یمن کی آئینی حکومت اور جنوبی یمن کی علیحدگی پسند عبوری
کونسل کے درمیان ریاض میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان، ابوظبی کے
ولی عہد شیخ محمد بن زاید اور یمنی صدر عبدربہ منصور ہادی کی موجودگی میں
معاہدے پر دستخط ہو گئے ہیں۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے تقریب
سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’سعودی عرب جی جان سے یمن کا اتحاد اور استحکام
چاہتا ہے۔ ریاض معاہدے سے مطلوبہ سیاسی حل کے راستے کھلیں گے۔ہم یمنی عوام
کی امنگیں پوری کرنے اور سیاسی حل تک رسائی کی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ ہم نے
یمنی فریقین کے درمیان اختلافات دور کرنے کی کوشش کی، ہمارا مقصد یمنی عوام
کی مدد اور بیرونی طاقتوں کو یمن کے داخلی امور میں مداخلت سے روکنا
ہے۔ابوظبی کے ولی عہد شیخ محمد بن زاید نے کہا کہ ’یمنی فریقین کو صف بستہ
کرنے اور ریاض معاہدہ کرانے کے لیے کلیدی کردار ادا کرنے پر برادر ملک
سعودی عرب کی عظیم الشان ثالثی کو سلام پیش کرتا ہوں۔ ہماری دلی آرزو ہے کہ
یمن کے چپے چپے پر امن و سلامتی کا دور دورہ ہو اور یمنی عوام امن، استحکام
اور ترقی کی نعمتوں سے مالا مال ہوں۔امارات کے وزیر مملکت برائے خارجہ امور
انور قرقاش نے کہا کہ ریاض معاہدہ صحیح معنوں میں تاریخی معاہدہ ہے۔ انہوں
نے صدر عبدربہ منصور ہادی کی حکومت کی مدد کے سلسلے میں سعودی عرب اور
متحدہ عرب امارات کے پرعزم فیصلے اور فیصلہ کن کردار کا خاص طور پر تذکرہ
کیا۔فریقین کے درمیان اصولی معاہدہ کئی روز قبل طے پا گیا تھا اور منگل کو
اس پر دستخط کی رسم ادا کی گئی۔ریاض معاہدے میں اس عزم کا اظہار کیا گیا ہے
کہ تمام فریقین سعودی عرب کی زیر قیادت عرب اتحاد کے ذریعے ایران کے حمایت
یافتہ حوثیوں کی بغاوت کچلنے کے لیے مل کر جدوجہد کریں گے۔ القاعدہ اور
داعش جیسی تنظیموں کا مل کر مقابلہ کیا جائے گا۔ریاض معاہدے میں اس امر کا
بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ جنوبی یمن کی عبوری کونسل کو حتمی سیاسی حل کی
مشاورت کے لیے سرکاری وفد میں شامل کیا جائے گا۔ یہ بھی طے پا گیا ہے کہ
یمن کی نئی حکومت زیادہ سے زیادہ 24 وزرا پر مشتمل ہو گی۔ وزراء کا انتخاب
متعلقہ شعبے کے لیے مہارت کی بنیاد پر کیا جائے گا۔ صدر ہادی، وزیراعظم اور
دیگر سیاسی فریقین کے ساتھ مل کر وزراء کا تقرر کریں گے۔کابینہ کے 50 فیصد
قلمدان جنوبی عبوری کونسل کو دیے جائیں گے۔ کابینہ کی تشکیل معاہدے پر
دستخط کے 45 دن کے اندر اندر ضروری ہو گی۔ریاض معاہدے میں یہ بھی واضح کر
دیا گیا ہے کہ یمنی حکومت معاہدے پر دستخط کے زیادہ سے زیادہ سات روز کے
اندر یمن کے عارضی دارالحکومت عدن منتقل ہو جائے گی اور سرکاری کام عدن ہی
سے انجام دے گی۔
یمن کی قانونی حکومت اور جنوبی عبوری کونسل نے ’الریاض سمجھوتے‘ پر دستخط
کردیے ہیں۔ فریقین میں یہ سمجھوتا سعودی فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز
اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی نگرانی میں مذاکرات کے کئی ادوار کے
بعد طے پایا ہے۔یمنی صدر عبد ربہ منصور ہادی کی حکومت اور جنوبی عبوری
کونسل کے درمیان اس سمجھوتے کے تحت ان کی عمل داری میں گورنریوں کے درمیان
تعاون کو مربوط بنایا جائے گا۔ یہ دونوں فریق ایران کی حمایت یافتہ حوثی
ملیشیا کے مخالف ہیں اور عرب اتحاد کے شانہ بشانہ اس کے خلاف لڑائی میں
شریک ہیں۔اس سمجھوتے کے اہم نکات یہ ہیں، سات روز میں یمن کی قانونی حکومت
کی جنوبی شہر عدن میں واپسی ہوگی۔ وزارت داخلہ اور دفاع کے تحت تمام فوجی
اداروں کا مجتمع کیا جائے گا اورایک مؤثر حکومت قائم کی جائے گی۔ اس حکومت
میں شمالی اور جنوبی یمن کو یکساں نمایندگی دی جائے گی۔
سعودی عرب کے نائب وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان نے باور کرایا ہے کہ
ریاض معاہدے کا سہرا مملکت کی ان کوششوں کے سر ہے جو وہ ولی عہد شہزادہ
محمد بن سلمان کی قیادت میں یمن میں امن و استحکام اور ترقی کو یقینی بنانے
