کشمیرکی صورتِ حال صاف بتارہی ہے کہ تہذیبوں کی
بنیادپرقائم دنیا کیسی دکھائی دیتی ہے۔بین الاقوامی قانون کوجُوتے کی نوک
پررکھنے کے حوالے سے مودی،نیتن یاہواورٹرمپ ایک صف میں بلکہ شانہ بہ شانہ
کھڑے ہیں۔
اہلِ کشمیرکوآزادی یاحق خودارادیت سے محروم کرنے کے حوالے سےمودی کاحالیہ
اقدام کاتاریخی اعتبار سے درست اندازہ لگانے کیلئےہمیں 1952ءمیں تب کے
بھارتی وزیراعظم پنڈت نہرو کے الفاظ پرغورکرناہوگاکہ’’کشمیر بھارت کی
جاگیرہے نہ پاکستان کی،یہ توکشمیریوں کاہے۔ جب جموں وکشمیرکاپاکستان سے
الحاق کیاگیاتھاتب ہم نے کشمیری قیادت اورعوام دونوں پر واضح کردیاتھاکہ ہم
حرفِ آخرکے طورپروہی بات مانیں گے جواستصواب رائے میں کہی گئی ہوگی۔اگر
کشمیری ہم سے کہیں گے کہ کشمیرسے نکل جاؤتوہم اُن کی رائے کااحترام کرتے
ہوئے وہاں سے نکلنے میں ذراسی بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے۔ہم نے معاملہ
اقوام متحدہ تک پہنچایاہے اوریہ عہدبھی کیاہے کہ مسئلہ کشمیر کے پُرامن حل
کے حوالے سے عالمی برادری کے فیصلے کامکمل احترام کیاجائے گا۔ایک عظیم ملک
ہونے کے ناطے ہم اس معاملے میں وعدہ خلافی کے متحمل نہیں ہو سکتے ‘‘۔
بھارت میں برطانوی راج ختم کرانے کی تحریک میں نہرو پیش پیش رہے۔جنوبی
ایشیاکے امورکے ماہرولیم ڈیلرمپل کے الفاظ میں”مودی ملک کوجدیدخطوط پرایک
حقیقی روادار،جمہوری قومی ریاست کی شکل دینے کاخواب دیکھنے والے اپنے
قائدین کی امنگوں اورآرزوؤں سے بہت دورلے گئے ہیں۔مودی نے جوکچھ کیااُس
کے عواقب کااُنہیں بھی خوب اندازہ تھا۔ اُنہوں نے جموں وکشمیر کی آئینی
حیثیت تبدیل کرکے دراصل آگ سے کھیلنے کی کوشش کی ہے۔سابق امریکی صدرکلنٹن
نے کشمیرکو دنیاکاخطرناک ترین علاقہ قراردیاتھا۔میڈیاکے بھارتی اداروں نے
رائے عامہ کے جن جائزوں کااہتمام کیاہے اُن میں دوتہائی سے زائد کشمیریوں
نے آزادی کی خواہش کااظہارکیاہے۔
مودی نے اندازہ لگایاتھاکہ انتہاپسندہندوؤں کے حملوں کاسامناکرنے والے
بھارتی مسلمان جموں وکشمیرکے حوالے سے اُن کے اقدام کومسترد کردیں گے۔مودی
نے جموں وکشمیرمیں دس ہزاراضافی فوجی تعینات کیے،سیاسی قائدین
کوپابندِسلاسل کیا، سیاحوں اورزائرین کووادی سے نکل جانے کاحکم دیا،تعلیمی
ادارے بندکیے اورفون سروس اورانٹرنیٹ دونوں پرپابندی عائد کر دی۔مودی کے
اقدام کی ٹائمنگ بھی ایسی ہے کہ نظر انداز نہیں کی جاسکتی۔ یہ اقدام ٹرمپ
کی طرف سے کشمیرکے مسئلے پر ثالثی کی پیشکش کے فوری بعد کیاگیاہے،یہ پیشکش
بھارت نے یکسرمستردکردی تھی ۔
بھارت کوامریکااورطالبان کے درمیان مذاکرات بھی ایک آنکھ نہیں بھائے
