آل آسام اسٹوڈنٹس یونین اور حکومت ہند کے درمیان 1985
میں جومعاہدہ ہوا اس کی روُ سے 25 مارچ 1971 کے بعد ریاست میں آنے والے
لوگوں کو غیر ملکی قرار دیاگیا اور تفتیش کے بعد انہیں واپس بھیجنے کا
فیصلہ کیا گیا۔ اس معاہدے کی ایک اضافی شرط یہ تھی کہ 1966 سے 1971 کے بیچ
جن لوگوں کے نام رائےدہندگان کی فہرست میں شامل کیے گئے ہوں، ان کو عارضی
طور پر آئندہ 10 سالوں تک کے لیے ووٹ کے حق سے محروم کردیا جائے۔ اس کے
معنیٰ ظاہر ہے کہ دس سال بعد دوبارہ داخل کرلیا جائے ۔ اس معاہدے پر اگر
1985 کے بعد پانچ سالوں میں یعنی 1990 تک بھی عملدرآمد ہوگیا ہوتا تو وہ
تمام لوگ جن کے نام ووٹر لسٹ سے خارج کیے جاتے وہ ۱۹ سال قبل رائے دہندگان
کی فہرست میں شامل کرلیے جاتے اور بی جے پی کو سیاسی فائدہ اٹھانے کا موقع
نہیں ملتا لیکن کانگریس تو دور آسام گن پریشد میں بھی اس کی جرأت نہیں
کرسکی ۔
آسام معاہدے کے بعد آسو نے اے جی پی نام کی علاقائی سیاسی جماعت بنائی
اور انتخاب میں کامیاب ہوگئی ۔ ہندوستان کو پرفل کمار مہنتا کی شکل میں سب
سے کم عمروزیراعلیٰ ملا جو یونیورسٹی کیمپس سےسیدھے صوبائی اقتدار پر فائز
ہوگیا ۔ وہ جنتا دل کا زمانہ تھا اور تیسرے محاذ کی حکومت میں اے جے پی
سرگرم عمل تھی۔ اس وقت آسام میں بی جے پی کو کوئی نہیں جانتا تھا لیکن
جنتا پریوار کی ناکامی کے بعد کانگریس کو شکست دینے کے لیے اے جے پی نے بی
جے پی سے قربت اختیار کی ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اے جی پی کی مدد سے ہی بی جے
پی نے آسام میں اپنا اثر و رسوخ بڑھایا مگر آگے چل کر اس کے بہت سارے
رہنماوں کو اپنی جماعت میں شامل کرکے حکومت بنالی ۔ آسام معاہدے پر خاطر
خواہ عملدرآمد نہیں ہونے کے سبب آسو کے ایک گروہ نے مسلح علٰحیدگی پسند
تحریک یونائیٹیڈ لبریشن فرنٹ آف آسام (الفا) تک بنا ڈالی۔ یہ ستم ظریفی
ہے کہ آسو سے نکل کر آنے والے پرفل کمار مہنتا پر اُلفا کے رہنماوں کے
انکاونٹر کا سنگین الزام لگا۔ مہنتا نے اس کا انکار کیا مگر اُلفا کے خلاف
فوج کی کارروائی کو حق بجانب ٹھہرایا۔
2013 میں سپریم کورٹ کی نگرانی کے اندر 1951 میں تیار کردہ قومی شہری رجسٹر
(این آر سی) میں نئے نام جوڑنے کا کام شروع ہوا اور صرف ان لوگوں کا نام
اس میں شامل کیے گئے جو 24 مارچ 1971 تک ہندوستان کے کسی بھی حصے میں موجود
رہنے کا ثبوت دینے میں کامیاب ہوگئے۔ جولائی ۲۰۱۸ میں این آر سی کا حتمی
مسودہ سامنے آیا تو یہ انکشاف ہوا کہ 40 لاکھ لوگ اپنے ہندوستانی ہونے کا