کے واسطے کر رہی ہے۔ شہزادہ خالد بن سلمان نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ سعودی
عرب یمنی صدر، یمنی حکومت کے وفد اور جنوبی عبوری کونسل کے مثبت جواب کو
قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے جنہوں نے یمنی عوام کے مفاد کو ہر اعتبار سے
فوقیت دی۔بن سلمان نے ریاض معاہدے تک پہنچنے کے سلسلے میں متحدہ عرب امارات
کے مثبت کردار کو بھی سراہا۔سعودی نائب وزیر دفاع نے کہا کہ ہم اﷲ سے دعا
گو ہیں کہ یہ معاہدہ ایک نئے صفحے کا آغاز ثابت ہو جس تحت یمن کے تمام
فریقوں کے بیچ سچائی پر مبنی مکالمہ سامنے آئے تا کہ ایک سیاسی حل تک پہنچا
جا سکے اور یمن کا بحران اختتام کو پہنچے۔
سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے متحدہ عرب امارات کے ولی عہد
الشیخ محمد بن زاید آل نھیان اور یمنی صدر عبد ربہ منصور ھادی سے یمن میں
عبوری کونسل اور حکومت کے درمیان طے معاہدے پر بات چیت کی۔ ملاقات کے دوران
انہوں نے یمنی محاذ جنگ کی تازہ ترین صورت حال پربھی تبادلہ خیال کیا اور
یمن کی سلامتی اور استحکام کے حصول کے لیے ریاض معاہدے تک پہنچنے کے لیے کی
جانے والی کوششوں کی اہمیت پر زور دیا۔ اس موقعے پر یمنی صدر عبد ربہ منصور
ھادی نے عبوری کونسل اور حکومت کے درمیان مصالحتی معاہدہ کرانے سعودی قیادت
بالخصوص خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز اورولی عہد شہزادہ
محمد بن سلمان کی مساعی کو سراہا۔سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے
کہا کہ یمنی حکومت اور جنوبی عبوری کونسل کے مابین ریاض معاہدہ یمنی عوام
کی فتح اور جنگ زدہ ملک کے امن استحکام کے لیے نقطہ آغازہے۔ خادم الحرمین
الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی ہدایت اور ان کی سرپرستی میں یمنی
بھائیوں کے مابین پائے جانے والے تنازعہ کو دور کرنے کے لیے تمام تر کوششیں
بروئے کار لائی گئی ہیں۔
وزیراعظم پاکستان عمران خان کی طرف سے سعودی عرب کے شہر ریاض میں یمن میں
قیام امن کے معاہدے کو سراہا گیا ہے.وزیرا عظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہم
ریاض کے امن معاہدے کو خوش آمدید کہتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ ریاض
معاہدہ جسے سعودی عرب کی قیادت نے پایا تکمیل تک پہنچایا ہے اور متحدہ عرب
امارات کی حمایت حاصل ہے ، علاقے میں پائیدار امن کی طرف اہم قدم ہوگا ،
اور اس سے خطے کے تنازع کو سیاسی طورپر حل کرنے میں مدد ملے گی۔اقوام متحدہ
نے بھی یمن کے امن معاہدے پر اپنا تبصرہ کرتے ہوئے ریاض معاہدہ کو خوش آئند
کہا ہے . یمن کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی مارٹن گریفتھس کا کہنا ہے
کہ یمنی حکومت اور جنوبی عبوری کونسل کے درمیان منگل کے روز ریاض معاہدے پر
دستخط یمن میں تنازع کے پْر امن تصفیے تک پہنچنے کی کوششوں کے حوالے سے ایک
اہم اقدام ہے۔
حوثی باغیوں کی جانب سے سعودی عرب کے امن کو متعدد بار تباہ کرنے کی مذموم
کوشش کی گئی،سعودی عرب اور پاکستان میں دہشت گردی امت مسلمہ کو کمزور کرنے
کی سازش ہے،سعودی عرب اور پاکستان کا امن،سلامتی،دفاع ایک ہیں،مسلمانوں کی
ایٹمی قوت پاکستان اور روحانی مرکز ارض حرمین شریفین کو کمزور کرنے کا مقصد
مسلمانوں کی وحدت اور اتحاد کو ختم کرنا ہے، امت مسلمہ کے خلاف سازشوں کا
باہمی اتحاد سے مقابلہ کرنا ہو گا۔دہشت گرد اور انتہاء پسند پاکستان
اورسعودی عرب میں شام ، عراق ، یمن کی طرح فرقہ وارانہ تشدد چاہتے ہیں،
باہمی اتحاد سے اس سازش کو ناکام بناناہے۔ پاکستان کی سیاسی ، عسکری اور
مذہبی قیادت نے ہمیشہ ارض حرمین شریفین کی سلامتی ، استحکام اور دفاع کیلئے
سعودی عرب کو مکمل تعاون کا یقین دلایا ہے،سعودی عرب اور پاکستان کا رشتہ
عقیدہ اور ایمان کا رشتہ ہے ، پاکستان اور سعودی عرب کا اسرائیل سے کوئی
رابطہ اور تعلقات نہیں ہیں، فلسیطنی مظلوموں کی جدوجہد میں اہل پاکستان اہل
فلسطین کے ساتھ ہیں اور الاقصیٰ کی آزادی چاہتے ہیں، کشمیر اور فلسطین کی
عوام کو ان کا حق ملنا چاہیے اور اس کیلئے ہر مرحلہ پر پاکستان کی عوام اور
کشمیریوں اور فلسطینیوں کے شانہ بشانہ ہیں۔
|