امریکہ کے صدر ٹرمپ کی دعوت پر پاکستان کے وزیر اعظم
عمران خان امریکہ کے دورے پرآج رات 20جولائی 2019 ء تشریف لے جارہے ہیں ۔
یہ دعوت امریکہ کے صدر نے از خود دی ہے، پاکستان کے لیے یہ اعزاز کی بات ہے
کہ پاکستان ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کے بارے میں منفی خیالات رکھنے والا شخص
جو دنیا کے طاقت ور ملک کا صدربھی ہے پاکستان کے وزیر اعظم کا میزبان ہوگا
۔ اس ملاقات سے دو طرفہ تعلقات کو فروغ ملے گا ۔ بہت ممکن ہے کہ اس عمل میں
ٹرمپ یا امریکی مفاد کار فرما ہو ں لیکن دنیا کے تمام ممالک کے مابین
تعلقات کی بنیاد مفادات ہی ہوتے ہیں ۔ ہر ایک کا مفاد دوسرے سے وابستہ
ہوتاہے ۔ کسی کو فضائی حدود چاہیے ہوتی ہیں ، کسی کو اپنا مال بیچنا ہوتا
ہے، امریکہ اور سعودی عرب کی دوستی، روس اور ایران کے تعلقات، بھارت اور
امریکہ کی دوستی، بھارت اور افغانستان کی دوستی الغرض تمام ممالک جو ایک
دوسرے سے تعلقات کو دوستی کانام دیتے ہیں ان کی دوستی کی بنیاد مفادات ہی
ہوتے ہیں ،مفادات نہ ہوں تو ایک دوسرے کو طاقت ور کمزور کو ہڑپ کرجائیں اور
ڈکار بھی نہ لیں ۔ بھارت کی افغانستان سے دوستی ;238; افغانیوں سے محبت کی
وجہ سے ہے ،ہرگز نہیں یہ مفاد ہے ، پاکستان کو کس طرح نقصان پہچایا جائے ،
اسی طرح امریکہ سعودی عرب کا مخلص دوست ہے ;238;ہرگز نہیں مفاد ایک کو تیل
چاہیے دوسرے کو بڑی طاقت کی آشرواد ۔ بات مختصر یہ کہ وزیر اعظم پاکستان
امریکہ تشریف لے جارہے ہیں ۔ امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات ہوگی بلکہ دو
ملاقاتیں ہوں گی ، ٹرمپ اپنے یعنی امریکی مفادات کی بات کرے گا ، اس کا
مفاد کیا ہے پاکستان سے یہی کہ وہ بعض عالمی مسائل پر امریکہ کی مدد کرے،
جیسے افغانستان میں امریکہ پھنس چکا تھا اب نکلنے کی کوشش میں ہے، اسے
معلوم ہے کہ پاکستان اس کی مدد کرنے کی پوزیشن میں ہے اور مدد کرنے میں پیش
رفت بھی ہوچکی ہے،امریکہ ایران کابھی مسئلہ چل رہا ہے، پاکستان ایران کے جس
قدر قریب ہے اور اس کا دوست ہے امریکہ نہیں ہوسکتا، امریکہ کا ایک مفاد اس
مسئلہ پر بھی پاکستان کی تائید حاصل کرنا ہوسکتا ہے ۔ امریکہ کو اپنا اسلحہ
فروخت کرنا ہے ، پاکستان کو خریدنا ہے، اسی طرح اور بھی کئی مفادات امریکہ
کے پاکستان سے ہوسکتے ہیں ۔ اس کے برعکس پاکستان کو اپنے مفادات کی بات
کرنی ہو گی، پاکستان اس وقت معاشی مشکل کا شکار ہے، یقینا عمران خان اس
مشکل پر بات کرسکتے ہیں ، پاکستان میں امریکی سرمایہ کاری کی جانب توجہ
