تاریخ اسلام میں 10محر الحرام کوپیش ہونے والا واقعہ
کربلا اور رسول اکرم حضرت محمد ﷺ کے نواسے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور
اہل بیت کی شہادت رہتی دنیا تک ہر مسلمان کے دل میں زندہ رہے گا ۔ جامعہ
ترمذی کی حدیث ہے رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’اللہ تمہیں جو نعمتیں
کھلاتا ہے ، ان کی وجہ سے اللہ سے محبت کرو اور اللہ کی محبت کی وجہ سے مجھ
سے محبت کرو اور میری محبت کی وجہ سے میرے اہل بیت رضی اللہ عنہا سے محبت
کرو‘‘، مشکوٰۃ شریف کی حدیث ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’حسن رضی
اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ ‘‘ دنیا میں میرے دو پھول ہیں ‘‘ ۔ ترمذی
اور ابن ماجہ کی حدیث ہے جس کے راوی ابو سعید رضی اللہ عنہ ہیں آپ ﷺ نے
ارشاد فرمایا ’’حسن اور حسین ‘‘ جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں ‘‘ ۔ نواسہ
رسول، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور فاطمہ الزہرہ رضی اللہ عنہا کے لخت جگر
حضرت حسین رضی اللہ عنہ 3 شعبا ن4ھ، مطابق8 جنوری 626 ء کو مدینہ منورہ میں
پیدا ہوئے ۔ رسول اکرم ﷺ نے نو مولود کے کانوں میں اذان دی اور آپ ﷺنے
نومولاد کے منہ میں اپنا لعاب دہن داخل فرمایا اور آپ کا نام نامی حسین
رکھا ۔ مسند احمد بن حنبل میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب
حسن رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ پیداہوئے تو اللہ کے نبی حضرت محمد
ﷺ نے مجھے بلا کر فرمایا ، مجھے ان کے نام تبدیل کرنے کا حکم دیا گیا ہے ،
میں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ﷺ بہتر جانتے ہیں ، پس آپﷺ نے ان کے
نام حسن رضی اللہ عنہ اورحسین رضی اللہ عنہ رکھے‘‘ ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ
نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا نام ’’حرب‘‘ تجویز فرمایا تھا ۔ آپ کی کنیت
ابو عبد اللہ تھی ۔ ترمذی شریف کی اس حدیث مبارکہ کو کون بھول سکتا ہے جس
میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں ‘‘ ۔ آپ ﷺ
نے یہ بھی فرمایا، راوی حضرت سلمان فارسی ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد
فرمایا کہ ’ میں نے ان دونوں یعنی حسن رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ
کے نام ہارون علیہ السلام کے بیٹوں شبر اور شبیر کے نام پر رکھے ہیں ‘ ۔
آپ ﷺ اپنے دونوں نواسوں سے بے انتہا محبت فرماتے ، سینہ پر بیٹھاتے،
کاندھوں پر چڑھاتے اور مسلمانوں کو تاکید فرماتے کہ ان سے محبت رکھو ۔ حضرت
عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک روز میں نے دیکھا کہ رسول اللہﷺ
نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو اپنی پشت مبارک پر سوار کر رکھا ہے اور آپﷺ
گھٹنوں کے بل چل رہے ہیں ۔ جب میں نے یہ شان دیکھی تو عرض کیا ’اے ابو عبد
اللہ آپ نے سواری تو بڑی اچھی پائی ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، اے عمر
رضی اللہ عنہ سوار بھی تو بہت اچھا ہے‘‘ ۔ نانا کو اپنے نواسہ سے بے انتہا
محبت تھی تو نواسہ نے بھی وقت آنے پر کربلا کے میدان میں اپنی ، اپنے
خاندان اور اپنے ساتھیوں کی قربانی دے کر اپنے نانا کی محبت کا حق ادا
کردیا ۔ حق و انصاف کے لیے ، اسلام کے لیے قربانی کی ایسی مثال قائم کی جس
کی مثال نہیں ملتی، کربالا کی قربانی رہتی دنیا تک یاد رکھی جائے گی ۔
رسول اکرم ﷺ اپنے نواسہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے بے پناہ محبت اور شفقت
فرماتے ۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نہ صرف صورت مبارکہ بلکہ سیرت مبارکہ میں
بھی اپنے نانا حضرت محمد ﷺ کے شبیہ تھے ۔ آپ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے
