سعودی عرب کی تیل تنصیبات پر حملے ۰۰۰ عالمِ اسلام کیلئے لمحۂ فکر

سعودی عرب کی تیل تنصیبات پر حملے نے ساری دنیا کو حیرت زدہ کردیا ہے کیونکہ سعودی عرب کروڑہا ڈالرس کے عصری ٹکنالوجی سے آراستہ دفاعی ہتھیار رکھنے کے باوجود تیل تنصیبات پر کئے جانے والے حوثی باغیوں یا ایران کی جانب سے یا اس کی پشت پناہی میں کئے جانے والے حملوں کا دفاع کرنے سے قاصر رہا۔ایک طرف حوثی باغی سعودی عرب کی اہم تیل تنصیبات پر حملے کی ذمہ داری قبول کررہے ہیں تو دوسری جانب امریکہ کا دعویٰ ہے کہ یہ حملے ایران کی جانب سے کئے گئے ہیں جبکہ ایران امریکہ کے اس دعوی کو مسترد کرتا ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق سعودی وزارتِ دفاع نے جمعرات 19؍ ستمبر کو سعودی عرب آرامکو تیل تنصیبات پر کئے گئے حملوں کے سلسلہ میں پریس بریفنگ دی ہے جس میں ان شواہد کی نشاندہی ملبے کی تصاویر اور ویڈیوز کے ذریعہ کی گئی جو ڈرون (یو اے وی) اور میزائلوں پر مشتمل تھا۔ سعودی وزارت دفاع کے ترجمان کرنل ترکی المالکی نے بتایا کہ شواہد سے پتا چلتا ہے کہ یہ حملہ شمال کی جانب سے کیا گیاہے بلا شبہ اس کی مدد ایران نے کی۔ تاہم کرنل مالکی کا کہنا ہے کہ حملہ اصل کس مقام سے کیا گیا اس کی مزید تحقیقات جاری ہے ۔سعودی وزارت دفاع کے مطابق 18ڈرونز اور تین میزائل ابقیق اور چار میزائل خریص کے علاقوں میں سعودی تیل کمپنی آرامکو تنصیبات پر کئے گئے۔14؍ ستمبر کے روز ہونے والے حملوں میں دنیا میں تیل صاف کرنے کا سب سے بڑا کارخانہ جو ابقیق میں واقع ہے بھی متاثر ہوا ہے اور جہاں آرامکو کمپنی کی نصف پیداوار معطل ہوگئی وہیں ابتداء میں تیل کی عالمی رسد میں پانچ فیصد کی کمی واقع ہوئی تھی۔ ان حملوں کے فوری بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ یہ بات یقینی دکھائی دے رہی ہے کہ ہفتہ کو سعودی عرب میں تیل کی تنصیبات پر حملوں کے پیچھے ایران کا ہی ہاتھ ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ’’ میں کسی نئے تنازعے میں پڑنا نہیں چاہتا لیکن بعض اوقات آپ کو ایسا کرنا پڑتا ہے ، یہ بہت بڑا حملہ تھا اور اس کا جواب اس سے کہیں بڑا حملہ ہوسکتا ہے‘‘۔ انہوں نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب امریکہ کا کلیدی اتحادی ہے جس کی مدد کے لئے وہ تیار ہیں تاہم وہ اس بات کے حتمی تعین کا انتظار کریں گے کہ حملوں کا ذمہ دار کون تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یقینی طور پر لگ رہا ہے یہ ایران کا کام تھا۔امریکہ نے سعودی تیل تنصیبات پر حملے میں ایران کے ملوث ہونے کے دعوے کے ثبوت میں کچھ سیٹلائٹ تصاویر اور خفیہ معلومات جاری کیں او رساتھ ہی حوثی باغیوں کی جانب سے یہ حملے کرنے کی صلاحیت پر بھی شکوک و شبہات کا اظہار کیاتھا۔امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے 18؍ ستمبر کو سعودی عرب کا دورہ کیا انہوں نے اس موقع پر کہا کہ یہ ’’جنگی اقدام‘‘ تھااور ایران کے اقدامات ناقابلِ برداشت ہیں اوریہ کہ امریکہ سعودی عرب کی خام تیل کی تنصیبات پر حالیہ حملوں کے بعد اس کے حقِ دفاع کی حمایت کرتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ڈرون اور میزائل حملے کے موقع پر سعودی فضائی دفاع الرٹ کیوں نہیں تھا؟