آسام میں ۱۰۲ سالہ محمد انور علی نے اپنی ساری زندگی ضلع
کامروپ کے ایک گاوں میں گزار دی۔ ایک دن اچانک انہیں اپنے اہل خانہ کے ساتھ
سرکار نے سبساگر جورہاٹ میں حاضر ہونے کا حکم دیا۔ وہاں جاکر انہیں اپنے
ہندوستانی ہونے کا ثبوت دینا تھا ۔ کسی ۱۰۲ سالہ شخص کو صرف ایک دن کا وقت
دے کر اپنے گھر سے۵۰۰ کلومیٹر دور ایسے علاقہ میں بلایا جانا کہ جس کا نام
تک اس نے نہ سنا ہو کس قدر سفاکی ہے؟انسان دوسروں کا احترام مختلف وجوہات
سے کرتا ہے مثلاً رشتے داری ، زہد و تقویٰ، علم و فضل ، نیکی و خداترسی ،
خدمتِ خلق اور عمر ۔ کسی بس یا ٹرین جب کوئی اجنبی بزرگ داخل ہوتا ہے تو
لوگ اس کو جگہ دیتےہیں یا کم ازکم جگہ بنادیتے ہیں لیکن قوم پرستی کا زہر
انسانوں کو حیوان بنا دیتا ہے۔ اس طرح کے واقعات کو پڑھنے کے بعد فوراً یہ
نتیجہ نکال لیا جاتا ہے کہ یہ سب سنگھ کے فسطائی نظریات اور بی جے پی کی
مسلم دشمنی کے سبب ہورہا ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ قوم پرستی کے نشے میں انسان
اپنا مذہب بھی بھول جاتا ہے۔
آسام میں کچھار ضلع کے ۱۰۲ سالہ چندر دھر داس کا کہنا ہے کہ وہ اس عمر میں
کسی کی مدد کے بغیر نہ کھانا کھا سکتے ہیں اورنہ بیت الخلاء جاسکتے ہیں
لیکن جیل کے اندران کی مدد کے لیے کوئی نہیں تھا۔ میں امید کرتا ہوں کہ
دوبارہ وہاں بھیجے جانے سے قبل مجھے موت آجائے۔ اس بزرگ کو تین ماہ تک جیل
کے اندر موجود حراستی کیمپ میں رکھنے کی وجہ صرف یہ تھی انہیں مشکوک غیر
ملکی سمجھ لیا گیا تھا۔ اب انہیں فارن ٹریبونل میں پیش ہوکر اپنی شہریت
ثابت کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ چکردھر ۱۹۵۰ میں بنگلا دیش سے تریپورہ کے
راستے ہندوستان میں داخل ہوکر بس گئے۔ وہاں کے قبائلیوں نے گھر جلا دیا تو
بجان بچا کر آسام کے سلچر میں آ بسے ۔ عدالت کے نوٹس پر پہلی بار چونکہ
وہ عدالت نہیں گئے تو ان کوغیرملکی ٹھہرا کر گرفتارکرلیا گیا۔ ۳ماہ جیل
گزارنے کے بعد ضمانت ملی لیکن شہریت نہیں۔ اس کے بعد سے عدالت کا چکر پہ
چکر چل رہا ہے ۔ ان کی ۸۰ سالہ اہلیہ کو بھی اپنی شہریت ثابت کرنی ہے۔ بیٹی
نیوتی رائے کو خوف ہے یہ بار بار ۸۰ کلومیٹر کا سفر کہیں والد کی جان ہلاک
نہ کردے اس لیے کہ ہر بار واپس آنے کے بعد ان کی حالت غیر ہوجاتی ہے۔ یہ
سب اس ملک میں ہورہا ہے جس کی بابت رگھوپتی سہائے فراق گرکھپوری نے کہا تھا
؎
سر زمین ہند پر اقوام عالم کے فراق
قافلے بستے گئے ہندوستاں بنتا گیا
فراق گورکھپوری کی بات صد فیصد درست ہے ۔یہ صرف ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ
دنیا بھر میں ہوتا تھا کہ کرۂ ارض کے لوگ ایک حصے سے نکل کر دوسرے حصے میں
جاکر بس جاتے تھے ۔ وہاں کے مقامی لوگوں کے ساتھ گھل مل جاتے تھے ۔ تہذیبوں
و زبانوں کالین دین ہوتا ۔ ایک دوسرے کے مذاہب کو جان کر اس کو تبدیلی بھی
کرتے ۔ یوروپی استعماریت نے اپنے پیر پھیلانے شروع کیے تو صورتحال بدلنے
لگی ۔ یوروپین لوگ دنیا کے مختلف خطوں میں رہنے اور بسنے کے لیے نہیں بلکہ
مقامی لوگوں کو اپنا غلام بنانے کے لیے اور وہاں کے قدرتی وسائل کو اپنے
قبضے میں لینے کے لیے جانے لگے ۔ مغربی سامراج نہ تو عوام کو اپنا سمجھتا
تھا اور نہ لوگ اپنائیت محسوس کرتے تھے۔ ان کی آمد سے ایسے لوگوں کا فائدہ
ضرورہوا جن کو اپنوں نےغلام بنارکھا تھامثلاً ہندوستان کے دلت کہ جنہیں
براہمنوں نےدبا رکھا تھا ۔ براہمن بھی جب غلام بنا لیے گئے تو وہ دلتوں کے
ہم پلہ ہوگئے اور شودروں پر لگی پابندیاں کم ہوگئیں۔ اس کے باوجود بیرونی
حکمرانوں کے خلاف بجا طور پر بغاوت ہوئی ۔ آزادی کی تحریک کامیاب تو ہوئی
لیکن اس کے بعد قومیت کی بنیاد پر جو نیشن اسٹیٹ بنی اس کا عملی مظہر آسام
