قوم سے مراد افراد کا ایسا مجموعہ ہے جو مشترکہ مقاصد اور
احساسات کیوجہ سے متحد ہوا ہے گویا قوم ایک ایسی آبادی ہے جو زبان ،افکارورسم
رواج کی بنیاد پرمتحد ہوکر ایک وحدت بن جائے جب تک کسی گروہ کے افراد میں
مشترکہ روایات مشترکہ مذہب اور سب سے بڑھ کر مشترکہ احساس اجتماعیت نہ پایا
جائے تو اس میں جذبہ قومیت پیدا نہیں ہوسکتا اور نہ ہی وہ متحد ہوکر رہ
سکتے ہیں پھر ایک ہی صدا قلب سے نکلتی ہے تجربہ گاہ بنادیا ہے میرے وطن کو
طفل مکتب طرز فکر نے پاکستان میں حقیقی تبدیلی ہربار مصنوعی تبدیلیوں کے
ساتھ مختلف اشکال میں آتی رہی اور قوم یہ سمجھتی رہی کہ یہ جانے والی
تبدیلی کے بعد آنے والی نئی تبدیلی شاید اب حقیقی اور استحکامی ہوگی ٹکروں
میں بٹی منسقم قوم مختلف سیاسی خانقاہوں فیض مصنوعی حاصل کرتی رہی جس میں
سے اشرافیہ پر مشتمل قوم بنیادی حقوق سے محروم قوم کو احساس محرومی میں
مبتلا کرتی رہی سونے پہ سہاگہ اس قوم میں سب سے پہلے جو چیز ختم ہوئی وہ حق
اور بھیک میں تمیز تھی دور قدیم سے دور جدید تک یہ سنتے آئے کہ ایک بہترین
ریاست وہ ہوتی ہے جو اپنی عوام کوبنیادی حقوق انکے صبرختم ہونے سے پہلے
دیتی ہے لیکن کئی برس یہ دیکھنا نصیب نہ ہوا قوم میں حق لینے اور بھیک کا
یہ فرق ختم ہونے سے یہ شعور ختم ہوا کہ اپنے بنیادی حقوق کے لیئے ہم دست
سوالی بنکر کھبی اس در پر اور کھبی کسی در پر جاتے رہے ہمارے تمام ارباب
اختیار ہر لمحے گزرتے اپنی نسلوں کی بقا کو محفوظ (مالی)مقامات پر لے جاتے
رہے اور یہ قوم غربت وافلاس قرضوں میں ڈوبی ہوئی اس اشرافیہ کو مضبوط کرتی
رہی جو قوم کو آئی ایم ایف ،چین ،سعودی عرب،امریکہ کے پاس گروی رکھواتے رہے
اور قوم کی فلاح وبہود پر بات کرنے والے قوم کے ٹیکس پر خود کو اور اپنے
اہل خانہ کو پالتے رہے اور قوم بنیادی سہولیات کو ترستی رہی اشرافیہ اور
سطع غربت کے نیچے حضرات سب کے الگ الگ نظریات ہیں دونوں کے نظریات میں
یکساں تالا بندی ہے لیکن یہاں کسی ایک کو کچھ سہولیات ہیں تو دوسرے کو
احساس محرومی میں مبتلا رکھنا ضروری ہے دلچسپ امر یہ ہے کہ پاکستان میں
سیاسی نظریات کو کسی کے تابع رکھنا ضروری ہوتا ہے یا تو تابع رکھو یا پھر
بھاری قیمت فروخت کردو اور نظریات برائے فروخت کا کاروبار ہمارے ملک سے
بہتر کہیں نہیں ہوسکتا ہے پاکستان میں نظریات کی منظرکشی کی جائے تو مصنوعی
،جبر سے مزین ، خوشامدی نطریات آپکو ہر مارکیٹ میں فروخت ہوئے ملے
گے،پاکستان میں حقیقی تبدیلی 1947ء میں دو قومی نظریہ کی بنیاد پر آئی تو
اندازہ نہیں تھا کہ اتنی بڑی قربانی اور دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت
خونی حقیقی تبدیلی کیصورت میں سامنے آئیگی سلام تحسین وخراج تحسین اس قوم
کو جس نے ہجرت کے وقت بھی قربانیاں دیں اور پاکستانی میں بسنے کے بعد بھی
قربانیاں دیں اور شاید مستقبل میں بھی یہ سلسلہ جاری رہ سکتا ہے اگر خواب
غفلت سے نہیں جاگے توکیونکہ غریبوں کی جنگ لڑتے لڑتے اس اشرافیہ کو امیر
ہوتے دیکھا ہے یہاں یہ بات کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا ہوں کہ
شہیدلیاقت علی خان،محترمہ فاطمہ جناح کے بعد سے پاکستان کے تمام کے تمام
ارباب اختیار نے اس ملک کو کھبی اپنا سمجھا ہی نہیں اور نہ ہی اآج سمجھ رہے
ہیں کیونکہ اس ملک سے اگر پیار ہوتا تو پیارے وطن پر اتنا بڑا قرضہ کھبی