اس سلسلہ میں ذرائع ابلاغ کے مطابق ایک سینئر امریکی اہلکار کا کہنا ہیکہ یہ مقام جنوبی ایران میں خلیج کے شمالی سرے پر واقع ہے انکا کہنا تھاکہ سعودی ایئر ڈیفنس نے ڈرونز اور میزائلوں کو نہیں روکا کیونکہ ان کا رخ یمن کے حملوں کو روکنے کے لئے جنوب کی جانب تھا۔ سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے18؍ ستمبر کو جدہ میں منعقد کابینی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے سعودی تنصیبات پر حملے کے سلسلہ میں کہا کہ یہ حملے دنیا بھر کو ہونے والی تیل کی فراہمی کو نشانہ بنایا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب اپنی تنصیبات پر ہونے والے بزدلانہ حملوں سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ شاہ سلمان کا کہنا ہے کہ سعودی تیل تنصیبات پر حملوں میں نہ صرف سعودی عرب کی تیل تنصیبات بلکہ عالمی معیشت کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ کابینی اجلاس کے بعد جاری کئے گئے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ کابینہ نے آرامکو تیل تنصیبات پر حملے کے بعد کی صورتحال پر غور کیا۔ سعودی کابینہ نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان حملوں کا مقابلہ کریں چاہے یہ کہیں سے بھی کئے گئے ہوں۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہیکہ تیل تنصیبات پر بزدلانہ حملے سعودی عرب کی اہم تنصیبات پر حملوں کے سلسلہ کی کڑی ہے، اس حملے نے آزادانہ جہازرانی اور عالمی معاشی نمو کے استحکام کو خطرے سے دوچار کردیا ہے۔ یہاں یہ بات واضح ہیکہ سعودی عرب اور ایران ایک دوسرے کے حریف ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان جنگ چاہتا ہے کیونکہ یہ دونوں عقائد کے اعتبار سے سنی اور شیعہ کے لئے اہمیت کے حامل ہیں۔ یمن میں صدر عبدربہ منصور الہادی کے خلاف حوثی بغاوت نے جس طرح سعودی اتحاد کے خلاف کارروائیاں کررہے ہیں اور اب سعودی عرب کے ان دو تیل کے اہم تنصیبات پر حملے کی ذمہ داری قبول کی گئی اس سے اندازہ ہوتا ہیکہ حوثی باغیوں کو ایران سے زبردست تعاون مل رہا ہے ۔ سعودی عرب پر اس سے قبل بھی حوثی باغیوں نے کئی میزائل حملے کئے ہیں ۔ یمن ایک غریب ملک ہے یہاں پر سعودی اتحاد جس کو امریکہ کی حمایت حاصل ہے ایک طویل عرصے سے فضائی مہم چلارہی ہے اس کے باوجود حوثی باغیوں کے حوصلے بلند ہی ہوتے دکھائی دے رہے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ سعودی عرب کے خلاف جوابی کارروائی کرتے ہوئے ڈرون اور میزائل حملے کرکے اپنی طاقت بتانے کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کے دفاعی نظام کو ناقص بتانے کی کوشش کررہے ہیں اگر واقعی سعودی عرب کا دفاعی نظام مضبوط ہے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہیکہ یہ حملے کسی اور سازش کا حصہ ہے اور اس سازش کے ذریعہ عالم اسلام کو منتشر کرکے معیشت کو تباہ و برباد کرنا ہے۔ مسلم حکمرانوں کو جلد بازی کے بجائے حکمتِ عملی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے دوست اور دشمن میں تمیز کرنے کی ضرورت ہے ۔ دشمنانِ اسلام اپنی معیشت کو مضبوط و مستحکم کرنا چاہتے ہیں کیونکہ جس طرح کا ڈر و خوف بٹھایا جارہا ہے اس سے ہر حکمراں اپنے اقتدار کی مضبوطی اور دفاع کے لئے مزید ہتھیار خرید سکتے ہیں اور ان ہتھیاروں کی ترسیل ان ہی عالمی طاقتوں سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ ادھر اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے دعویٰ کیا ہے کہ سعودی عرب کی ابقیق شہر میں قائم آئل فیلڈ پر ہفتے کی صبح ہونیوالے حملے میں عراق کی سرزمین استعمال کی گئی تھی۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق عراقی ملیشیا نے ایرانی ساختہ ڈرون طیاروں کی مدد سے ابقیق کی تنصیب پر حملہ کیا۔ عراق کے ڈرون اڈوں اورابقیق تنصیبات کے درمیان صرف 800 کلو میٹر کا فاصلہ ہے۔بتایا جاتا ہے کہ مئی میں ایرانی تیل کی برآمدات پرامریکی پابندیوں کے بعد ایران نے خلیجی ممالک کی تیل تنصیبات پرحملے شروع کیے تھے۔ اس عرصے میں ایران کا کسی دوسرے ملک کی تیل تنصیبات پر سب سے بڑا حملہ ہے۔عراقی سرزمین سے ایران کے ذریعہ سعودی عرب پر یہ پہلا حملہ نہیں ہے۔ 15 مئی کو عراق سے آئے دو ایرانی دھماکہ خیز ڈرونوں نے حملہ کرکے وسطی سعودی عرب میں آرامکوکی آئل پائپ لائن کے دو بڑے اسٹیشنوں میں آگ لگا دی تھی۔اس آئل فیلڈ سے پائپ لائن کے ذریعے بحر احمر کے ساحل کے مغرب میں تیل سپلائی کیا جاتا ہے۔اسرائیل کے عسکری ذرائع نے ہفتے کی شب اعلان کیا تھا کہ اسرائیل کو عراق سے بھی ایسے فضائی حملوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ان ذرائع نے بتایا کہ اگرچہ سعودی عرب میں جدید انتباہی نظام اور جدید دفاع موجود ہے لیکن ڈرون کے ذریعے اس طرح کے حملے کا پتہ لگانا بہت مشکل ہے۔ایرانی صدر حسن روحانی نے 14؍ ستمبر کو سعودی عرب کی تیل تنصیبات پر کئے گئے حملوں کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ یہ یمنی عوام کی جانب سے ردعمل ہے اور انکا مزید کہنا تھا کہ یمن کے حوثی باغیوں نے ان حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کی ہے۔ ایرانی میڈیا پر نشر کئے جانے والے ویڈیو پیغام میں صدر حسن روحانی کا کہنا تھاکہ ہم خطے میں تنازعہ نہیں چاہتے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ تنازعہ یمنیوں نے نہیں شروع کیا بلکہ سعودی عرب، عرب امارات، امریکہ ، چند یوروپی ممالک اور صیہونی حکومت (اسرائیل) نے اس خطے میں جنگ شروع کی ہے۔امریکی وزیر خارجہ کی جانب سے سعودی تنصیبات پر حملے کے بعد سعودی عرب کے حقِ دفاع کی حمایت کیے جانے پر ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے خبردار کیا ہے کہ ان کے ملک پر کسی بھی حملے کو کھلی جنگ تصور کیا جائے گا۔ذرائع ابلاغ کے مطابق انہوں نے سی این این سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ میں ایک انتہائی سنجیدہ بیان دے رہا ہوں کہ ہم جنگ نہیں چاہتے، ہم کسی عسکری تنازعہ میں الجھنا نہیں چاہتے مگر ہم اپنے علاقے کا دفاع کرنے کے لئے آنکھ بھی نہیں جھپکیں گے‘۔ اس طرح ایران ان حملوں میں کسی بھی قسم کی شمولیت سے انکار کرتا ہے ۔ اب دیکھنا ہے کہ اس حملہ کا اصل ذمہ دار کون ہے اور اس کے خلاف کس قسم کی کارروائی کی جائے گی ۔

پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کا دورہ سعودی عرب
ٖٓپاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے19؍ ستمبر کودوروزہ سعودی عرب کا دورہ کیا ۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق اس موقع پر انہوں نے سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کی ۔ بتایا جاتا ہے کہ عمران خان اور شاہ سلمان کے درمیان دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تعلقات ، علاقائی اور عالمی سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا ۔ وزیر اعظم نے سعودی تیل کی تنصیبات پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ وہ حرمین شریفین کے تقدس اور سلامتی کیلئے سعودی عرب کے ساتھ ہیں۔

کیا امریکہ پر بھروسا کیا جاسکتا ہے ۰۰۰
یہاں ایک بات واضح ہوتی ہے کہ ماضی میں امریکہ نے جس طرح مردِ آہن صدرصدام حسین مرحوم کے خلاف الزامات عائد کرکے عراق کو تہس نہس کردیا ، لاکھوں عراقیوں کا خطرناک فضائی حملوں کے ذریعہ قتلِ عام کیا اور اربوں ڈالرس کی معیشت کو تباہ و برباد کردیا یہی نہیں بلکہ عراق کی تاریخی عمارتوں اور تاریخی ورثہ کو ملیامیٹ کردیاگیااور آخر کار صدام حسین کو یوم عرفہ کے روز پھانسی دے کر شہید کردیاگیا۔ صدام حسین جیسے بہادر صدرکی موت عالمِ اسلام کے لئے نقصاندہ ثابت ہوئی اور یہیں سے دشمنانِ اسلام کو مزید تقویت حاصل ہوئی۔ کویت سے متعلق یا تیل کے سلسلہ میں اگر عالمِ اسلام کے حکمراں اس وقت صدام حسین کو کسی نہ کسی طرح مناتے اور بات چیت کے ذریعہ جو مسائل درپیش تھے حل کرنے کی کوشش کرتے تو شاید آج عالمِ اسلام کی اتنی بُری حالت نہ ہوتی۔امریکہ نے عراقی صدر صدام حسین کے خلاف لگائے گئے الزامات کے تعلق سے بعد میں تردید کی کہ اس کی انٹلیجنس رپورٹ غلط تھی ، لیکن اس کے باوجود نہ تو اُس وقت کے امریکی صدراور برطانوی وزیر اعظم کو کٹھہرے میں لایا گیا اور نہ ہی ان عہدیداروں کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی اور نہ ہی عالمی طاقتوں نے امریکی انٹلی جنس کی غلط رپورٹ کے خلاف کچھ کہا ۔ اگر یہی غلطی ایک مسلم ملک یا حکمراں سے سرزد ہوتی تو شاید اسکا خمیازہ پورے ملک و قوم کو بھگتنا پڑتا تھا۔ آج سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور اس کے پیچھے امریکہ بھرپور کوشش کررہا ہے کہ کسی نہ کسی طرح سعودی عرب اور ایران کے درمیان جنگ چھڑ جائے۔ اب دیکھنا ہے کہ سعودی عرب، امریکہ کی جانب سے ایران پر لگائے گئے الزام کو سچ مانتا ہے یا پھر اسے نظرانداز کرکے کوئی حکمت عمل اختیار کرتا ہے ویسے سعودی عرب نے بھی تحقیقاتی رپورٹ کے بعد ایران پر الزام عائد کیا ہے کہ اس کے پیچھے ایران ہے لیکن مزید تحقیقاتی رپورٹ آنے کے بعد ہی اصل نتیجہ پہنچنے کی بات کی ہے جو شاید کسی حکمت عملی کا نتیجہ ہوسکتی ہے ۔ رہی بات حوثی باغیوں کے خلاف سعودی اتحاد کی کارروائی کی تو اس میں بھی سعودی اتحادی ممالک کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ حوثی باغیوں سے کسی نہ کسی طرح بات چیت کرنا چاہیے اور ان کے مطالبات کے حل کیلئے فیصلہ لینا ہوگا ورنہ یمن کی یہ جنگ مستقبل قریب میں انتہائی کشیدہ ہوجائے گی اور پھر اسکا خمیازہ ساری انسانیت خصوصاً مسلمانوں کو بھگتنا ہوگا۔

یمن میں بارودی سرنگوں کی تباہ کاریاں
یمن میں حالات انتہائی کشیدہ ہیں ۔ حوثی باغیوں اور ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا نے کئی بارودی سرنگیں بنائی ہیں۔ اس سلسلہ میں ذرائع ابلاغ کے مطابق بتایا جاتا ہے کہ یمن میں سعودی مائن کلیئرنس پروجیکٹ 'مسام' کی جانب سے باردوی سرنگوں کی تلفی کیلئے جاری آپریشن کے دوران ایک ہفتے میں 1980 بارودی سرنگیں ناکارہ بنائیں گئیں۔ یہ بارودی سرنگیں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا نے متعدد علاقوں میں نصب کررکھا تھاالعربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق 'مسام' مرکز نے 16؍ ستمبر کو ایک بیان میں کہا ہے کہ ایک ہفتے کے دوران لوگوں کو نشانہ بنانے والی دو ، 332 ٹینک شکن بارودی سرنگیں تلف کی گئیں۔ اس کے علاوہ 1،629 غیردھماکہ خیز مواد اور 17 دھماکہ خیز آلات قبضے میں لے کرناکارہ بنائے گئے۔مزید کہا گیا ہے کہ اس منصوبے کے آغاز کے بعد سے اب تک یمن میں حوثی باغی ملیشیا کی جانب سے اسکولوں اور مکانوں میں نصب 761،89 بارودی سرنگوں کو تلف کیا گیا۔یہ بارودی سرنگیں اور مائن مختلف شکلوں ، رنگوں اور طریقوں سے چھپانے کی کوشش کی جس سے بچوں ، خواتین اور بوڑھوں کی ایک بڑی تعداد لقمہ اجلی بنی۔ کئی افراد بارودی سرنگوں کے دھماکوں سے زخمی اور معذور ہوگئے۔زیادہ تر بارودی سرنگیں حدیدہ کے علاقے میں بچھائی گئی تھیں۔ حوثی ملیشیا کی جانب سے رہائشی محلوں ، دیہات اور کھیتوں الحدیدہ کے مختلف علاقوں اور اضلاع میں شہریوں کے گھروں کے اطراف میں نصب بارودی سرنگوں کے دھماکوں سے سیکڑوں شہری مارے گئے۔العربیہ ڈاٹ نیٹ کی رپورٹ کے مطابق یمن کی 15 گورنریوں میں حوثی ملیشیا نے مجموعی طور پر 15 لاکھ بارودی سرنگیں نصب کی ہیں۔ ان میں سے بعض انتہائی تباہ کن اور دھماکہ خیز ہیں جو گاڑیوں کو بھی تباہ کرنے کا سبب بنتی ہیں۔اس طرح ایک طرف سعودی اتحاد کی جانب سے حوثی بغاوت کو کچلنے کے لئے کارروائیاں کی جارہی ہیں تو دوسری جانب حوثی باغی اور ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا کی خطرناک کارروائیاں جاری ہیں ان دونوں کے درمیان عام شہریوں کی ہلاکت اور معیشت کی تباہی نے اس ملک کے عوام کے لئے جینا دو بھر کردیا ہے ۔
***
 

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 209514 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.