میں دیکھنے کو مل رہا ہے ۔ علامہ اقبال نے سچ کہا تھا کہ ‘اقوام میں مخلوق
خدا بٹتی ہے اس سے’؎
اقوام جہاں میں ہے رقابت تو اسی سے
تسخیر مقصوردِ تجارت تو اسی سے
خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے
کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے
یوروپ چونکہ نسل و زبان کی بنیاد پر مختلف چھوٹے چھوٹے ممالک میں منقسم تھا
اس لیے وہاں نیشن اسٹیٹ کے قیام میں کوئی دقت نہیں آئی لیکن آزادی کے بعد
ہندوستان کے سامنے یہ مسئلہ درپیش تھا کہ اس وسیع و عریض ملک کے لوگوں میں
ذات پات کی تفریق کے علاوہ رنگ و نسل اور زبان و تہذیب کا بھی بہت بڑا فرق
موجود تھا ۔ اس لیے ایک دفاقی نظام حکومت کی بناء ڈالی گئی تاکہ علاقائی
تشخص کو محفوظ رکھا جاسکے ۔ یہی وجہ ہے کہ زبان کی بنیاد پر ریاستوں کی
تشکیل جدید کا کام کیا گیا۔ انگریز بڑے شہروں سے راج کرتے تھے اس لیے جب ان
شہروں کو مختلف صوبوں کے اندر ضم کرنے کی باری آئی تو مسائل پیدا ہوگئے۔
مثلاً مدراس جو اب چنئی کہلاتا ہے آندھرا پردیش کی سرحد پر تھا مگر اس کو
تمل ناڈو کی راجدھانی بنایا گیا۔ کولکاتہ پر بہاری اور اتربھارتی باشندوں
کا اسی طرح غلبہ تھا جیسے دہلی پر پنجابیوں کا تھالیکن ایک قومی دارالخلافہ
اور دوسرے کو مغربی بنگال کا صدر مقام قراردیا گیا۔ کرناٹک سے لے کر گجرات
تک پھیلی ہوئی ساحلی ریاست بامبے اسٹیٹ کی راجدھانی شہر ممبئی تھا۔ اس پر
گجراتی غالب تھے مگر وہ مہاراشٹر کی راجدھانی بنا ۔ یہی حال گوہاٹی کا تھا
جہاں سرکاری دفاتر میں خاص طور بنگالی چھائے ہوئے تھے مگر اس کو آسام کا
صدر مقام بنانا پڑا۔
تمل ناڈو کے لوگوں نے سب سے پہلےاپنے علاقائی تشخص کو خطرہ محسوس کیا ۔
وہاں پر ایک دراوڈ کزگم نام کی ایک تحریک اٹھی ۔ اس کے نام میں دراوڈ نسل
کا تذکرہ اور اس کا تمل زبان میں ہونا پوری حقیقت بیان کردیتا ہے۔ آگے چل
کر وہ سیاسی جماعت بنی اور اب کئی حصوں میں منقسم ہے لیکن صوبائی حکومت پر
انہیں کا قبضہ ہے ۔ کانگریس یا بی جے پی کے لیے وہاں سرکار بنانا فی الحال
ناممکن ہے۔ اس طرح کی تحریکیں دیگر علاقوں میں بھی اٹھیں مثلا ً کشمیر کی
نیشنل کانفرنس، پنجاب کا اکالی دل ، آندھرا پردیش کی تیلگو دیشم پارٹی اور
مہاراشٹر کی شیوسینا ۔ ان سب کا مقصد علاقائی تہذیب و زبان کا تقدس
اورمقامی لوگوں کے حقوق کا تحفظ تھا۔ ان لوگوں نے اپنی توسیع و ترویج کے
لیے کسی ایک طبقہ یا تہذیب کی مخالفت کی مثلاً تمل ناڈو میں ڈی ایم کے نے
براہمنی تہذیب کو نشانہ بنایا اور مہاراشٹر میں شیوسینا نے تملوں کے خلاف
علم بلند کیا۔ اس وقت مراٹھی عوام ملازمت میں دلچسپی رکھتے تھے اور انہیں
ملازم پیشہ تملوں بلکہ جنوبی ہند کے لوگوں سے مسابقت کرنی پڑتی تھی۔
آسام میں بھی یہی معاملہ پیش آیا جہاں مقامی طلباء کی تنظیم آل آسام
اسٹوڈنٹس یونین(آسو) نے بنگالیوں کے خلاف تحریک چلائی اس لیے کہ انہوں نے
محسوس کیا حکومت کے سارے عہدوں پر وہ فائز ہیں ۔ شیوسینا اور آسو ابتداء
میں خالص علاقائی تحریکیں تھیں لیکن بعد میں ان کے اندر فرقہ واریت آگئی ۔
ممبئی کےفرقہ وارانہ فسادات سے فائدہ اٹھا کر شیوسینا نے اپنے اثر و رسوخ
میں اضافہ کیا اور بی جے پی کے ساتھ الحاق کرنے کے بعد ہندوتوا کا چولہ
اوڑھ لیا۔ آسو کے ساتھ بھی یہ ہوا کہ جو تحریک تمام بنگالیوں کے خلاف اٹھی
تھی اسے بنگلا دیشی تارکین وطن اور ان میں سے بھی مسلمانوں کی جانب موڑ دیا
گیا۔ اس طرح نیلی کے قتل عام میں تقریباً ۲ ہزار مسلمان شہید کردیئے گئے
اور اس کے بعد مرکزکی راجیو گاندھی حکومت آسو کے ساتھ معاہدہ کرنے پر
مجبور ہوگئی ۔ اس طرح قوم پرستی کی خونیں تاریخ کا ایک اور باب تمام ہوا۔
|