نہیں ہوتا دعوے ،دعوے اور صرف دعوے ہی اس قوم کے نصیب میں تعصب ،ظلم،احساس
محرومی ،انصاف کے نامکمل تقاضے ،اخلاقی تقاضوں فقدان ،معاشرتی برائیوں مقدر
بناکر مسلط کردی گئیں ہیں ترقی یافتہ پاکستان کے سب سے بڑے معاشی حب
شہرقائد کی بات کی جائے تو مسلط کردہ بھانت بھانت کے نظریات نے اس شہر کو
کراچی میٹروپولیٹن سٹی سے ویژن سے عاری شہر میں تبدیل کردیا ہے پورے ملک کو
ریونیو دینے کا صلہ شہر کراچی کو وسائل نہیں دیکر دیا جارہا ہے ،ذرائع
ابلاغ بھی من پسند اپنی سوچ گروی رکھواکر اس شہر کے مسائل کو آدھا ادھورا
عوام الناس کے سامنے پیش کرتے ہیں یعنی کسی کی محبت میں انکی نفرت کا ساماں
ہوجائے شہر قائد کے مسائل کو بیان کرتے وقت بہت ساری باتوں کو کسی سے ڈسکس
کرنا وطیرہ شہرت پانے کا ذریعہ بن چکا ہے آسان الفاظ میں یہ کہہ لیں کہ
ہماری پیاری صحافت بھرپور آزاد ہے لیکن صحافی سونےکے پنجرے میں قید ہے اس
صورتحال میں معاشی تنگ دستی مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئیے صحافتی نظریات
یا تو کسی کی حمایت میں مشروط کردیئے گئے ہیں یا پھر برائے فروخت ہورہے ہیں
قصور پھر ایک بار حقیقی تبدیلی ،غیرمتاثرکن ویژن کسی بھی شعبئہ زندگی سے
وابستہ منتشر سوچوں کا ہے جو اس ملک وشہر کی ترقی میں اپنا کردار ڈالنے کے
بجائے اپنے بینکوں میں ڈال رہے رہے ہیں سب کہتے پاکستان زندہ باد لیکن عمل
زندہ باد کے برعکس ہوتا ہے پاکستان زندہ باد بولنے والے 22کروڑ سے زائد ہیں
اب یہ طے کرنا باقی ہے کس کس کا زندہ باد بولنا قبول ہوتا ہےہم اور آپ
پاکستان زندہ باد بول کر اس پیارے وطن کے لیئے کیا کررہے ہیں ؟ ایک دوسرے
کو غداری کے سرٹیفکٹ دینا ایک دوسرے کی حب الوطنی پر شک کرنا ان انگلیاں
اٹھانا یہ سوچے سمجھے بغیر کہ سامنے والے پر ایک انگلی اٹھاتے وقت بقیہ خود
کی طرف ہوتی ہیں کسی بھی شعبئے سے وابستہ ہمارے درمیان موجود لوگ دوسروں پر
انگلیاں اٹھاتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں انکی اس قابل رحم حالت پر ترس کھا کر
انکی احساس کمتری کو محسوس کرتے ہوئے انکو جواب نہیں دیا جاتا ہے خاموشی
اختیار کی جاتی ہے اور دعا کی جاتی ہے کہ ہدایت عطا فرمادے (آمین) پیارے
وطن میں ہماری قوم کے معصوم ہونے کی اس بڑی بات کیا ہوگی کہ یہاں ہر شخص
ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے لیئے خود کو سب سے بڑا محب وطن ، بڑا اسلامی
،اور نہ کیا کچھ سمجھتا ہے لیکن اس شعر کی عکاسی کرتا کوئی نظرنہیں آتا ،بقول
بہادر شاہ ظفر
نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنے خبررہے اوروں کے عیب وہنر ۔
پڑی اپنی برائیوں پر جو نظرتو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا۔
بات جب پیارے وطن کے قرضوں کی آتی ہے تو نہ جانے کیوں مجھے یہ بڑے بڑے
محلات والے ،بنگلے والے بڑے کاروبار کرنے والے غرض ہر شعبئہ زندگی سے
وابستہ اس انسان کی جو محروم بھی ہے اور جو فیض یاب بھی ہے ان پر ترس آتا
ہے کہ اس قوم کے نام پر گوروں ،آئی ایم ایف اور نہ جانے کتنوں سے قرضے لیکر
غلامی کے طوق ہماری گردنوں میں ڈال دئیے گئے قوم کی اشرافیہ پر مشتمل قوم
کی حالت تو سدھر گئی ،سطع غربت سے نیچے قوم کی حالت جوں کی توں رہی کیونکہ
حالت ان تمام کے تمام کی اچھی ہوگئی جسکو اس قوم نے پیار دیا تھا،اسمبلیوں
