بھارت کو” ثالثی کے دست “اور” بیت الخلاء“کا فقدان

حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی گزشتہ 70 سال سے کشمیر سے متعلق بھارتی آئین میں موجود ان تمام حفاظتی دیواروں کو گرانا چاہتی ہے جو جموں کشمیرکو دیگر بھارتی ریاستوں سے منفرد بناتی ہیں۔۔۔۔ بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دیول گزشتہ ماہ کے آخری ہفتے سری نگر کا خفیہ دورہ کرتے ہیں اور پولیس ، فوج اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں سے اہم میٹنگ کرتے ہیں جس میں انہیں کسی بھی غیر متوقع صورتحال پیش آنے کی چنوتی دی جاتی ہے ، خوراک اور ضروری وسائل ذخیرہ کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے واپس دہلی نکل جاتے ہیں، اجیت دیوول کے خفیہ دورے کے چند روز بعد بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں مزید دس ہزار فوجی ۔۔۔۔۔۔۔پاک فو ج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل آصف غفور کے مطابق یہ سب بھارت کی بوکھلاہٹ کا ثبوت ہے ۔۔۔کیا بھارت واقعی بوکھلاہٹ کا شکار ہے یا یہ سب کسی طے شدہ منصوبے کے تحت کیا جارہا ہے ؟

آپ ایک ماہ پیچھے چلے جائیں ،جولائی کے آخری ہفتے میں وزیراعظم عمران خان امریکہ کا دورہ کرتے ہیں ، امریکی صدر سے ملاقات ہوتی ہے ،پہلی ملاقات میں ہی ڈونلڈ ٹرمپ بھارت پر کشمیر بم گرا دیتے ہیں، بھارتی ایوانوں میں ہلچل مچ جاتی ہے ، مودی صفائیاں مانگنے سے صفائیاں دینے کی پوزیشن میں آجا تے ہیں، چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر باجوہ کو پنٹا گون بلایا جاتا ہے ، 21توپوں کی سلامی دی جاتی ہے تو اس سلامی کی گونج بھارتی بیرکوں میں سنائی دیتی ہے ،افغان امن عمل میں تعاون مانگنے پر افغانستان کے مقتدر ایوان بھی ماتم کدہ بن جاتے ہیں اور دو دہائیوں کی رفاقت کی بنا ءپرامریکی صدر سے وضاحت طلب کرنے لگتے ہیں، یہ سب کچھ تین روز ہ دورے کے دوران ہوتا ہے ۔وہ آیا ۔۔۔اس نے دیکھا اور فتح کر لیا ۔۔کیا یہ سب کچھ اتنا ہی سادہ ہے جتنا دکھائی دیتا ہے ؟

کلبھوشن یادیوں کیس پر عالمی عدالت انصاف بھارت کے مکروہ اور پراگندہ چہرے سے نقاب اتارتی ہے تووزیراعظم عمران خان اپنے کامیاب دورہ امریکہ کی قینچی سے بھارتی پنڈتوں ، حکمرانوں ، صحافیوں اور بھارتی افوا ج کی دھوتیاں اور پاجامے ڈھیلے کر نے کے بعد واپس وطن آجاتے ہیں۔وطن واپسی کے چند دن بعدامریکی صدر کی طرف سے کشمیر تنازع کے حل کے لیے ثالثی کی دوبارہ پیش کش کر دی جاتی ہے، پہلے ہی پاجامے ڈھیلے تھے اوپر سے دوبارہ” ثالثی کے دست“ آگھیرتے ہیں۔بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دیول گزشتہ ماہ کے آخری ہفتے سری نگر کا خفیہ دورہ کرتے ہیں اور پولیس ، فوج اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں سے اہم میٹنگ کرتے ہیں جس میں انہیں کسی بھی غیر متوقع صورتحال پیش آنے کی چنوتی دی جاتی ہے ، خوراک اور ضروری وسائل ذخیرہ کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے واپس دہلی نکل جاتے ہیں، اجیت دیوول کے خفیہ دورے کے چند روز بعد بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں مزید دس ہزار فوجی تعینات کر دیئے جاتے ہیں،جموں و کشمیر پولیس سرینگرکے پانچوں سپریٹنڈنٹ آف پولیس سے اپنے اپنے علاقوں کی مساجد کے اماموں اور ان کی انتظامیہ کے ارکان کی تفصیلات مانگ لی جاتی ہیں۔ریلوے پروٹیکشن فورس کے ایک ڈویڑنل کمشنر کی جانب سے مقبوضہ وادی میں ممکنہ ہنگامی حالات کے بارے میں الرٹ جاری کیا جاتا ہے جس میں پولیس اہلکاروں کو کم ازکم چارمہینے کے لیے غلہ اور ایک ہفتے کے لیے پانی جمع کرنے کے احکامات جاری کیے جاتے ہیں۔دو روزبعد ایک سیکورٹی الرٹ جاری کر دیا جاتا ہے اورمقبوضہ کشمیر میں تمام سیاحوں اور امرناتھ یاترا پرآئے ہندو ﺅں اور طلباءکو کشمیر چھوڑنے کی ہدایات جاری کر دی جاتی ہیں،اگلے ہی روزلائن آف کنٹرول ایک مرتبہ پھر آﺅٹ کنٹرول ہو جاتی ہے ، بھارتی فوج کی طرف سے پاکستان کی شہری آبادی کو کلسٹر بموں سے نشانہ بنایا جاتا ہے جس میں تین شہری شہید اور کئی زخمی ہو جاتے ہیں،عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی کی یہ خبر عالمی میڈیا میں کہیں بھی جگہ نہیں بنا پاتی ،جبکہ پاک فو ج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل آصف غفور کے مطابق یہ سب بھارت کی بوکھلاہٹ کا ثبوت ہے ۔۔۔کیا بھارت واقعی بوکھلاہٹ کا شکار ہے یا یہ سب کسی طے شدہ منصوبے کے تحت کیا جارہا ہے ؟