دلائی جاسکتی ہے، امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کے لیے سہولیات پر توجہ دلائی
جاسکتی ہے، بھارت اور امریکہ کے درمیان قربت ہے، پاکستان امریکی صدر کی
توجہ بھارت کی دہشت گرد کاروئیوں کی جانب دلا سکتا ہے ۔ بھارت کو پاکستان
سے مزاکرات پر آمادہ کرنے کا مسئلہ زیر غور آسکتا ہے ۔ پاکستان کی بیٹی
ڈاکٹر عافیہ صدیقی جسے امریکی عدالت نے 86 سال کی سزا سنائی ہے ،اس کی
حوالگی کی بات بھی ہوسکتی ہے ۔ اس موضوع پر حامد میر کا تفصیلی کالم
روزنامہ جنگ میں 18 جولائی2019ء کو شاءع ہوچکا ہے جس میں حامد میر نے عمران
خان کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی ہے ۔
پاکستان اور امریکہ کے حکمراں اس سے قبل بھی ملاقاتین کر چکے ہیں لیکن اس
بار دونوں آزاد و جمہوری ممالک کے سربراہان کی ملاقات کی نوعیت مختلف ہے،
حالات مختلف ہیں ، سربراہان مختلف سوچ اور مختلف صلاحتوں کے حامل ہیں ۔ آج
امریکہ پاکستان کو ڈو مور نہیں کہہ رہا بلکہ در پردہ اس بات کا خواہ ہے کہ
اسے افغانستان سے کسی طرح نجات دلادی جائے، اسے معلوم ہے کہ پاکستان اس
پوزیشن میں ہے کہ وہ اس مسئلہ پر اہم کردار ادا کرسکتا ہے ۔ جہاں تک
پاکستان کے مفادات کو امریکیوں تک پہنچانے کی بات ہے ، اہم بات یہ ہوتی ہے
کہ کہنے والے کا انداز کیسا ہے، وہ کس قسم کے جملے استعمال کررہا ہے، اس کی
باڈی لینگویج کیسی ہے، الفاظ کیا استعمال کررہا ہے ۔ لکھی ہوئی تقریر ایک
طرح کی فارملیٹی تصور ہوتی ہے، سننے والوں کے ذہنوں میں یہ تاثر ہوتا ہے کہ
یہ تقریر کسی نے لکھ کر دے دی ہے جسے یہ پڑھ کر سنا رہا ہے ، یا سامنے بیٹھ
کر گفتگو کے دوران ہاتھ میں پرچیوں پر دیکھ دیکھ کر بات کرنے سے بات میں
وزن نہیں رہتا، سامنے والے پر منفی اثرات پڑتے ہیں ۔ پرچیاں رکھنے والے کی
قابلیت کا بھی اندازہ ہوجاتا ہے ۔ عمران خان سے لاکھ اختلاف سہی لیکن عمران
خان اردو ہی نہیں بلکہ انگریزی میں فی البدہیہ گفتگو کرنے اور تقریر کرنے
میں مہارت رکھتے ہیں ، بلکہ ان کا انداز تکلف جاذب نظر ہے، وہ اعتماد سے
بولتے ہیں ۔ وہ جب ٹرمپ کے سامنے بیٹھے ہوں گے تو ان کے ہاتھ میں پرچیاں
نہیں ہوں گی، یا انہیں کوئی اشارے کنارے نہیں کررہا ہوگا، امید ہے وہ ٹرمپ
کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کریں گے، وہ ٹرمپ کو اپنا نقطہ نظر
سمجھانے میں کامیاب رہیں گے ۔ البتہ فی البد ہیہ بولنے میں اگر تیاری نہ ہو
تو انسان بھک بھی جات ہے، کچھ کا کچھ کہہ جاتا ہے ، بسا اوقات غلط بیانی