میں پہونچانے،قربانیاں دینے کی سزا اس قوم کو لوڈشیڈنگ مہنگائی ،اور نہ
جانے کون کون سے سانحات کیصورت میں دی گئی اور یہ سب حقیقی تبدیلی کیوجہ سے
ہوتا ہے صرف چند نفسیاتی سوچ کے حامل سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ آپ محب وطن
ہیں تو وہ خود زمین وآسمان کے قلابے ملاتے ہوئے زور زور سے چیخ کرکہتا ہے
جی میں ہوں اور بات جب یہ آتی ہے کہ پیارے وطن پر جو قرضے ہیں گوروں کی
غلامی میں زندگی بسرکرتے ہوئے غیرت وحمیت متاثرنہیں ہورہی ہے تو آئن،
بائن،شائن پر مشتمل پورا لیکچر سننا پڑے گا نہ جانے کیوں یہ تاثر مضبوط
ہوتا جارہا ہے حقیقی تبدیلی آپکی جی حضوری ،غلامانہ طرز فکر سے مزین شاندار
طرز زندگی کی اور مستقبل کی ضمانت ہے اس حقیقی تبدیلی کے نام پر پاکستان کو
ہم کہاں سے کہاں لیکر آگئے ہیں ہم اپنی زمہ داریاں نبھانے کے بجائے ہر طرح
سے ہر کوئی مال بنانے میں لگا ہوا ہے ہمکو ہر چھوٹی سی بات پر غصہ آجاتا ہے
ایک دوسرے کی تذلیل کرنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے لیکن واہ
رہے سوئی ہوئی قوم جب امریکی سینیٹر یہ کہتا ہے کہ پاکستانی ڈالر کے خاطر
اپنی (ماں) تک کو بیچ دیتے ہیں کہاں چلی جاتی غیرت وغصہ کیوں انقلابی سوچ
بیدار نہیں ہوتی کیوں ان ارباب اختیار سے سوال نہیں کیا جاتا ہے کہ انہوں
نے اپنی عیاشیوں سمیت اپنے مستقبل کو محفوظ کرنے کے لیئے قرضے لیکر ہمارے
مستقبل کو کیوں غیر محفوظ بنادیا ہے جو حکومت آتی ہے وہ یہ کہ کر جان
چھرالیتی ہے کہ یہ کئی سالوں کا گند ہے پانچ سال میں کیسے دور ہوگا ؟ جب
عوام کو سہولیات نہیں دے سکتے ہو تو پہلے سے دوسری حکومتوں کا گند ہوتے
ہوئے کیوں انتخابات لڑتے ہو کیوں حکومت بناتے ہو ناکارہ ناہل جاہل ذہنی
غلامی سے مزین طرز حکومت کا شوق پورا کرنے کا حوصلہ نہیں ہے تو اس سیاسی
کاروبار سے خود کو الگ کرلو یہ تاویلیں پیش نہیں کرو کہ کئی سالوں کا گند
ہے اتنی جلدی صاف نہیں ہوگا اس گندسے مزین آلودہ نظام کے تحت الیکشن تو لڑ
تے ہو حکومت بھی بناتے ہو لیکن بات جب ملک کو ترقی دینے اور عوام کو ریلیف
دینے کی آتی ہے تو کئی سالوں کا گند یاد آجاتا ہے شاید اسی وجہ سے قلب کی
گہرائیوں سے یہ بات نکلتی ہے تجربہ گاہ بنادیا ہے میرے وطن کوطفل مکتب طرز
فکر پاکستانی سیاست میں خالص حکومت اور خالص اپوزیشن ایک خواب بنکر رہ گئی
ہے اخلاقی اقدار سے محروم اس ملک کے کچھ ارباب اختیار اس صورتحال میں بہت
خوش ہونگے کہ اب بڑے عہدوں کے لئیے صاحب اقتدار کا باکردار ہونا ضروری نہیں
ہے قرضوں میں ڈوبا ہوئے اس ملک کی قسمت کے فیصلے محلات، اونچی پہاڑیوں،وسیع
وعریض بنگلوں میں بیٹھے ہوئے تمام اشرافیہ کرینگے حق وسچ بولنے پر پابندی
بھی قبول ہے بس ایک التجا ہے ان تمام کے تمام ارباب اختیار سے جو قوم کی
قسمت کے فیصلے اندھیروں میں کررہے ہیں اس قوم کو معاشی دہشت گردی سے بچالیں
کسی کی حثیت ختم کرنے کا سلسلہ اس ملک کی عوام کو احساس محرومی کی طرف لے
جارہاہے ورنہ یہ تاثر مزید عوام کے دلوں میں بیدار ہوجائے گا کہ کسی مصنوعی
قیادت سے معاملات کچھ حد تک کنٹرول کیئے جاسکتے ہیں مستقل بنیادوں پر زمینی
حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے اصل قیادت کو سامنے لانا ہوگا اور یہ بات غلط
ثابت کرنی ہوگی کہ
” تجربہ گاہ بنادیا ہے میرے وطن کوطفل مکتب طرز فکر نے“
|