ثبوت فراہم کرنے سے قاصر رہے ہیں ۔ ایسے “غیر ملکیوں” کے لئے آسام میں ۶
حراستی کیمپ بنائے گئے ۔عدالتِ عظمیٰ نے چھوٹنے والوں کو دوبارہ کاغذات پیش
کرنے کا موقع دیا کیونکہ ان میں اکثر یت کےپاس دستاویز نہیں یا ناقص تھے ۔
اس دوران ملی تنظیموں نے بڑے پیمانے پر کام کیا ۔ اے آئی یو ڈی ایف، اے پی
سی آر اور پاپولر فرنٹ جیسی تنظیموں نے بڑی تعداد میں رضاکار روانہ کرکے
مقامی لوگوں کو کاغذات مہیا کرنے میں تعاون کیا اور ان کے شہریت کا حق بحال
کرایا۔
ملت کا یہ بہت بڑا کارنامہ ہے جس کے سبب مسلمانوں کی بڑی اکثریت نے راحت کا
سانس لیا لیکن غیر مسلم تنظیمیں اس کام کو خوش اسلوبی کے ساتھ نہیں کرسکیں
۔ یہ کوئی خوش فہمی والی بات نہیں بلکہ حال میں گوہاٹی کے اندر سنگھ کی
طلباء تنظیم اے بی وی پی اور ہندو جاگرن منچ کے مظاہرےاور تجدیدِ جدید
(ریویری فکیشن) کا مطالبہ اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔ این آر سی
کوآرڈینیٹر کے دفتر پر مظاہرہ کرتے ہوئےاے بی وی پی نے مطالبہ کیا کہ حتمی
فہرست کی اشاعت سے پہلے ہر درخواست کی دوبارہ تصدیق یعنی ری ویرفکیشن کی
جانی چاہیے۔ان لوگوں نے این آر سی کوآرڈینیٹر ہجیلا کے خلاف ‘ پرتیک ہجیلا
ہاےہاے ’ کے نعرے لگائے۔ اے بی وی پی کے صوبائی جوائنٹ سکریٹری دیباشیش
رائے نے جانکاری دی کہ بہت سے اصل باشندوں کے نام این آر سی میں نہیں آئے
ہیں اور ان کے بجائے غیر قانونی مہاجروں کے نام اس میں جڑ گئے ہیں ۔ سوال
یہ ہے کہ اگراصل باشندوں کے نام کیوں نہیں آئے تو ان کو شامل کرنے کے لیے
اے بی وی پی نے کیا کوشش کی؟
اے بی وی پی کے علاوہ ہندو جاگرن منچ نے بھی ریاست کے 22 ضلعوں میں مظاہرہ
کرتے ہوئے این آرسی فہرست کو شائع کرنے کی تاریخ آگے بڑھانے کا مطالبہ کیا
ہےتاکہ کسی بھی ‘ غیر قانونی مہاجر ‘ کا نام اس فہرست میں شامل نہ ہو سکے۔
اس کو بھی وہی اندیشہ ستا رہا ہے کہ فائنل این آر سی کے اندر بڑی تعداد میں
ہندوؤں کے نام نہیں ہوں گے ۔ ہندو منچ کے صدر مرنال کمار لسکر کے مطابق ،
‘ جو این آر سی فہرست 31 اگست کو شائع ہونے جا رہی ہے، اس میں کئی جائز
ہندوستانی شہریوں کے نام چھوٹیںگے۔ اگر فہرست اپنے موجودہ صورت میں شائع
ہوتی ہے، تو ہم اس کے خلاف مہم چھیڑیںگے۔ کیونکہ لیگیسی (وراثت سے متعلق)
ڈیٹا کے غلط استعمال کے واقعات سامنے آئے ہیں، اس لئے ری ویری فکیشن بہت
ضروری ہے ‘۔بی جے پی کی صوبائی حکومت کے وزیر چندرموہن پٹواری نے این آر سی
