انتشار اور وطن عزیز

جب بھی کسی ملک،صوبے،علاقے،گاوں یا کسی گھر میں بھی جنگ کی سی کیفیت ہوتی ہے۔تو زندگی متاثر ہوتی ہےاورمعاشرہ انتشار کا شکار ہو جاتاہے۔اس انتشار کی کیفیت میں منفی قوتیں،دشمن گروہ اور بدکردار و جرائم پیشہ عناصر سرگرم ہو جاتے ہیں۔جس کی وجہ سے انتشار مزید بڑھتاہے اور زندگی کا پہیہ مفلوج ہو جاتاہے۔

اس کا اثر کیسے قبول ہوتاہے اور کیسے انتشار پروان چڑھتااس کی وضاحت میں کرتاہوں۔

کئی صدیوں پہلے جب سلطنت اناطولیہ اور بروصہ کے ترکوں کے خلاف عثمانی ترکوں نے لڑائی کا آغاز کیا تو سب سے پہلے اپنے قدم جمائے اپنے ہم مزہب لوگوں کے خلاف لڑ کر یہ دور غازی عثمان خان کا تھا۔جس کے نام کی نسبت سے بعد میں خلافت عثمانیہ وجود میں آئی۔عثمان غاذی یا اس کے جانشینوں کی جنگی حکمت عملیوں میں سے ایک حکمت عملی اانتشار پھلانا بھی تھا۔عین اس وقت جب جنگ زوروں پر ہوتی تو عثمانیوں کے مخالف لشکر میں یہ خبر پھیل جاتی کہ ہمارا بادشاہ عثمانیوں کے ہاتھوں مارا گیاہے۔یوں دشمن فوجی ہمت ہار کر جنگ ہار بیٹھتے یا میدان چھوڑ جاتے۔لیکن درحقیقت ان کا بادشاہ زندہ ہوتا۔یہ مثال ایک انتشار کی ہی ہے جس سے دشمن منتشر ہوتا تھاایسی افواہ وقت اور ماحول کو دیکھ کر زور پکڑتی اور اثر قبول کرواتی ہے اور ایسی افواہ کیلے سب سے سازگار ماحول میدان جنگ ہی ہوتا تھا یاہے۔

آج کے دور کی بات کریں تو آجکل کانسپرائیسیز تھیوریز کی اور ماڈرن پراکسی وار کی بنیاد افواہ سے شروع ہوتی ہے۔کوئی بھی ملک،صوبہ،علاقہ یا گھر انتشار کا شکار کیسے ہوتا ہے اور اس کا فائدہ کس کو ہوتاہے اس پر بات کرنا میں ضروری سمجھتاہوں۔سب سے پہلے آپ فرض کریں آپ کے گھر میں آپ کے دو بھائی جائداد یا کسی بھی دوسرے معاملےمیں ایک دوسرے بول چال چھوڑ چکے ہیں اور آپس میں اختلاف رکھتے ہیں تو ظاہری بات ہے یہ بات زیادہ نہیں تو رشتہ داروں میں پھیل جاتی ہے۔اب رشتہ دار اس بھائی کی مخالفت کریں گے جس کو وہ اچھاتسلیم نہیں کرتے خواہ وہ حق پر ہی کیوں نہ ہو۔یعنی جیسے ہی گھر میں انتشار پھیلا دو گروہ وجود میں آئے اب ان گروہوں کی آڑ میں دونوں طرف سے مفاد لوگ حاصل کریں گے۔اگر دونوں بھائیوں میں سے ایک بھی سمجدار ہوا تو وہ اس معاملے کو اپنے خاندان کی مصالحتی کونسل میں رکھے گا یا پھر قانون کے ذریعے اس معاملے کو ختم کرے گا جس سے فائدہ دونوں طرف ہوگا۔
اسی طرح اگر ایک گاوں ہے جس کی دوسرے گاوں کے ساتھ دشمنی ہے۔اس گاوں میں ایک واقعہ پیش آتاہے کہ ایک دفع ایک خاندان کے ایک گھر میں ایک چور داخل ہوتا ہے اس گھر کے لوگوں کی جان خطرے میں ہوتی ہے۔پولیس کو گاوں کا سردار بلاتاہے۔پولیس اس گھر کے لوگوں کی جان بچانے کی غرض سے اس گھر میں داخل ہوتی ہے اور ان لوگوں کی جان بچاتی ہے۔پورا گاوں پولیس کو داد دیتاہے۔گھر کے مکین بھی خوش ہوتے ہیں۔لیکن دوسرے گاوں کے لوگوں کے جاسوسوں جو اس گاوں میں اس گاوں کے لوگ بن کر رہے رہے تھے اکسانے پر اس گھر کے مکین باوجود اپنے خاندان کے روکنے کے گاوں کے خلاف ہو جاتے ہیں۔گاوں کا سردار ان کو سمجھانا چاہتا ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں پولیس نے تمہاری اور تمہارے کنبے کی جان بچائی ہے لیکن اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا دوسرے گاوں کے جاسوس اپنے گاوں خبر بھیجتے ہیں کہ ہم نے ایک بندے کو اس گاوں کے خلاف کر دیا ہےلہذا وہ اب ہمارا آلہ کار بننے کو تیار ہے۔

