مولانا کا آزادی مارچ رواں دواں ہے۔پنجاب میں مسلم لیگ
(ن) کے کارکنوں نے مولانا فضل الرحمان اور مارچ کا استقبال صرف استقبال تک
ہی محدود رکھا ہے ،مارچ میں شرکت نہیں کی گئی۔ہر جانب یہ سوچ پروان چڑھ چکی
ہے کہ آزادی مارچ سے کیا حاصل ہوگا․․؟کیا ملک میں پھیلی اضطرابی کیفیت ختم
ہو جائے گی․․․معاشی صورت حال بہتر ہو گی․․․صحت ،تعلیم ،معیشت،بے روزگاری
،مہنگائی اور ملکی سالمیت کے گرد منڈلاتے خطرات مدہم پڑ جائیں گے ․․؟ایسے
کئی سوالات ہر فرد کے ذہنوں میں گونج رہے ہیں ۔
مولانا فضل الرحمان کی پالیسی صاف شفاف ہے ،وہ موجودہ حکومت کو
’’چلتا‘‘کرنا چاہتے ہیں۔مولانا نے مارچ کے شرکاء سے خطاب میں بار بار عوام
کو خوش خبری دے دی کہ موجودہ نا اہل حکومت جا رہی ہے ،لیکن یہ ایک اعصاب کی
جنگ ہے ،اسے کون جیتے گا،یہ آنے والا وقت بتائے گا ۔حکومت کے پاس صرف فوج
کی مدد ہے ۔جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جمہوریت پسپا ہو چکی ہے ۔عمران خان
کا رویہ بھی سابقہ وزراء اعظم جیسا ہے ۔وہ استعفا دینے کے موڈ میں نہیں ہیں
۔حالاں کہ اپوزیشن کے دور میں عمران خان بار بار بیان دیتے رہے ہیں کہ اگر
عوام مجھے کہتی تو میں ایک منٹ میں استعفا دے کر گھر چلے جاتا ،مگر اقتدار
کی کرسی میں اتنی کشش ہوتی ہے کہ کسی کا اسے چھوڑنے کو دل نہیں کرتا۔چناں
چہ عمران خان اقتدار کی کرسی کو کیسے چھوڑ سکتے ہیں؛ابھی تک اُنہیں یقین ہی
نہیں آرہا کہ وہ وزیر اعظم بن چکے ہیں ۔دوسری جانب مولانا آزادی مارچ بھی
کسی خفیا طاقت کے بغیر نہیں کر سکتے جب کہ مولانا فضل الرحمان آزادی مارچ
کے ساتھ ساتھ ملکی سیاست کا محور اور حکومت کے لئے بڑا خطرہ بن چکے ہیں
۔آزادی مارچ پُر امن طریقے سے منازل طے کر رہا ہے۔
آزادی مارچ کی کامیابی کا تمام تر سہرا حکومت پر ہے ۔کیوں کہ بجلی ایک روپے
66پیسے فی یونٹ اور مہنگی ہو گئی،پاکستان کے قرضوں کو بے دریگ بڑھایا جا
رہا ہے ،لیکن اس کی واپسی کے لئے اپنے وسائل پیدا نہیں کیے جا رہے ۔جب سے
تحریک انصاف نے اقتدار سنبھالا ہے ،حکومت عوام کے بنیادی نوعیت کے مسائل حل
نہیں کر سکی ہے ۔ایک کے بعد ایک بحران سر چڑھ کر بول رہا ہے۔تاجر شٹر ڈاؤن
کر رہے ہیں ۔حکومت نے ان کے مسائل کم کرنے کی بجائے دن بدن بڑھائے ہیں ۔ملک
میں فیصلے کون کر رہا ہے کسی کو کوئی خبر نہیں،کئی فیصلوں کو وزیراعظم
کیبنٹ میٹنگ میں بے وقوفانا کہ چکے ہیں۔ایسے ہی چند فیصلوں نے ٹیکسوں اور
پیچیدگیوں نے ملکی کاروبار کو مشکل ترین کر دیا ہے۔آل پاکستان انجمنِ
تاجران کے 41لاکھ ممبران ہیں ۔جن میں زیادہ تر اَن پڑھ ہیں،اس صورت حال کو
دیکھتے ہوئے سابق وزیر خزانہ اسد عمر نے ٹیکس ریٹرن کا ایک سادہ فارم اردو
اور مقامی زبانوں میں تیارکروایا تھا ،مگر ان کے بعد وہ فارم کہیں رکھ دیا
گیا ،حالاں کہ تاجر برادری ٹیکس کی رقم میں اضافے پر پریشان نہیں بلکہ
حکومت کے ٹیکس وصولی کے طریقے کار پر نا خوش ہے،کیوں کہ وہ اس حقیقت سے
آشنا ہیں کہ حکومت تاجروں کو اپنا سہولت کار بنا کر صنعت کاروں تک پہنچنا
