ویسے اور بھی جگہیں کہ جہاں اپنے آدمیوں کا ہونا زرداری صاحب اور انکی پارٹی کی ضرورت ہے۔ مثلاً سپریم کورٹ میں اگر جج اپنے ہوں تو حسب سابق مزے ہی مزے ۔ مگر اب حالات بدل چکے ہیں۔ اب ضمیر فروشی کو ججوں نے طلاق مغلظہ دیدی ہے۔ رجوع یا حلالہ کی بھی اب کوئی گنجائش باقی نہیں۔ بھارت میں بت پرستوں کی حکومت ہے۔ مگر خدا جانے ان لوگوں کو قانون کا احترام کس نے سکھا دیا۔ اتنا بڑا ملک ہے۔ عدلیہ کے خلاف آج تک کوئی بکواس سننے میں نہیں آئی۔ ایک ہمارا ملک ہے کہ جہاں حکمرانوں کی مرضی کے خلاف کوئی فیصلہ ہوا تو انکی نیندیں حرام ہوگئیں۔ پہلے تو کاغذی کاروائی میں لگ جاتے تھے اب عدلیہ کی اعلانیہ توہین شروع کردی۔ بات تو یہ ہے کہ ہر محکمے کا سربراہ انکا آدمی ہو جو انکے مخالفین کے خلاف تو اقدامات کرے مگر انکے استثنا کا خیال رکھے جیسے کہ امریکہ کہتا ہے کہ ڈیوس نے تین پاکستانیوں کو ہی قتل کیا ہے تو کیا ہوا اسے ہر قسم کی سزا سے استثنا ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو لوٹ مار کرنے میں استثنا درکار ہے۔ اب بات بہت دور جاچکی ہے۔ حکمرانوں کے ظلم کے خلاف اعلیٰ عدالتوں نے عوام کی داد رسی کرنی ہی کرنی ہے۔ حکمران خواہی نخواہی عدالتوں کے فیصلوں پر عمل کریں ورنہ بقول شیخ رشید صاحب پارلیمنٹ کے سامنے التحریر چوک بننے والا ہے۔ آٹا ، چینی ،تیل، حجاج کرام سے زائد وصولیوں کی آمدنی سے کیا ابھی حکمرانوں کی تجوریاں نہیں بھریں تو پھر اللہ کی یہ زمین بہت جلد انکے پیٹوں کو معمور کردے گی۔

سندھ اسمبلی میں اعلیٰ عدلیہ کے خلاف قرارداد اور ایجیٹیشن کی پوری قوم نے مذمت کی ہے ۔ حکمران توبہ کریں اور معافی مانگیں۔
AKBAR HUSAIN HASHMI
About the Author: AKBAR HUSAIN HASHMI Read More Articles by AKBAR HUSAIN HASHMI: 146 Articles with 140627 views BELONG TO HASHMI FAMILY.. View More