سرمایہ کار ،بینکرز ،صعنت کار ،تاجر ،سرکاری ملازم سب
پریشانی کا شکار ہیں ،بینکوں سے اربوں روپے نکال لیے گئے ہیں ۔لین دین نقد
پر تھوڑا بہت ہورہا ہے ۔ریئل سٹیٹ اور گاڑیوں کا کاروبار ٹھپ ہے ۔سرمایہ
بیرون ملک منتقل ہوگیا اور بدستور ہورہا ہے ،سی پیک کے تمام منصوبے نہایت
سست روی کا شکار ہیں ۔بے روزگاری اور بداعتمادی میں اضافہ ہورہا ہے ایسے
حالات میں مولانا کے آذادی مارچ نے حکمرانوں کی نیندیں حرام کردی ہیں اور
آذادی مارچ سے پہلے ہی مار چ کامیاب ہوتا نظر آرہا ہے یہ کہیں عمران خان کی
حکومت کو سیاسی شہید نہ بنادے ،دھرنے اور مارچ کی صورت میں اگر حکومت میں
اکھاڑ بچھاڑ تبدیل آتی تو کہ قیاس موجود ہے کہ پی ٹی آئی حکومت یہ بہانا
بنائے کہ ہمیں تو کام نہ کرنے دیاگیا ،تیرہ ماہ میں کوئی کیا کارکردگی دکھا
سکتا ہے ۔ہمارے فیصلوں کے نتائج اب آناشروع ہوئے تھے وغیرہ وغیرہ ایسی صورت
میں جب حکومت سے ہر شخص خفا ہے ۔عوام کے غم وغصہ میں ہر نئے دن کا آغاز
نرخوں اور بے روزگاری میں بڑھوتی کے ساتھ اضافہ میں ہورہا ہے تو بعض اہل
رائے کا یہ خیال ہے کہ مولانا اپنے آذادی مارچ کو چند دن کے لئے موخر کردیں
اور حکومت کو انڈر پریشر رکھیں ۔لاوا جوکہ پک رہا ہے اسے مزید پکنے دیں
۔اپنے پروگرام کو ختم نہ کریں کچھ دنوں کے لئے سیاسی چال چلتے ہوئے موخر
کردیں اور اس دوران مارچ کو مزید موثر بنانے کے لئے اپنی تگ ودو جاری رکھیں
۔اب ان کے ساتھ پاکستان مسلم لیگ (ن) ،پاکستان پیپلز پارٹی ،اے این پی ہیں
چند دن اگر حکومت کی کارکردگی ایسے ہی روبہ زوال رہی اور دیگر جماعتوں کے
علاوہ ،تاجر ،صنعت کار ،زمیندار ،کسان ،مزدور بھی ان کے ساتھ ہوں گے کیونکہ
حکمرانوں نے کسی بھی طبقے کو نہیں بخشا ہے۔بہر حال یہ ایک رائے ہے حتمی
فیصلہ تو مولانا ہی نے کرنا ہے بہر حال یہ امر تو طے ہے کہ عوام کے صبر کا
پیمانہ اب لبریز ہوچکا ہے ۔لوگ جھولی اٹھا اٹھا کر موجودہ حکمرانوں اور
کرپٹ سسٹم ،پولیس ،مقتنہ ،انتظامیہ کو بددعائیں دینے میں مصروف ہے ۔انصاف
،احتساب ،جانب داری اور کرپشن کا گڑھ بنے ہوئے ہیں ۔بیرونی اور اندرونی طور
پر ہم ناکام خارجہ پالیسی کے باعث تنہائی کا شکار ہیں ۔بیرونی قرضوں میں
اضافہ کے ساتھ ساتھ افراد زر میں اضافہ اور اب آئی ایم ایف نے واپڈا اور
گیس کے محکمہ جات کا کنٹرول بھی حوالے کرنے کا مبینہ مطالبہ کیا ہے ۔حکومت
کے اربوں روپے قرضے معاف کروانے والوں اور واپڈا کے بقایا جات کی مدد میں
اداروں کے ذمہ ہیں لیکن تمام تر بوجھ عام لوگوں پر ڈال دیاگیا ہے ۔حکومت نہ
تو اپنے لاسز کنٹرول کرنے میں مخلص ہے اور نہ ہی بقایا جات کی وصولی اور
غیر جانبدارانہ احتساب میں ،ایسے حالت میں گرتی ہوئی دیوار کو خود ہی گرنے
دیں ،مولانا کا رچ کہیں انہیں سیاسی شہید نہ بنادے ۔پاکستان میں عدل مساوات
،ذہنی ہم آہنگی ،مشترکہ اجتماعی سوچ کا مطالبہ ہر ذی شعور کرتا چلا آرہا ہے