بھارت کشمیرکے تنازع کو فلسطین کی طرز پر حل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے ۔بھارتی آئین کے آرٹیکل 35اے اور 370کے تحت مقبوضہ کشمیر کو دیگر ریاستوں سے ممتاز حیثیت حاصل ہے ۔ اس قانون کی رو سے جموں کشمیر کی حدود سے باہر کسی بھی علاقے کا شہری ریاست میں غیرمنقولہ جائیداد کا مالک نہیں بن سکتا، یہاں نوکری حاصل نہیں کرسکتا اور نہ کشمیر میں آزادانہ طور سرمایہ کاری کرسکتا ہے۔حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی گزشتہ 70 سال سے کشمیر سے متعلق بھارتی آئین میں موجود ان تمام حفاظتی دیواروں کو گرانا چاہتی ہے جو جموں کشمیرکو دیگر بھارتی ریاستوں سے منفرد بناتی ہیں اور اس دیوارکو گرانے کے لیے بھارت کو اپنے آئین میں ترمیم کرنی پڑے گی جس کے لیے اسمبلی میں دو تہائی کی اکثریت درکار ہوتی ہے جو مودی حکومت کو حالیہ انتخابات میں مل چکی ہے ۔جموں کشمیر کا اپنا آئین ہے اور ہندوستانی آئین کی کوئی شق یہاں نافذ نہیں ہوسکتی جب تک کہ بھارت کے آئینی مسودہ میں ترمیم نہ کر لی جائے جس کی تیاریاں مکمل کی جا چکی ہیں۔ وادی کی بھارت نوازجماعتوں کو بھی خدشہ ہے کہ اس خصوصی دفعہ کو ختم کر کے مرکزی حکومت کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کو ختم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور اگر ایسا ہوجاتا ہے تو مقبوضہ وادی کی امتیازی حیثیت ختم ہوجاتی ہے اور بھارت کے دیگر علاقوں سے ہندو آباد کاری کو بڑھایا جا سکتا ہے جس کے بعد متوقع طور پربھارت اقوام متحدہ کی قرارداد پر عملدرآمد کرتے ہوئے استصواب رائے کا حق بحال کر دے گا جس کا نتیجہ منصوبہ کے مطابق بھارت سے الحاق کی صورت میں سامنے آئے گا یوں کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ بنانے کا خواب پایہ تکمیل پر پہنچ سکے گا۔اگر یہ دفعہ آئین سے خارج کر دی جاتی ہے تو کشمیر کو فلسطین بننے سے کوئی نہیں روک سکتا ، بڑی بڑی صنعتی کمپنیاں یہاں مہنگے داموں زمینیں خریدیں گی، لوگ یہاں آباد ہوجائیں گے، اور کشمیر کا مسلم اکثریتی کردار اقلیت میں بدل دیا جائے گا۔اطلاعات تو یہ بھی موصول ہو رہی ہیں کہ بھارتی حکومت نے ہندو اکثریت والے جموں خطے کو علیحدہ ریاست جبکہ کشمیر اور لداخ کو مرکز کے زیرانتظام خطہ قرار دینے کا فیصلہ کیا ہے ۔بھارتی آئین کی دفعہ 3 کے مطابق بھارتی حکومت کسی بھی ریاست کی جغرافیائی حدود یا نام مقامی قانون ساز اسمبلی کی رضامندی کے بغیر تبدیل نہیں کرسکتی لیکن کشمیر واحد ریاست ہے جہاں صدارتی راج کے دوران انڈین صدر کو ریاست میں قانون سازی کے اختیارات ہیں۔

