غازی ملت ’’تجھے یاد کرے گا زمانہ‘‘

تحریر: سردار پر ویز یعقوب خان داتوٹ

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب کسی قوم پر ظلم و جبر کی انتہا ہو جائے تو اسی میں سے کسی ایسے فرد کو پیدا کیا جاتا ہے۔ جو اس کا رہنما اور نجات دہندہ بن جاتاہے۔ ایسے کئی افراد جنہوں نے اپنے قوم کو پستیوں سے اُٹھا کر ہمدوش ِ ثریا کر دیا وہ انتہائی غربت و افلاس کے ماحول میں پیدا ہوئے انہیں تعلیم یا زندگی کے ابتدائی مرحلوں میں شدید مشکلات سے گزرنا پڑا۔ جب کہیں جا کر وہ گردش ِشام و سحر کا انداز بدلنے میں کامیاب ہوئے ۔ انہی میں ایک شخص غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان بھی تھے۔

غازی ملت سردار محمد ابراہیم کو ہم سے جدا ہوئے سولہ سال ہو گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی تاریخ کا ایک درخشاں باب اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے۔وہ تاریخ ساز شخصیت تھے انہوں نے نہایت مشکل حالات میں اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کا نام بین الاقوامی افق پر چمکنے لگا۔ انہوں نے ایک بھر پور زندگی گزاری جو جدوجہد ،جرات،دیانت اور استقامت سے عبارت ہے۔ وہ بلا شعبہ ۴۷،۴۸ کی تحریک ِ آزادی کشمیر کے سب سے بڑے رہنما تھے۔ کشمیر کا یہ خطہ جس میں آج عوام الناس آزادی کی سانسیں لے رہے ہیں اس کی آزادی میں غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان کی قائد انہ صلاحیتوں اور جدوجہد کا سب سے بڑا کردار ہے۔ انہوں نے تحریکِ اازادی کے لیے ہر وہ قربانی دی جس کا تقاضا حالات نے کیا مگر ان کی اصل عظمت یہ ہے کہ انہوں نے عمر بھر اپنی خدمات کو ’’فرض کی ادائیگی‘‘ کی صورت میں ہی پیش کیا،قوم پر احسان کا جامعہ نہیں پہنایا انہوں نے کبھی یہ گوارہ نہ کیا کہ قربانیوں کے ان تمغوں کو سینے پر سجا کر مفادات کی منڈی میں سودا بازی کرتے پھریں۔ وہ ہمیشہ ایسی باتوں سے بلند تر رہے۔ آج کل کی سیاست اور اس کے کار پردازوں پر اگر نظر ڈالی جائے تو سردار ابراہیم خان کا کردار مینار نور کی مانند نظر آتاہے۔