بھی کرجاتا ہے ۔ اس لیے ضروری ہے کہ عمران خان کو جو کچھ بھی بولنا ہے اس
کی تیاری کریں ، غیر ضروری بات مسئلہ کو خراب کرتی ہے ۔ چھوٹی سے چھوٹی اور
قابل لوگوں کی ٹیم اپنے ہمراہ لے کر جائیں ۔ سابقہ وزرا ِعظموں کے غیر ملکی
دوراں پر آنے والے اخراجات آجکل میڈیا کا موضوع بنے ہوئے ہیں ۔ اس بات کا
خاص خیال رکھیں کہ اس دورہ پر کم سے کم قومی خزانہ خرچ ہو ۔ عمران خان پہلے
ہی اعلان کرچکے ہیں جو کہ قابل تعریف عمل ہے کہ وہ امریکی صفیر کے گھر قیام
کریں گے بڑے اعلیٰ ہوٹل میں قیام نہیں کریں گے ، کمرشل فلاءٹ سے سفر کریں
گے، وزیر اعظم کی پیروی کرتے ہوئے ان کے ہمراہ جانے والے سرکاری اہل کاروں
،میڈیا کے لوگوں کو بھی چاہیے کہ وہ بھی کفایت شعاری کا ثبوت پیش کریں ۔
یاد رکھیے اب وہ روایتی میڈیا نہیں رہا، یہ اکیسوی صدی کا میڈیا ہے، آج کا
میڈیا عقاب کی نظر رکھتا ہے، آپ کہاگئے، کہاں ٹہرے ، کس سے ملے، کب ملے،
کیوں ملے، کہاں ملے، یہاں تک کہ آپ نے کیا کھایا اور کتنے پیسے کا کھایاہر
چیز پر میڈیا کی نظر میں ہوگی، چنانچہ ساتھ جانے والے رہیں ہوشیار، اب تو
آڈیو اور ویڈیو بھی بن سکتی ہیں ۔ چنانچہ پاکستان کی بات کریں ، پاکستان
کے مفاد کی بات کریں ۔ کفایت شعاری اور سادگی کو اپنائے، ملک و قوم کا پیسہ
ناجائز خرچ نہ کریں ۔
کچھ بات کپتان کی اگر کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کپتان نے کرکٹ میں فتح
اور شہرت کے جھنڈے گاڑنے کے بعد سیاست کے میدان میں قدم رکھا، تو پاکستان
کے موروثی اور روایتی سیاستدانوں نے اُس کا مزاق اڑایا، اس پر بھپتیاں کسی،
اس کا تمسخر اڑایا، اس کی تعریض کی اس پر طعن و تشنہ کے نشتر برسائے ۔ اس
وقت عمران خان دیگر سیاستدانوں میں عمر اور اپنے ظاہری کٹ کاٹھ ، شکل صورت
کے اعتبار سے خوش شکل، خوش رو، لہیم شہیم ، وجہہ من موہنی صورت لیے ہوئے
تھے ۔ سیاستدانوں کا عام خیال یہی تھا کہ یہ کرکٹ کا کھلاڑی بھلا سیاست کے
میدان میں کیا تیر مارے گا، یہاں چوکے اور چھکے لگانا اس کے بس کی بات نہیں
، سیاست کے میدان میں اس کے لیے وکٹ لینا مشکل ہی ہوگا ۔ یہ بھی آوازیں
بلند ہوئیں کہ شاید اس شخص کو کسی بیرونی قوت نے میدانِ سیاست میں کسی مقصد
سے اتارا ہے ۔ مقصد پورا ہوگا یہ واپس چلا جائے گا ۔ لیکن عمران ایک کمٹٹ
انسان ہے ، اس نے کرکٹ کے میدان میں کامیابی کے جو جھنڈے گاڑے تھے وہی
جھنڈے یہ سیاست کے میدان میں بھی گاڑنے کا ارادہ رکھتا تھا عمران نے بائیس
سال کی جدوجہد سے ثابت کردیا کہ وہ ایک کمٹٹ انسان ہے ، وہ پاکستان کو ترقی