چاہتی ہے۔
کرپشن کا آلاپ ہانکنے والوں نے کرپشن بڑھائی ہے ۔کہنے کے باوجود ایف بی آر
کے محکمے میں اصلاحات نہیں لائی گئی ،دنیا میں کہاں خریدار سے اس کا شناختی
کارڈ مانگا جاتا ہے ؟اگر یہ سمجھا جاتا ہے کہ صعنت کار 10کنٹینر کی بجائے
دو ظاہر کرتا ہے لیکن اس ہیرا پھیری میں ایف بی آر کا اہکار شامل ہوتو ہی
ایسا ممکن ہوسکتا ہے ۔اگر ہمارے ملک میں آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کی
شرائط پر معیشت چلانا مجبوری ہے تو حکومت عوام کو کھل کر بتائے اور ایف بی
آر میں اصلاحات لاکر 41لاکھ تاجر گھرانوں کے نان نفقہ کا تحفظ کیا جائے ۔اس
ملک میں ویسے ہی باقی ماندہ عوام کے اعلٰی تعلیم یافتہ نوجوان بے روزگار
اور حکمرانوں کے منظورِ نظر بڑے عہدوں پر انجوئے کر رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ
اتنی جلدی سیاسی جماعتیں حکومت کے خلاف احتجاج کرنے کی پوزیشن میں آچکی ہیں
۔
عوام کی فلاح و بہبود کا کسی کو فکر نہیں ۔ڈاکٹرز نے 21ٹیچنگ ہسپتالوں میں
ہڑتال کر رکھی ہے ۔ان ہزاروں مریضوں کا کسی کو خیال نہیں ہے،جو زندگی موت
کی کشمکش میں مبتلا بے یارو مدد گار پڑے ہیں۔عوام سمجھتی ہے کہ ڈاکٹروں کے
ساتھ اس حکومت نے انتہائی زیادتی کی ہے ،مگر ہر معاملے میں حکومتی ہٹ دھرمی
آڑے آ رہی ہے۔عمران خان سستی روٹی کے خلاف گلا پھاڑ کر بیانات دیتے تھے اور
خود لنگر خانوں اور پناہ گاہوں کے افتتاح کر کے معرکہ عظیم کر رہے ہیں
۔سستی روٹی تو پھر غریب کے لئے باعزت حصولِ خوراک کا سستا ذریعہ تھا ،مگر
لنگر خانوں میں کتنے لوگوں کا پیٹ بھرو گے ۔عوام کو فقیر بنانے کا پروگرام
نہیں بلکہ اپنے ہاتھوں سے رزق حلال کما کر پیٹ پالنے کا شعور اور ماحول
دینا ضروری تھا۔اس کے لئے پرائیوٹ انڈسٹری ،سمال بزنس ،منیفکچر انڈسٹری اور
صنعت کو ترقی دینے کے لئے ایمرجنسی پروگراموں کی ضرورت تھی ،لیکن وہی جھوٹے
وعدے اور بیانات پر اکتفا کیا جا رہا ہے ۔آپ کے پچاس لاکھ گھر اور کروڑ
نوکریاں کہاں گئی ہیں ۔سی پیک ایک امید تھی ،اس میں حکومتی کاہلی مجرمانہ
غفلت کا ثبوت ہے ۔کیونکہ بھارت ،امریکہ اور اسرائیل منصوبے کی کمر توڑنا
چاہتے تھے ۔کشمیر کے حوالے سے جو کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا وہ عمران خان
اور ان کے اتحادیوں نے کر دکھایا ۔اب صرف واہ ویلا کیا جا رہا ہے۔غلط
پالیسیوں کی وجہ سے بیرونی محاذوں پر پاکستان کمزور تر ہو چکا ہے ۔خارجی
حوالے سے ناقص کارکردگی کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت
پاکستان کو دہشت گرد ریاست ثابت کرنے اور ایف اے ٹی ایف کے ذریعے بلیک لسٹ
کرانے کے لئے تمام حدود پار کر چکا ہے ۔
ان حالات میں ملک کو بچانا ضروری ہے ۔عمران خان کی حکومت کسی طور پر صلاحیت
نہیں رکھتی کہ اتنے بڑے مسائل کو حل کر سکے ۔یہ حکومت صرف بیان بازی،گالی
گلوچ،مخالفین سے انتقامی کارروائیاں اور عوام کو صبر کی تلقین کر سکتے