تحریک آزادکشمیر کے نامور ہیرو و آزاد جموں و کشمیر کے بانی صدر غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان 88سالہ قومی زندگی کی بھر پور جدوجہد کے بعد اس دار فانی سے عالمِ جاودارنی کو رخصت ہوگئے۔1915؁ء کو ضلع پونچھ کے گاؤں ہورنہ میرہ میں پیدا ہونے والے اس عظیم مردِ مجاہد نے اپنی بھر پور سیاسی زندگی گزاری اور جب2003؁ء میں ان کا انتقال ہوا تو پوری کشمیر ی قوم اس بات کی گواہی دے رہی تھی کہ آج ہم یتیم ہو گئے ہیں۔ ان کی رحلت نہ صرف کشمیری قوم بلکہ ایک عالم کو سوگوار کر گئی ۔ کشمیریوں کی تحریکِ آزادی و الحاق ِ پاکستان ور حریت و فکر و نظر کا ایک باب ختم ہوگیا۔ غازی ملت نے 1933؁ء میں میٹرک کا امتحان نمایا ں پوزیشن میں پاس کیا اس کے بعد وہ گورنمنٹ اسلامیہ کالج لاہور میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے داخل ہوگئے۔1938؁ء میں قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے لندن چلے گئے۔1941-42؁ء میں انہوں نے بار ایٹ لاء کیا ۔ 1943؁ء میں کشمیر کے دارالحکومت تشریف لے گئے اور وہاں پر انہوں نے پریکٹس شروع کی۔ مہارجہ ہر ی سنگھ کی حکومت نے انہیں گورنمنٹ ایڈووکیٹ جنرل مقرر کیا ۔ غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان کا تعارف کروانا سورج کو چاند دکھانے کے مترادف ہے۔ انکے کارنامے تاریخ کا سنہری باب ہیں۔19جولائی 1947؁ء کو قرارداد ِ الحاق پاکستان اپنے گھر واقع سری نگر آبی گززگاہ میں منظور کروا کر کشمیریوں کی منزل کا تعین کر لیا۔ غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان 1947؁ء ،1957؁ء،1975؁ء اور 1996؁ء میں آزاد کشمیر کے صدر رہے۔ وہ آزاد کشمیر کے نو عمر ترین اور معمر ترین صدر کا اعزاز بھی حاصل کر چکے ہیں۔ سردار محمد ابراہیم خان نے 57سال تک سیاست کے میدان میں اپنا لوہا منوایا۔ غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان دو کتابوں کے مصنف بھی تھے۔ کشمیر ساگا اور متاعِ زندگی سردار ابراہیم خان کی تصانیف ہیں۔ غازی ملت سار ی زندگی کشمیر کی آزادی کے لیے جدوجہد کرتے رہے، جب بھارت نے اقوام ِ متحدہ میں مسئلہ کشمیر پیش کیا تو سردار محمد ابراہیم خان نے کشمیری عوام کا موقف بھر پور انداز میں پیش کیا۔ مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لیے انہوں نے کئی ایک ممالک کے دورے کیے۔ جدوجہد ِ کشمیر میں ان کی خدمات ایک نڈر رہنما کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان نے قائدِاعظم محمد علی جناح، لیاقت علی خان ، حسین شہید سہر وردی ، ملک فیروز خان نون، فیلڈ مارشل ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو ، جنرل ضیاء الحق ، محترمہ بے نظیر بھٹو، میاں نواز شریف اور جنرل پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں آزاد کشمیر کے صدر رہے۔ غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان نے ہمیشہ جمہوریت کی بات کی وہ آمروں کے خلاف تھے۔ انہوں نے کبھی آمروں کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کیا۔ آپ نے کبھی موقع پرست ابن الوقت سیاست دانوں کا کردار ادا نہیں کیا۔ کبھی ذاتی مفاد ات کی خاطر ملکی مفاد کو داؤ پر نہیں لگایا۔

غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان کی بے شمار خوبیوں میں ایک خوبی یہ بھی تھی کہ جس بات کو درست سمجھتے تھے اس پر ہمیشہ سٹینڈ کرتے تھے اور ہمیشہ آن ریکارڈ بات کرتے تھے انہوں نے کبھی آف دی ریکارڈ بات نہیں کی، انہوں نے اصولی معاملات پر کئی بار ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ بھی اختلاف کر کے جرات مندی کا ثبوت دیا۔

غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان نے پہلی بار کشمیر کو ایشیاء کا سوئزرلینڈ کہا ۔ ان کی خواہش تھی کہ کشمیر کو اس طریقہ کار پر ڈیولپ کیا جائے کہ کشمیر پوری دنیا کے سیاحوں کا مرکز بنے لیکن بعض قدامت پسندوں اور مفاد پرستوں کی رکاوٹ کی وجہ سے ایسا نہ ہو سکا۔ غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان کشمیر کے حسن کی تعریف ایسے کرتے جیسے حقیقی معنوں میں جنت دنیا پر ہو۔ غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان آزاد کشمیر کے حوالے سے بھی منفرد سیاستدان تھے چھ دہائیوں تک سیاست میں رہنے کے باوجود ان پر کسی قسم کی کرپشن کا الزام نہیں لگا۔ غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان ہم سے جدا ہو گئے اس کے ساتھ ہی تاریخ کا ایک درخشاں باب اپنے انجام کو پہنچا ۔وہ ایک تاریخ ساز شخصیت تھے۔ غازی ملت کا کردار بلند تر تھا ، وہ ایک عظیم رہنما تھے۔ دیانت اور امانت کے معاملے میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ بر صغیر کے سیاستدانوں میں وہ ایک ممتاز مقام رکھتے تھے۔ خطہ کی واحد شخصیت تھے جن کی امانت اور دیانت پر کوئی انگلی نہیں اُٹھا سکتا۔ انہوں نے یہاں کے لوگوں کو ووٹ کا حق دلایا۔غازی ملت سردار محمد ابراہیم خا ن ایک بلند پایا شخصیت اور پوری قوم کے محسن تھے ، عظمت اور کردار کا مینار تھے۔ غازی ملت علاقائی یا برادری ازم پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ غازی ملت کی ساری زندگی چراغ کی مانند ہے ،غازی ملت کی زندگی کو مشعل راہ بنا کر آگے بڑھتے رہنا چاہیے۔ کشمیر کا پاکستان سے الحاق غازی ملت کی سیاست کا مرکز و محور تھا۔ غازی ملت سردار محمد ابراہیم خا ن ایک عظیم سیاستدا ن تھے ان جیسی شخصیت صدیوں بعد پید ا ہوتی ہے۔غازی ملت سردار محمد ابراہیم خا ن وقت اور ڈسپلن کے سخت پابند تھے۔ سردار محمد ابراہیم خان بے داغ ماضی کے مالک تھے۔غازی ملت سردار محمد ابراہیم خا ن نے کبھی اپنے عہدے کا غلط استعمال نہیں کیا کبھی اپنے معیار سے نہیں جھکے اور نہ ہی کبھی اصولوں پر سودا بازی کی ۔ غازی ملت کا کو ئی نعم البدل نہیں۔غازی ملت سردار محمد ابراہیم خا ن کی ساری زندگی کھلی کتاب کی مانند ہے انہوں نے کبھی میرٹ سے ہٹ کر کام نہیں کیا، جمہوریت کے ساتھ انکی وابستگی مسلمہ تھی۔ غازی ملت سردار محمد ابراہیم خا ن ہمیشہ فوجی حکمرانوں سے دور رہے۔ وہ لوگوں کے دلوں پر حکمرانی کرتے تھے۔ غازی ملت سردار محمد ابراہیم خا ن کی پوری زندگی نوجوانوں کے لیے ماڈل ہے۔ غازی ملت کی جدائی سے پوری کشمیر ی قوم کو تنہائی کا احساس ہے۔ غازی ملت قوم کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

