سینٹ الیکشن میں اپوزیشن کی جانب سے چیئرمین سینٹ
صادق سنجرانی کے خلاف پیش ہونے والی تحریک عدم اعتماد بری طرح ناکام ہوچکی
ہے۔ بلکل اسی طرح اپوزیشن بھی اپنے ہی پھیلائے گئے جال میں بری طرح پھنس
چکی ہے جسکی بڑی وجہ اپوزیشن کے اپنے ہی لوگ ہیں جنھوں نے ملک میں سینٹ کی
تاریخ میں پہلی بار پیش ہونے والی قرارداد کی مخالفت میں ووٹ دے دیا ہے۔ اب
دو طرح کی باتیں ہورہی ہیں۔ حکومت کے مطابق سینٹرز نے اپنے ضمیر کی آواز پر
لبیک کہتے ہوئے تحریک عدم اعتماد کی مخالفت میں ووٹ دے دیا ہے جب کہ
اپوزیشن کے مطابق ان کے اپنے لوگوں نے اخلاقیات کی دھجیاں اڑاتے ہوئے اپنی
ہی پیش کی جانے والے قرارداد کی مخالفت کر دی ہے۔ اب دیکھا جائے تو اس طرح
کے معاملات پہلے بھی ہوتے آئے ہیں لیکن اس بار تو چودہ لوگوں نے اپنے ضمیر
کی آواز پر لبیک کہا ہے جو کہ ایک نازیبا بات ہے کیوں کہ ان چودہ لوگوں نے
اخلاقیات،جمہوریت اور سیاست کی دھجیاں اڑائی ہیں۔ اب حکومت اور اپوزیشن کا
فرض بنتا ہے کہ وہ ان لوگوں کی پہچان کرے کہ وہ کون لوگ ہیں جو جمہوریت کو
سہی معنوں میں چلنے نہیں دے رہے اور کیا ان کے ضمیر اتنے مردہ ہوچکے ہیں جو
دین اسلام کے اصولوں پر بھی سمجھوتہ کررہے ہیں۔
اگر اس سارے تناظر میں دیکھا جائے تو عام عوام کا اس میں قصور کیا ہے کہ وہ
ہر بار انہی سیاسی لوگوں کے نشانے پر رہتی ہے۔ عام بندہ اگر کسی سیاسی جلسے
میں شریک ہوجائے یا اگر کسی سیاسی اکٹھ میں شریک ہوجائے تو اسے کہا جاتا ہے
کہ یہ تو بریانی کی پلیٹ پر بک گیا ہے یا کہا جاتا ہے کہ یہ تو قیمے والے
نان پر بک گیا ہے لیکن جب ان سیاسی لوگوں کی اپنی باری آتی ہے تو وہ سب
جائز ہوجاتا ہے۔ دو ہزار پندرہ میں جب سینٹ الیکشن میں تحریک انصاف کے ساتھ
اسی طرح کا کچھ ہوا تھا تب تو عمران خان صاحب نے کہا تھا کہ سیکرٹ وٹنگ
سینٹ کے منہ پر طماچہ ہے ۔ اب عمران خان صاحب سے ہمیں یہ پوچھنا ہے کہ اب
کی بار یہ طماچہ کس کے منہ ہے۔ کیا تین سال پہلے والا عمران خان اب بدل چکا
ہے یا اسے حالات کے ساتھ بدلنے کا فن آگیا ہے اب عمران خان صاحب کا یہ فرض
بنتا ہے اس مسئلے کو اپنی پارٹی کا مسئلہ سمجھے بغیر اپنے ملک کا مسئلہ
سمجھتے ہوئے ٹھیک اسی طرح کا فیصلہ لیں جو انھوں نے اپنی پارٹی کے ان بیس
ایم پی ایز کے ساتھ کیا تھا ۔ جو پوائنٹ آؤٹ ہونے کے بعد اپنی سیاسی اور
اخلاقی حیثیت بلکل کھوچکے ہیں اور اگلے الیکشن میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔
پہلے تو اپوزیشن کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اپنی صف میں کھڑے اپنے اور ملک کے