ہیں۔بھارت جانتاہے کہ ان مذاکرات کے نتیجے میں امریکی افواج افغانستان سے
نکل جائیں گی اوراقتدارممکنہ طورپرطالبان کے ہاتھ میں آجائے
گا۔ایساہواتوافغانستان میں پاکستان کی پوزیشن ایک بارپھرمستحکم ہو جائے گی
اوربھارت کیلئےمشکلات پیداہوں گی جووہاں اچھی خاصی سرمایہ کاری کرچکا ہے۔
نہرونے عظمت کاتصوربھارتی قوم پرستی سے وابستہ کیاتھا۔مودی نے عظمت کونئے
سیاق وسباق میں پیش کرنے کیلئےاِسے ہندوقوم پرستی سے نتھی کردیاہے۔اُن کے
پیش روؤں نے کشمیرکے حوالے سے جوقانونی،سیاسی اوراخلاقی کمٹ منٹس کی تھیں
اُنہیں لپیٹ کرایک طرف رکھ دیاگیاہے۔
مودی کاشمار اُن سفاک قائدین میں ہوتاہےجواپنے ملک کی سرحدوں کوتاریخی سیاق
وسباق میں بیان کرتے ہیں۔وہ ہندو تہذیب کی نمائندگی بین الاقوامی
طورپرتسلیم شدہ سرحدوں،آبادی یازبان کے بجائے وسیع ترتاریخی تناظر میں
بیان کرتے ہیں۔یہ تہذیبی موقف دوسروں کے حقوق کو صریحاًمستردکرتاہے۔اس
معاملے میں مودی اورنیتن یاہومیں کوئی فرق نہیں گوکہ1967ء کی عرب اسرائیل
جنگ میں جن فلسطینی علاقوں پراسرائیلی افواج نے قبضہ کیاتھااُنہیں اسرائیل
میں نیتن یاہو کے پیش روؤں نے شامل کیا تھا۔
مودی کوامریکی ٹرمپ سے شہہ ملی ہےجنہوں نے اردن سے جیتے ہوئے مشرقی بیت
المقدس اورشام سے جیتی ہوئی گولان کی پہاڑیوں کواسرائیل کاباضابطہ حصہ
بنانے کے عمل کی توثیق کی اوریوں غرب اردن میں اسرائیلی بستیوں کے قیام کو
بھی قانونی طورپردرست تسلیم کرلیا۔ٹرمپ،مودی اورنیتن یاہونے ثابت کردیاہے
کہ وہ سفارت کاری کے ساتھ ساتھ قومی ریاست کے اُس تصورکوبھی بالائے طاق
رکھیں گے،جو1648ء کے ویسٹ فیلیامعاہدے میں پیش کیاگیاتھا۔یہ تمام رہنما
قومی، اقلیتی ،نسلی،مذہبی اوربنیادی انسانی حقوق کونظراندازکرنے کے حوالے
سے شانہ بہ شانہ کھڑے ہیں۔
یہ تمام قائدین اِس وقت اپنی ظلم وستم اورناانصافی پرمبنی پالیسیوں
پرفخرمحسوس کرسکتے ہیں کہ اِنہوں نے کسی بھی سطح پرجوابدہی سے بہت بلند
ہوکر نئے عالمی نظام کے ڈھانچے پراستعماری گوشت مڈھ دیا ہے۔مودی کا کہنا ہے
کہ کشمیریوں کے حق خودارادیت کویکطرفہ طورپرختم کرکے اُس نے ایک پرانا
انتخابی وعدہ پوراکیاہے۔توسیع پسندی کشمیرمیں ہویاپھر مقبوضہ فلسطینی
علاقوں میں…اِن سے قلیل المیعاداورطویل المیعاد بنیادپرتشددکی راہ ہموار
ہوتی ہے،عوام میں بہت بڑے پیمانے پراضطراب جنم لیتاہے،جس سے بہت کچھ
ہوسکتاہے اورسب سے بڑھ کریہ کہ ایسی توسیع پسندی سے پاکستان اور بھارت جیسے
ممالک کے درمیان جوہری جنگ کے خطرے کاگراف بہت بلندہوجاتاہے۔ |