بھارتی آئین سے آرٹیکل 35اے جیسی دفعات کا خاتمہ ، اجیت دیوول کا خفیہ دورہ کشمیر ، خوراک ودیگر وسائل ذخیرہ کرنے کی ہدایات ،مزید دس ہزار فوجی اہلکاروں کی تعیناتی ، طلبا، سیاحوں اور یاتریوں کا انخلاءاور کنٹرول لائن پر بھارتی دراندازی کے واقعات کو جوڑا جائے تو بھارتی عزائم واضح ہوجاتے ہیں لیکن بھارت کو یہ تسلیم کرلینا چاہیے کہ مقبوضہ کشمیر پرامن لہروں والا دریا ہےجسے بھارت نے ریاستی جبرو تشدد کے بند تعمیر کرکے سرکش بنا دیا ہے اور جب دریا بپھر جاتے ہیں تو ان کے آگے کوئی بندنہیں ٹک پاتا ، نہ کوئی 35اے، نہ پیلٹ گنز اور نہ کوئی کلسٹر بم ۔

فی الواقع بھارت کو اپنے اندورنی معاملات کی طرف توجہ دینا ہوگی ،جہاں کی غربت و افلاس کی دنیا آج بھی مثالیں پیش کرتی ہے ۔یہ دنیا کا وہ ملک ہے جو آ ج بھی اپنے شہریوں کے لیے ٹوائلٹ کی ضروریات پوری نہیں کر پایا۔برطانیہ کی غیر سرکاری تنظیم واٹر ایڈ کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں 157 ملین افراد کو محفوظ اور گھریلو ٹوائلٹس میسر نہیں ، ایک اور رپورٹ کے مطابق 30کروڑ خواتین کو سرے سے رفع حاجت کے لیے جگہ دستیاب نہیں۔2017ءمیں بھارتی ریاست راجھستان کی ایک عدالت نے ایک عورت کو اپنے خاوند سے اس بنیاد پر طلاق لینے کی اجازت دے دی کہ خاوند کے گھر میں ٹوائلٹ نہیں تھا ۔بھارت دنیا کا آٹھواں ملک ہے جہاں لوگ رہائش کے لیے چھت سے محروم ہیں، گلوبل انڈیکس کی رپورٹ کے مطابق یہ دنیا کا چوتھا ایسا ملک جہاں کی عوام غلاموں سے بھی بدتر زندگیاں بسر کرتے ہیں،"Stockholm International peace Research"کی رپورٹ کے مطابق بھارت 69ارب ڈالر سالانہ اپنی فوج کی ضروریات پوری کرنے پر خرچ کرتا ہے اور یوں اپنے دفاع پر خرچ کرنے والا دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے لیکن عوام کا معیار زندگی بہتر بنانے پر کوئی توجہ نہیں ۔تاریخ گواہ ہے جب بھی پاکستان نے عالمی سطح پر کشمیر کا معاملہ اٹھایا بھارت فوراًکنٹرول لائن پر آن لائن ہو گیا اور اب کی بار ایک دفعہ پھر کشمیر ایشو پر پاکستانی بیانئے کو ملنے والی پذیرائی کی بدولت بھارت دست و اسہال کا شکار ہوگیا ہے ۔بھارت کو چاہیے کہ کشمیر پر ہٹ دھرمی چھوڑے اور گھر پر توجہ دے، اسلحہ کی بجائے مزید ٹوائلٹس بنانے پر توجہ دے کیونکہ اب یہ دست رکنے والے نہیں۔ کشمیر کا مسئلہ تو کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق حل ہو کر ہی رہے گا ۔
 

Sheraz Khokhar
About the Author: Sheraz Khokhar Read More Articles by Sheraz Khokhar: 23 Articles with 14450 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.