کی جانب لے جانا چاہتا ہے، محب وطن ، سچا پاکستانی ہے ۔ اس مقصد کے حصول کے
لیے اس نے سیاست میں موجود کرپٹ لوگوں کے خلاف آواز بلند کی، احتساب کو
اپنی سیاست کی بنیاد بنایا، اس نے تبدیلی کا نعرہ لگایا، کس میں ہمت تھی ،
کس میں جرت تھی کہ وہ پاکستان کے نامی گرامی ، دولت کے امبار لگانے والے
حکمرانوں ، برس ہا برس سے اقتدار کے مزے لوٹنے والوں کو للکار سکے ۔ ان سے
پوچھ سکے کہ ملک کے اندر اور ملک کے باہر تم نے دولت کے پلازے کیسے تعمیر
کیے ۔ لیکن عمران کی باتوں میں وزن تھا، بات سچ کہہ رہا تھا، قوم کا پیسہ
لوٹنے والوں کی بات درست تھی، لیکن دو جماعتوں کا سیاسی برج اس قدر مضبوط
تھا کہ اس میں دراڑ ڈالنا آسان نہیں تھا ۔ 2002ء کے عام انتخابات منعقد
ہوتے ہیں ، پوری ملک سے عمران خان تن تنہا اپنی جماعت کی نمائندگی کرتا ہے
، گویا قومی اسمبلی میں صرف ایک سیٹ وہ بھی عمران خان کی ۔ یہ عمران خان کے
ملک پر حکمرانی کے سفر کا آغاز تھا ۔ عمران خان کی پارلیمانی سیاست کا
آغاز بھی تھا ۔ اس وقت ملک پر ایک فوجی حکمرانی کررہا تھا، کہتے ہیں کہ اس
نے عمران خان کو وزیر اعظم بننے کی پیش کش بھی کی تھی جسے عمران خان نے
ٹھکرادیا تھا، اس بات میں صداقت اس لیے بھی محسوس ہوتی ہے کہ پرویز مشرف نے
دیگر کو بھی باہر سے بلوا کر وزیر اعظم کی کرسی پر بٹھایا اور ماضی کے فوجی
حکمران ایسا ہی کرتے رہے ہیں ۔ تنہا قومی اسمبلی کا رکن ، کوئی سوچ سکتا
تھا کہ تنہا اسمبلی کا رکن منتخب ہونے والا16سال بعد ملک کا حاکم ہوگا ۔
حاکم ہی نہیں بلکہ سابقہ طاقت ور حاکموں کو اس حال کو پہنچادے گا کہ وہ
پابند سلاسل ہوں گے، اسمبلی کا رکن ہونے کے باوجود اپنے پروڈکشن آڈر کے
لیے اپنی جماعت کے اراکین سے احتجاج کروائیں گے ۔ یہ بات الگ ہے کہ عمران
خان کو وہ ٹیم میسر نہیں آئی جو اس کی حکمرانی میں اس کی اس طرح معاون و
مدد گار ثابت ہوتی جس کی ضرورت تھی ۔ سخت اور مشکل حالات نے ملک کو اپنے
شکنجے میں لیا ہوا ہے، ملک کی معیشت کا برا حال ہے، مہنگائی تھمنے کا نام
نہیں لے رہی لیکن اس کا مطلب حکومت ناکام ہوگئی، اسے فوری چلے جانا چاہے،
اگر چلی بھی جائے تو کون آئے گا، وہی جو پہلے حکمراں تھے ۔ حکومت جو
تدبیریں بہتری کی کررہی ہے فوری بہتری کسی صورت نہیں آسکتی ، اگر حکومت
نواز شریف کی ہوتی یا زردزری صاحب کیاس صورت میں بھی حالات اسی طرح کے ہونا
تھے ۔ وقت کے ساتھ ساتھ انشاء اللہ معیشت بہتر ہوگی، حالات میں بہتری آئے
گی، ملک خوش حال ہوگا ۔
|