کی ضلع وار تفصیل پیش کرتے ہوئے ری ویری فکیشن پر زور دیا ہے گویا سارا
سنگھ پریوار اس فہرست کے جاری ہونے سے بوکھلا گیا ہے۔ کل تک جو لوگ این آر
سی پر بغلیں بجاتے تھے آج ماتم کررہے ہیں ۔ اس صورتحال پر پر مومن خاں
مومن کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
الجھا ہے پاؤں یار کا زلفِ دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیّاد آگیا
سیاسی مفاد پرستی ہی دراصل بی جے پی کے یار کی زلف دراز ہے۔ اس لیے صوبائی
حکومت کا کہنا ہے کہ شہریت کے دعووں کو بنا دوبارہ ویریفائی کیےایک ‘ فول
پروف ‘ این آر سی کی اشاعت ممکن ہی نہیں ہے۔بی جے پی رکن اسمبلی شلادتیہ
دیو نے کہا ہے کہ ، ‘ تقسیم کے کئی ہندو متاثرین اور ان کے آباواجداد کا
نام شاید این آر سی میں شامل نہیں ہوگا۔ اگر فائنل این آر سی میں ان کا نام
نہیں ہوگا، تو آسام کی پہچان اور تہذیب پر اس کا گہرا اثر پڑےگا۔ ہم دوسرا
جموں و کشمیر نہیں چاہتے۔ اس لئے ہم ری ویری فکیشن کی مانگکر رہے ہیں۔ ‘ان
کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ مرکزی حکومت ابھی تک مہاجر غیر مسلمین کی شہریت کا
قانون منظور کرانے میں کامیاب نہیں ہوئی ہے ۔ یہ تنظیمیں اسی لیے اس معاملے
کو ری ویری فکیشن کے بہانے ایک سال ٹالنا چاہتی ہیں تاکہ یہ قانون منظور
ہوجائے ۔ یہ لوگ اس حقیقت سے بے بہرہ ہیں کہ اس سے شمال مشرقی ریاستوں میں
بی جے پی کی ہوا اکھڑ جائے گی ۔ ساتوں صوبوں کے لوگ غیر مقامی باشندوں کو
قبول کرنے کے لیےتیار نہیں ہیں ۔ سیاسی رہنما اپنے ذاتی مفادات کی خاطر بی
جے پی کے ساتھ ضرور آگئے ہیں لیکن تہذیبی تشخص اور تحفظ کے معاملے میں
عوام کسی مصالحت پر آمادہ نہیں ہیں۔ اسی لیے نہ تو وہاں سے آئین کی دفع
۳۷۱ ہٹانے کا کسی کوخیال آتا ہے اور نہ کوئی گئو کشی پر پابندی کی بات
سوچتا ہے۔
این ڈی اے میں شامل اے جی پی کی طلباء تحریک( آسو) ان مظاہروں اور مطالبات
سے اتفاق نہیں کرتی ۔ وہ چاہتی ہے کہ این آر سی کی اشاعت مقررہ تاریخ یعنی
۳۱ اگست ۲۰۱۹ کو ہوجائے۔آل آسام اسٹوڈنٹس یونین کے جنرل سکریٹری لورن
جیوتی گگوئی نے الزام لگایا کہ ‘ سپریم کورٹ پہلے ہی ری ویری فکیشن کی مانگ
خارج کر چکا ہے۔ جو لوگ این آر سی پروسیس کو وقت پر پورا نہیں ہونے دینا
چاہتے، ان کے اپنے سیاسی مقاصد ہیں۔ موجودہ مظاہرہ این آر سی اپ ڈیٹ کے
پروسیس کو بگاڑنے کی کوشش ہے۔ اگر غیر ملکیوں کا نام فہرست میں شامل ہوگئے