غازی ملت سردار محمد ابراہیم خا ن نظریہ الحاق پاکستان کے بنیادی محرک تھے انہوں نے کشمیریوں کی تشخص اور وقار کی بھر پور جنگ لڑی۔ انکی عظیم قیادت میں کشمیر ی عوام کو ڈوگرہ حکمرانوں کے جبر اور غلامی سے نجات ملی۔کشمیر یوں کی پہچان غازی ملت کے مرحون ِ منت ہے۔ غازی ملت کی وفات تحریک آزادی کشمیر کے لیے بڑا دھچکا ہے۔ غازی ملت اعلیٰ ظرف لیڈر تھے۔ غازی ملت باطلِ حریت بن کر ابھرے ، قائدِ جمہور بن کر چمکے اور بابائے قوم بن کر ہم سے جدا ہو گئے۔ غازی ملت کی زندگی تاریخ کا خوبصورت باب ہے۔ غازی ملت سردار محمد ابراہیم خا ن بے داغ شخصیت اور باوقار سیاستدان تھے۔ سردار ابراہیم صداقت اور دیانت کے پیکر تھے۔1948؁ء میں اقوامِ متحدہ میں کشمیر یوں کی نمائندگی کی اور سیکورٹی کونسل میں بڑی موثر تقریر کی۔ غازی ملت نے اقوامِ متحدہ میں کشمیریوں کی جس طرح نمائندگی کی وہ انکے فہم وفراصت کی درخشاں مثال ہے۔ انہی کی تقریر کے نتیجے میں مسئلہ کشمیر اقوامِ متحدہ کی وہ مشہور ِزمانہ قرارداد پاس ہوئی جس پر مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے موقف کی بھر پور عمارت کھڑی ہے۔ غازی ملت کی جدوجہد کا صلہ محبت و احترام کی شکل میں کشمیری قوم نے بھر پور انداز میں دیا ہے۔ وہ بڑی حد تک ایک غیر متنازعہ لیڈر کی حیثیت سے سیاست کے میدان میں سرگرم ِ عمل رہے۔ وہ دو مرتبہ کشمیر کے چیف ایگزیکٹو اور دو مرتبہ آئینی صدر بنے۔ اس طرح ایک طویل عرصہ ایوانِ اقتدار میں رہنے کے باوجود انہوں نے ایک شفاف اور دیانتدارانہ زندگی گزاری وہ بھی اس شان کے ساتھ کہ آج پورے ملک میں کوئی ایک شخص بھی ان پر انگلی اٹھا کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ ان سے کبھی مالی بے قاعدگی اور اصول ، ضابطے کی خلاف ورزی ، اقرباء پروری یا قبیلائی تعصب ہواہو۔ مالی دیانت کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ لمبا عرصہ اقتدار میں رہنے کے باوجود انکا جنازہ آسلام آباد کے ایک کرایے کے مکان سے اُٹھایا گیا اورپاکیزہ زندگی کی اس سے بڑی مثال کیا ہو سکتی ہے کہ انکی وفات پر ہر زبان پر انکے لیے کلمہ خیر تھا اور ہر آنکھ اشک بار تھی۔غازی ملت سردار محمد ابراہیم خا ن کی یاد کشمیر کے اداس چناروں میں ہمیشہ محسوس کی جائے گی۔ غازی ملت نے 1948؁ء میں سلامتی کونسل میں پریس کے ایک سو نمائندوں سے خطاب کیا تو اس وقت انکی عمر صرف ۳۳برس تھی۔

کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ عظیم لیڈر کبھی نہیں مرتے ممکن ہے وہ ہماری نظروں سے اُجھل ہوجائیں لیکن ان کی یاد ہمیشہ دلوں میں رہتی ہے ۔ زندگی کی حرارتیں اگر ختم ہو جائیں تو دنیا کے دامن میں کچھ نہیں رہے گا۔ اس طرح دنیا اگر اپنے بہادر، بے باک اور سچے سپوتوں کو فراموش کر دے تو تاریخ کے دامن میں کانٹوں کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا لیکن یہ واقعہ امر ہے کہ نہ تو زندگی کی حرارت ختم ہو سکتی ہے اور نہ ہی دنیا اپنے بہادر فرزندوں کو فراموش کر سکتی ہے۔ پھر غریب اور غلام قومیں اپنے محسنوں کو کبھی فراموش نہیں کرتیں جنہوں نے غلامی، استحصال اور ننگے تشدد کے خلاف جدوجہد کی راہ روشن کی ہو دنیا کی غلام اور غریب قومیں اس غلام ملک کے عظیم فرزند کو کبھی فراموش نہیں کر سکتیں۔

اگر یہ کہا جائے کہ سردار محمد ابراہیم خان سب سے پہلے پاکستانی تھے تو بے جا نہ ہو گا ۔ انہوں نے قیام ِپاکستان سے قبل ہی کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی قراداد پاس کروائی انکی پاکستان کے ساتھ وابستگی ہمیشہ کسی شک و شبہ سے بالاتر رہی۔ وہ آزاد ریاست جموں و کشمیر میں الحاق پاکستان کے سب سے بڑے داعی تھے پاکستان کی طرف سے ان کے خلاف غیرآ ئینی، غیر جمہوری کاروائیاں ہوئیں لیکن اس کے باواجود ان کی پاکستان کے ساتھ وابستگی اور محبت میں کوئی فرق نہیں آیا انکا دل ہمیشہ پاکستان کے ساتھ دھڑکتا رہا۔

غازی ملت کی سب سے بڑی خواہش پورے کشمیر کی آزادی اور اس کا الحاق پاکستان سے کرنے کی تھی جو انکی زندگی میں تو پوری نہ ہو سکی لیکن آج مقبوضہ کشمیر میں جذبہ آزادی کی چنگاری شعلہ بن چکی ہے اور آزادی کے پیر و وجواں بے دریع اپنے سروں کی فصلیں کٹوا رہے ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ جس طرح غازی ملت اور انکے ساتھیوں نے ایک دلیرانہ فیصلے کے ذریعے بے سر و سامانی کے عالم میں دشمن کے ارادوں کو شکست فاش دی آج ہم بھی ایسا ہی فیصلہ کرنے کی جرت دکھائیں یہ مواقع قوموں کی زندگی میں بار بار نہیں آتے۔غا زی ملت کے مشن کی تکمیل کے لیے پوری قوم کو کمر بستہ ہوکر مقبوضہ کشمیر کی آزادی کو آگے بڑھانا چائیے تاکہ غازی ملت کا خواب شرمندہ تابیر ہو سکے۔

آج جب آپ غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان کی برسی پر تشریف لائیں گے تو ایک درویش صفت انسان جو آپ کو خوش آمدید کہتاتھا ،آپ کو کرسی پر بیٹھا تا تھا اور خود گاس پر نیچے بیٹھ جاتا تھا اُس کی کمی شدت سے محسوس کی جائے گی اور اس بار جب آپ مزار پر دعا کرنے کیلئے جائیں گے تو ایک نئی قبر آپ کو دیکھنے کو ملے گی یہ اُسی درویش کی ہے جو آپ کو گلے ملتا تھا ، کرسی پر بیٹھاتا تھا ، اور خود گاس پہ بیٹھ جاتا تھا ۔ جب دعا کا وقت آئے تو غازی ملت کے ساتھ ساتھ اصولوں اور میرٹ کے عظیم پیکر محترم خالد ابراہیم مرحوم کے لیے بھی خصوصی دعا کریں۔ اﷲ تعالیٰ سب کی مغفرت فرمائیں۔آمین

Ahsan Ul Haq
About the Author: Ahsan Ul Haq Read More Articles by Ahsan Ul Haq: 10 Articles with 14335 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.