دشمنوں کی پہچان کریں اور لوگوں کے سامنے لے کر آئیں کے یہ ہیں وہ چہرے جو
ہر بار ریاست کے ساتھ مذاق کرتے ہیں اور پھر عمران خان صاحب کا بھی یہ فرض
بنتا ہے کہ وہ ان لوگوں کو پکڑیں جو دوسرے لوگوں کے ضمیروں کا سودا کرتے
ہیں۔ کیوں کہ اگر آپ ریاست مدینہ کا تصور لے کر چل رہے ہیں تو آپ کو ریاست
مدینہ کا بنیادی اصول اور قانون اپنانا ہوگا جو کہتا ہے کہ رشوت لینے اور
دینے والا دونوں جہنمی ہیں۔
بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر اپنے ضمیر کا سودا کرنا ٹھیک ہے تو پھر عام
عوام کو کیوں ہم ضمیر فروش کہتے ہیں۔ ہمارے تو اپنے ضمیر مردہ ہوچکے ہیں۔
اگر آپ لوگ کروڑوں میں بک سکتے ہیں تو عام عوام، یعنی غریب عوام اگر ایک
بریانی کی پلیٹ پر یا قیمے والے نان پر اپنے ضمیر کا فیصلہ کرتی ہے تو وہ
غلط ہوجاتی ہے۔ اگر آپ کروڑوں میں بک کر اپنے ضمیر کا سودا کرتے ہیں تو آپ
اپنی جگہ ٹھیک ہوتے ہیں لیکن اب کی بار تو ہم آپ کو بھی ضمیر فروش کہیں گے
کیوں کہ آپ نے کروڑوں روپوں میں صرف اپنا ضمیر نہیں بیچا بلکہ آپ نے چند
پیسوں کے عوض ملک کی سیاست کو بیچا بلکہ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ آپ نے
اپنے ملک کے آئین تک کو بیچ دیا اور مزید آپ سے یہی توقع کی جاسکتی ہے کہ
آپ چند پیسوں کے عوض اپنے ملک کو بیچنے میں دیر نہیں کریں گے۔ اﷲ کرے یہ
لوگ عوام کے سامنے آجائیں اور عام لوگوں کو اس بات کی سمجھ آجائے کہ جن
چہروں کو آپ ووٹ دے کر جتواتے ہیں اور ناچ ناچ کر انکی جیت کا جشن مناتے
ہیں وہ اپنے ملک کو بیچنے میں ذرہ دیر بھی نہیں لگائیں گے۔ میں تو عمران
خان صاحب سمیت اپوزیشن کی تمام جماعتوں کے آگے یہ درخواست کروں گا کہ
مہربانی فرما کر آپ نا صرف ان لوگوں کو دنیا کے سامنے لائیں جو اپنے ضمیر
کو چند روپوں میں بیچ دیتے ہیں بلکہ ان لوگوں کو بھی سامنے لائیں جو دوسرے
لوگوں کے ضمیروں کا سودا کرتے ہیں۔ مگر بات پھر وہی آجاتی ہے کہ اس مسئلے
میں ہم دنیا بھر کے سامنے شرمندہ ہوئے ہیں کہ سب کے سامنے چونسٹھ لوگ
قرارداد کی حمایت میں کھڑے ہوئے اور جب سیکرٹ ووٹنگ کی باری آئی تو ان میں
سے چودہ ووٹ کم ہو کر صرف پچاس ہوگئے۔ میری نظر میں تو بریانی کی پلیٹ
اورقیمے والے نان پر اپنے ضمیر کو بیچنے والے لوگ ٹھیک لگتے ہیں جبکہ میں
یہ بات کرتے ہوئے ذرہ بھی شرم محسوس نہیں کروں گا ہمارے ایوانوں میں بھی
بکاؤ مال بیٹھا ہوا ہے جو چند روپوں کے عوض اپنے ملک کا سودا کرسکتاہے۔
|