سات سال کے قریب اپنے نانا حضرت محمد ﷺ کے سایہ عاطفت میں پرورش پائی ۔
اپنے چھوٹے نواسے حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کا یہ عالم تھا کہ اگر آپﷺ
سجدہ میں ہوے اور نواسہ رسول اپنے نانا کی پشت پر آگئے تو آپﷺ نے سجدہ کو
طول دے دیا یہاں تک کہ حسین اپنی خوشی سے آپ ﷺ کی پشت سے از خود اتر نہ
گئے ۔ یہی نہیں اگر آپ مسجد کے منبر پر خطبہ پڑھ رہے ہوتے اور اور ننھے
حسین دروازہ سے داخل ہوتے ہوئے گرجاتے تو آپ ﷺ اپنا خطبہ قطع کر دیا کرتے
اور نیچے آکر اپنے نواسہ کو اٹھا لیا کرتے ، پھر دوبارہ منبر پر تشریف لے
جایا کرتے ۔ آپ ﷺ لوگوں کو متنبہ کیا کرتے کہ دیکھو یہ حسین ہے اس کی
فضیلت کو یاد رکھو آپ نے خاص طور پر کہا کہ دیکھو ’’حسین مجھ سے اور میں
حسین سے ہوں ‘‘ ۔ امام حسین رضی اللہ عنہ نیک ، صالحے، عبادت گزارم متقی ،
ہمدرد، فیاض ، مہمان نواز تھے ۔ عبادت گزار متقی ،صوم و صلاۃ کے پابند،
خانہ کعبہ سے عشق کا یہ عالم کہ بار بار عمرہ اور حج کرنے مدینہ سے پیدل
مکہ تشریف لاتے ۔ سید قاسم محمود نے شاہکار اسلامی انسائیکلو پیڈیا میں
لکھا ہے کہ آپ کا پورا وقت عبادت اور خدمت ِ خلق میں بسر ہوتا ۔ بڑے فیاض
اور مخیر تھے ۔ بیس حج پیادہ پا کئے‘ ۔
امام حسین رضی اللہ عنہ ابھی چھ برس کے تھے کہ ان کے نانا اور امت مسلمہ کے
رہبر و رہنما حضرت محمد ﷺ کا سایہ سر سے اٹھ گیا ۔ امام حسین رضی اللہ عنہ
نے اپنا بقیہ بچپن، لڑکپن اور جوانی کے پچیس برس اپنے والد محترم حضرت علی
رضی اللہ عنہ کے زیر سایہ گزارے ۔ جب امام حسین رضی اللہ عنہ کی عمر 31برس
کی ہوئی تو ان کے والد حضرت علی رضی اللہ عنہ ابن ابی طالب اسلام کے چوتھے
خلیفہ مقرر ہوئے ۔ امام حسین رضی اللہ عنہ اپنی عمر کی بھر پور جوانی میں
تھے آپ حضرت علی ابن ابی طالب کے ساتھ ہر ہر مرحلے پر ہمت اور بہادری سے
شامل رہے ۔ 19رمضان 40ھ (660ء) کی صبح عین حالت نماز میں زہر میں بجھی ہوئی
تلوار سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو زخمی کر دیا گیا اور آپ 21رمضان
المبارک کو شہادت کے مرتبے پرفائز ہوئے ۔ آپ کی تاریخ شہادت کے بارے میں
مختلف روایات پائی جاتی ہیں لیکن اس بات پر تمام ہی مورخین متفق ہیں کہ
خارجی عبدالرحمٰن بن ملجم جو مصری تھا نے رمضان المبارک کے تیسرے ہفتے کی
کسی تاریخ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ پر زہر سے بجھی تلوار سے ایسا وار کیا
کہ آپ جان بر نہ ہوسکے ۔ بشیر ساجد نے اپنی کتاب’ فاتح خیبر حضرت علی رضی
ا;203; عنہ ‘ میں مختلف مورخین کے حوالے سے آپ کی شہادت کی جو تاریخیں درج
کی ہیں ان کے مطابق محمد ابن سعد نے واقدی کے حوالے سے حضرت امام حسن رضی
اللہ عنہ کی زبانی 17 رمضان بروز جمعہ40ھ (25جنوری 661ء) ، طبری ، میور اور
امیر علی کا بھی اس پر اتفاق ہے ، ابن سعد کی دوسری روایت یہ ہے کہ 17
رمضان کو جمعہ کے دن آپ پر حملہ ہوا اور 19رمضان کو اتوار کے دن وفات
پائی، یہی رائے مورخ عمر ابو النصر مصری کی ہے، سید قاسم محمود نے اسلامی
انسائیکلو پیڈیا میں 21 رمضام تاریخ لکھی ، مجلہ نقوش (رسول ﷺ نمبر) کے
مضمون نگار راجہ محمد شریف نے لکھا ہے کہ ’حضرت علی رضی ا;203; عنہ اسی روز
جس دن کہ آپ زخمی ہوئے یا اس کے تیسرے دن 20رمضان المبارک 40ھ کو انتقال
فرمایا،’محسن اعظم و محسنین ‘کے مصنف سید اطہر حسین نے اور’تاریخ اسلام جلد
اول‘ کے مصنف فقیر سید وحیدالدین بھی اس سے متفق ہیں ، ان سب کے برعکس شاہ
معین الدین احمد ندوی کی تحقیق یہ ہے کہ آپ 27رمضان کو زخمی ہوئے
اور30رمضان بروز یک شنبہ (اتوار) کوانتقال فرمایا، ڈاکٹر طہٰ حسین (الفتنتہ
الکبریٰ ) کا بھی یہی خیال ہے ۔ ان کے علاوہ بیشتر مورخین نے حضرت علی کی
شہادت کے بارے میں لکھا ہے کہ آپ پر حملہ 19 رمضان کو نمازِ فجر کی نماز