لیکن بدقسمتی سے بائیس کروڑ عوام زبان ،رنگ ،قومیت ،علاقائیت ،نسل ،مذہب
،فرقے کے نام پر تقسیم در تقسیم ہوتی گئی اور اب بھی مزید ہوتی چلی جارہی
ہے ۔عمران خان اور ان کی جماعت کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے کم از کم
ایک چیز میں تمام بائیس کروڑ عوام میں ہم آہنگی پیدا کردی ہے اور وہ ہے
پریشانی ،گزشتہ چودہ ماہ کی عمران حکومت کی کارکردگی نے 97 فیصد طبقے کو
اجتماعی طو رپر ایسے مشکلات ،پریشانیوں میں گھیرا ہے کہ اب ہر شخص اپنی
بقاء کی جنگ لڑنے میں مصروف ہے کہ کیسے اس ظلم کدے سے چھٹکارا حاصل کیا
جائے ۔کیسے دووقت کی روٹی کے حصول اور اپنی جان مال ،عزت ،کاروبار کی حفاظت
کی جائے جب حکمران کسی کو جوابدہ نہ ہوں ،احتساب اور انصاف فراہم کرنے والے
محکمے ذاتی پسند وناپسند اور پریشر کا شکار ہوں ،کرپشن ،اقربا پروری کا
جادو سر چڑھ کر بو رہا ہو ،حکمران ،ان کے حلیف نیرووالی بانسری بجانے میں
مصروف ہوں وہ عوام کے دکھ درد سے نہ صرف غافل بلکہ دیکھنے اور سننے کی
صلاحیت سے بھی محروم ہوچکے ہوں تو پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ تنگ آمد بجنگ
آمد کے مصداق عوام حکمرانوں اور کرپٹ نظام کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے
کے لئے سڑکوں پر نکلتے ہیں اسے کسی بھی رہبری کی ضرورت نہیں ہوتی اور پھر
انہیں کنٹرول کرنا کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی ۔میں یہ تحریر لکھ رہا تھا
کہ بجلی کے نرخ میں دو روپے یونٹ اضافے کی خبر آپہنچی گزشتہ سال جن لوگوں
کے بجلی کا بل ماہ اکتوبر میں دس ہزار روپے آتا تھا وہ بیس ہزار کا ہوگیا
،گیس کے بل بھی دگنے ہوگئے ،پیٹرول ،ڈیزل ،اشیاء خوردنی اور دیگر ضروریات
زندگی خاص کر سبزی ،دال ،گوشت ،چاول ،مصالحہ جات کے نرخوں میں کئی گنا
اضافہ ہوگیا ۔تعلیمی ،سفری اخراجات بڑھ گئے لیکن حکمران صرف گزشتہ ادوار کو
کوسنے اور احتساب ،احتساب کا نعرہلگارہے ہیں حالانکہ پی ٹی آئی کے تیرہ ماہ
کے دوران کرپشن جس طرح پروان چڑھ رہی ہے اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی
،تمام ترقیاتی کاموں میں رنگ سسٹم ،کمیشن مافیا سرگرم ہے ۔کام انتہائی غیر
معیاری اور تاخیر سے سرانجام پارہے ہیں ۔پولیس کا نظام کرپشن کی آخری حدوں
کو چھورہا ہے ۔پنجاب میں تبادلوں ،تقرریوں میں کرپشن کا مبینہ الزام ٹی وی
چینلز اینکر ز دے رہے ہیں ،خیبر پختونخوا کی پولیس کو غیر سیاسی کرنے، اسے
کرپشن سے پاک کرنے کا بڑا چرچا تھا یہ کسی حد تک سابقہ پانچ سالہ دور میں
جو کہ پرویز خٹک کا تھا سابق آئی پی ناصر درانی کی بدولت ممکن بھی ہوا لیکن
اب تو براحال ہے ۔تھانوں میں ایس ایچ او درخواستوں پر توجہ نہیں دیتے
۔ایرانی پیڑول کی سمگلنگ ،جواء ،قماربازی ،منشیات کا کاروبار عام ہے ۔اوپر
سے آئے روز ٹریفک حادثات ،ٹارگٹ کلنگ ،چوری ،ڈکیتی کی وارداتوں نے پولیس کی
کارکردگی پر سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے۔
|