ہیں۔ملک میں زیادہ تر عوام کی دل کی آواز ہے کہ یہ حکومت جلد از جلد اپنے
انجام کو پہنچے ۔احتجاجی جلوس،ریلیاں اور دھرنے ملک ،اداروں اورمعیشت کو
کمزور کرنے کے سوا کچھ نہیں ہیں،لیکن مولانا فضل الرحمان اپنے اسلام آباد
کے جلسہ میں عمران خان اور بعض نا پسندیدہ گروہوں کے گٹھ جوڑ کا راز کھولنے
کا ارادہ رکھتے ہیں،وہ حکومت کے خلاف مذہبی کارڈ کا بھی بھرپور استعمال
کریں گے ،وزیر اعظم کا استعفا اور نئے انتخابات کا مطالبہ کیا جائے گا۔
حکومت اور مقتدر اداروں کو ملکی مفاد میں سوچنا چاہیے ۔کب تک عوام کو بے
خبر رکھنے کی روش کو اپنایا اور اپنے ذاتی مفادات کا تحفظ کیا جاتا رہے
گا۔حکمران یا حزب اختلاف سب نے عوام کے ساتھ دل کھول کر غلط بیانی کی اور
اہم فیصلوں کی حقیقت سے آشنا ہونے دیا۔سب سے بڑی بدقسمتی ہے کہ ہمارے ہاں
سیکھنے سیکھانے کا رواج ختم ہو چکا ہے۔چناں چہ سیاست دان طبقے میں بھی
تربیت کا فقدان ہے ۔کیونکہ یہاں کوئی سیاسی تربیت کا نظام نہیں اور جب
انہیں موقع ملتا ہے، وہ سیکھنے کی طرف توجہ نہیں دیتے ۔یہی وجہ ہے کہ بار
بار سنگین غلطیاں سرزد ہوتی ہیں۔اسی لئے پھرحکمرانوں کو یو ٹرن لینا پڑتے
ہیں یا کہنا پڑتا ہے کہ میرا کہا ہوا کوئی ’’حدیث ‘‘نہیں ہے۔ جب تک حکمران
تدبر،بردباری،سنجیدگی اور حقائق کو مدِ نظر رکھ کر فیصلے نہیں کریں گے اور
سچ کی پالیسی کو نہیں اپنائیں گے ،اپنے مفادات کو بالائے طاق کر کے عوام کے
فلاح وبہبود کا نہیں سوچیں گے،کامیابی ممکن نہیں،کیوں کہ اب حکومت کے پاس
غلطی کی چھوٹی سی بھی گنجائش نہیں بچی ہے۔وزیر اعظم میں کوئی لچک نہیں ہے
وہ پکڑو و مارواورسختی کرو کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں۔حالاں کہ یہ ممکن
نہیں کہ حکومت ہٹھ دھرمی اور پتھر جیسی سختی کا مظاہرہ کرے اور معاملات کو
سیاسی طور پر حل کیے جا سکے۔وزیر اعظم کا بیان کی حد تک تو ایک ہی مؤقف ہے
کہ کرپشن ختم کرنا ہے ،لیکن تمام اقدار تہس نہس کرنے کے باوجود کرپشن ختم
نہیں ہوئی،بلکہ بڑھ گئی ہے۔کرپشن ختم کرنے کے لئے کوئی سنجیدہ عملی قدم نظر
نہیں آیا،ملک بھر میں چھوٹی سے بڑی سطح تک رشوت کے بغیر کوئی کام ممکن نہیں
ہے۔عمران خان کو یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ اصلاحات ایک دم سے نہیں ہوجایا
کرتیں،اس پربتدریج کام کرنا پڑتا ہے۔عمران خان چین اور سعودی عرب کے سخت
قوانین اور سزاؤں کی بار بار بات کرتے ہیں،لیکن وہاں بھی کرپشن اسی طرح
جاری ہے ۔چین اس کرپشن کے باوجود دنیا کا نمبر ایک معاشی طاقت بن چکا ہے
۔کرپشن کرپشن کی مالا آلاپنے سے ترقی کا عمل تیز نہیں ہوتا بلکہ ملک میں
بہتر ماحول پیدا کرنے،بیوروکریسی کو درست سمت پر کام کروانے سے ملکی ترقی
ممکن ہے ۔کیوں کہ اسی طرح آمدنی میں اضافہ اور کاروبار میں فروغ ملے گا۔اب
دیکھنا ہے کہ بازی کس کے ہاتھ لگتی ہے،لیکن اگرعمران خان مولاناکے آزادی
مارچ ، حزب اختلاف اور عوام کے احتجاج و حوادث سے بچ گئے تو انہیں اپنا
رویہ درست کرنا ہوگا اور اپنے آپ میں لچک پیدا کرنا ہو گی ۔
|