کے دوران ہوا اور دو دن بعد یعنی21رمضام المبا رک40ہجری کی صبح آپ نے جام
شہادت نوش فرمایا ۔ آپ کے صاحبزادے حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ
پڑھائی عراق کے شہر نجف کی امام علی مسجد میں دفن ہوئے ۔
یزیدبن معاویہ نے انان سلطنت 27 رجب سن60ہجری میں سنبھالا اس کے ساتھ ہی
اسلامی ریاست میں ظلم و جبر اور فسق و فجور کے دور کا آغاز ہوگیا ۔ اس سے
قبل امام حسین رضی اللہ عنہکے بھائی حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو بھی
سازش کے تحت زہر دے کر ہلاک کردیا گیا تھا ۔ یزید کا دور اہل بیت کے لیے
زیادہ مشکل اور پریشان کن تھا لیکن امام حسین رضی اللہ عنہ نے استقامت اور
انصاف اور اسلام کی سربلندی کے لیے اپنے آپ کو ہر دم تیار رکھا ۔ یہ وہ
دور تھا جب انصاف اور اسلامی روایات کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے ملوکیت کی فضاء
کو تقویت دی جانے لگی ۔ اب برداشت کی حد ہوچکی تھی ۔ ایسے میں یزید کو اگر
کوئی للکار سکتا تھا ، اس کے خلاف کھڑا ہوسکتا تھا وہ وہ نواسہ رسول ﷺ ہی
ہوسکتے تھے اور ایسا ہی ہوا یہ سعادت امام کے حصہ میں آئی ، وہ یزید کے
سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے ہوگئے اور اس سے صاف صاف کہہ دیا
کہ ظلم و زیادتی کے خلاف سر نہیں جھکایا جاے گا ۔ اس کی بیعت لینے سے صاف
انکار کردیا ۔ امام کو معلوم تھا کہ انجام کیا ہوگا لیکن وہاں اپنے لیے
نہیں بلکہ اپنے نانا کے دین کو بچانے اور امت محمدی کے مفاد میں سب کچھ
کرنے جارہے تھے ۔ انہوں نے اسلام کی خاطر سب کچھ قربان کردیا ۔ 10محرم
لحرام یوم عاشور بروز جمعہ 61ہجری واقعہ کربلا دل کو ہلادینے والا، دھڑکنوں
کو تیز کردینے والا، سانسوں کو روک دینے والا وقت قریب آن پہنچا ۔ کربلا
کا میدان سج چکا تھا، امام نے دشمنوں کو اپنی جانب بڑھتے دیکھا تو اللہ کے
حضور اپنے ہاتھو ں کو بلند کیا اور دعا فرمائی ’’اے میرے رب! ہر مصیبت میں
تجھ پر میرا بھروسہ ہے ، ہر آزمائش اور مصیبت میں تو ہی میرا پشت پناہ ہے،
کتنی آزمائشیں اور مصیبتیں پڑیں ، دل کمزور ہوگیا، تدبیرنے جواب دیا،
لوگوں نے بے وفائی کی، دشمنوں نے خوشیاں منائیں ، مگر میں نے صرف تجھ ہی سے
التجا کی اور تو نے ہی میری دستگیری کی، تو ہی ہر نعمت کا مالک ہے، تو ہی
احسان والا ہے، آج بھی تجھ ہی سے التجا کی جاسکتی ہے‘‘ ۔ امام حسین رضی
اللہ عنہ اپنے خاندان اور جان نثاروں جو تعداد میں 500 تھے کے ساتھ دریا
فرات کے کنارے واقع کربلا میں یزید کے بڑے لشکر کے سامنے تھے ۔ جرت ،
بہادری، استقامت کے ساتھ مقابلہ کیا اور شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئے ۔
اللہ پاک نے امام اور اہل بیت کی قربانی یقینا قبول فرمائی تب ہی تو آج
چودہ سو سال سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد بھی امام کی یاد تازہ ہے اور
یزید کا نام لیوا کوئی نہیں ۔ درست ہے کہ اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے
بعد ۔
قتل حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کر بلا کے بعد
حضرت خواجہ معین الدین چشتی سے منسوب یہ بے مثل اشعار آپ حضرت حسین رضی
اللہ عنہ کی قربانی کی ترجمانی کرتے ہیں
شاہ است حسین ، بادشاہ است حسین
دین است حسین;230; ، دین پناہ است حسین
سر داد، نہ داد دست در دستِ یزید
حقاّ کہ بنائے لا الہٰ است حسین
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت ، مسلمانوں کے لیے ایک اہم واقعہ ہے
بلکہ مکمل دنیا کے لیے بھی اس واقعہ کو خاص مقام حاصل ہے ۔ امام حسین رضی
اللہ عنہ اور دیگر اہل بیت نے حق کے علم کو اونچا رکھ کر ، شہادت کے مرتبے
پر فائز ہوکر دنیا کو ایک ایسا سبق دیا کہ جسے رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے
گا ۔ آنے والی نسلوں کے لیے اس میں خاص پیغام اور عبرتیں اور حکمتیں پنہا
ہیں ۔
|