ہیں ، تو اس کے لئے حکومت کو ذمہ دارہےکیونکہ اس پروسیس میں لگے ہوئے
اہلکار حکومت کے ہیں۔یہ حسن ِاتفاق ہے کہ مرکز اور صوبے میں فی الحال بی جے
پی برسرِ اقتدار ہے۔ آسام کے معاملےبہر حال اے بی وی پی کے مقابلے آسو کے
موقف کو ہی ترجیح دی جائے گی ۔ آسوو اب اے بی وی پی کے صوبائی خزانچی
شیلین کلتا کے تجویز کردہ مزید ایک سال کا انتظارکرنے کے موڈ میں نہیں ہے ۔
سنگھ پریوار کی بوکھلاہٹ میں مسلمانوں کے لیے بہت بڑا سبق ہے۔وہ لوگ بھی
اگر غفلت میں پڑے رہنے کے بجائے مسلم تنظیموں کی طرح زمینی سطح پر کام کرتے
تو یہ دن نہیں دیکھنا پڑتا۔ اب این آر سی کا نفاذ ملک بھر میں ہونے جارہا
ہے ۔ اس پر امت کے اندر اچھی خاصی تشویش ہے اور اسے ہوا دینے کے لیے مختلف
لوگ خوف واندیشہ پیدا کرنے کی جانی انجانی سعی فرما رہے ہیں ۔ یہ کام فروری
سے شروع ہوگا۔ اس وقت تک ہمارے پاس ۶ ماہ کا وقت ہے۔ اس دوران خاموشی کے
ساتھ تین کام کیے جائیں تو بہت ساری مشکلات سے بچا جاسکتا ہے۔ اول تو چند
ماہر یہ معلوم کریں کہ کون کون سے کاغذات درکار ہیں اور ان کو حاصل کرنے کا
طریقۂ کار ہے۔ اس کے بعد ایسے رضاکاروں کی تربیت کی جائے جو عملاً محلوں
میں کیمپ لگا کر عوام کی رہنمائی کرسکیں اور ان کے کاغذات کی جانچ پڑتال
کرکے اس کی خامی و کمی کی نشاندہی کرسکیں نیز دستاویز حاصل کرنے میں ان کی
مدد کی جائے ۔
اس مقصد کے حصول کی خاطرہر محلہ میں این آر سی بیداری وتیاری کیمپ لگائے
جائیں ۔اس کو ہندو مسلم مسئلہ ہر گز نہ بنایا جائے۔ عام طور سے غریبوں کے
پاس کاغذات نہیں ہوتے۔ اس لیے بلاتفریق مذہب و ملت سارے لوگوں کی مدد کی
جائے۔ اس کام کو کرنے کے لیے رضا کاروں میں بھی غیر مسلمین کو شامل کیا
جائے۔ ان کو اپنے محلوں میں بلایا جائے اور ان کے علاقوں میں خود جایا
جائے۔اس مہم کے دوران غیر مسلمین سے جو دوستانہ روابط قائم ہوں گے اس سے
نقصان کے بجائے فائدہ ہوگا ۔ اس کام کی اولین شرط یہ ہے کہ افواہوں پر
دھیان دینے کے بجائے خاموشی اور سلیقہ سے یہ کام انجام دیا جائے۔ یہ مہم
اگر خوش اسلوبی سے چلائی جائے گی تو ان شاء اللہ آج جس طرح آسام میں سنگھ
کے لوگ پریشان ہیں اس طرح کل ہندوستان بھر میں ہوں گے ۔ ہمارا کام تواخلاص
کے ساتھ قدم بڑھانا ہے آگے راستہ بتانا اور راستے کھولنا اللہ رب العزت کے
ذمہ ہے ۔ قرآن کریم میں وعدہ ٔ حق ہے ‘‘اور جو لوگ ہماری خاطر جدوجہد کرتے
ہیں ہم ان کو ضرور اپنے راستے دکھا دیتے ہیں اور بے شک اللہ محسنین کے ساتھ
ہے’’ (29:69)۔
|