دوسرے گاوں کا سردار اس آلہ کار کو پیسے دیتاہے اور گاوں کے خلاف مزید بولنے پر اکساتاہے۔یہ خبر جب گاوں کے دوسرے خاندان سنتے ہیں تو وہ بھی شک میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔اس انتشار کی وجہ سے گاوں کے لوگ شدید پریشانی میں مبتلا رہتے ہیں اور اس شخص سے دوسرا گاوں ایسے ہی انتشار پھیلانے پر نوٹوں کی بارش کرتا رہتاہے۔ایک دن پولیس کو اس کام کی بھنک لگ جاتی ہے۔پولیس گاوں کے لوگوں میں ثبوت کے ساتھ یہ بات پھیلا دیتی ہے کہ یہ دشمن گاوں کا آلہ کار ہے۔تمام گاوں کے لوگ اس کے خلاف ہوجاتے ہیں اور اس کے خاندان والے بھی اس کے خلاف ڈٹ جاتے ہیں اور اس کے انتشار کا منہ توڑ جواب دیتے ہیں۔

اس گاوں اور اس گھر جیسا ہی کچھ حال اپنے پیارے وطن پاکستان کا ہے۔بلوچستان اور خیبر پختونخواں کے چند علاقے انتشار کا شکار ہیں جس کی وجہ اس گاوں والے آدمی کے گھر گھسے چور جیسی ہے۔جب اس ملک کے دشمنوں اور آذادی کا جھوٹا درس دینے والوں کے خلاف ہمارے ملک کی فوج نے آپریشنز کیے تو چند دوسرے گاوں کے جاسوسوں جیسے لوگوں نے ان لوگوں کو اکسایا کہ آرمی نے آپریشنز کے علاوہ یہ بھی کیا ہے۔تو خلافت عثمانیہ والی مثال کی طرح ماحول سازگار ہونے کی وجہ سے وہاں کے لوگوں نے ان تمام افوہوں کا اثر قبول کرنا شروع کر دیا۔چند لوگوں نے اس گاوں کے آلہ کار کی طرح دوسرے ملکوں سے فنڈنگ لینا شروع کر دی جس کا نتیجہ وہی انتشار نکلا۔

باقی رہی گھر والی مثال کی بات تو وطن عزیز میں چند پارٹیاں ایسی بھی ہیں جن نے گھر کا ہی ماحول خراب کیاہواہے۔کبھی ملک کے چوکیداروں کے خلاف بولیں گی تو کبھی خاموشی سے کر گزرنے والوں کے خلاف بولیں گی اور ان کے ساتھ ان کے ووٹرز بھی شامل ہونگے اور انتشار کا شکار صرف سیاست کی بنیاد پر ہو جاتے ہیں۔حالانکہ انتشار کو ختم کرنے کا سب سے آسان طریقہ سیاسی استحکام ہوتاہے اور جب ایک پارٹی سیاسی استحکام کے خلاف کام کر رہی ہو تو آپ سمجھ جائیں یہ لوگ کیا چاہتے ہیں اور یہ کن کے آلہ کار ہیں۔

ملک وقوم اور اس کے اداروں کے خلاف پراپیگینڈا کا ثبوتوں کے ساتھ منہ توڑ جواب ہی اس کا اثر زائل کر سکتاہے۔


 

Usama Khan Daultana
About the Author: Usama Khan Daultana Read More Articles by Usama Khan Daultana: 8 Articles with 4357 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.