شہریت ترمیمی بل کو کابینہ منظوری نے دے دی ہے ۔ وزیردفاع
راجناتھ سنگھ نے بی جے پی ارکان اسمبلی کو تلقین کی ہے کہ وہ دہلی میں رہیں
کسی بھی وقت اسے پیش کیا جاسکتا ہے۔بی جے پی نے جس طرح بغیر اعلان کے چوری
چھپے کام کرنے کی حکمت عملی اختیار کررکھی ہے اس کے چلتے بعید نہیں کہ جس
وقت یہ مضمون پڑھا جارہا ہو تب تک اسے ایوان زیریں میں منظور ی مل چکی ہو ۔
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایوان بالا میں بھی علاقائی جماعتوں کے تعاون سے اسے
فوراً پاس کرا لیا جائے۔ اس قانون کے تحت پڑوس کے مسلم ممالک میں بسنے والے
غیر مسلموں کو ہندوستانی شہریت دینے کی گنجائش نکالی گئی ہے۔ اس کی دلیل یہ
ہے کہ وہاں ان پر ظلم ہوتا ہے۔ اس موضوع کو زیر بحث لاکر نادانستہ طور پر
حکومتِ ہند نےخود اپنے پیر پر کلہاڑی مار لی ہے کیونکہ جتنے مظالم ہندوستان
کے اندر اقلیتوں پر ہوتے ہیں شاید ہی کسی اور ملک میں ہوتے ہوں۔وزیرداخلہ
کے منہ پرہجومی تشدد کا ذکرکرکے راہل بجاج نے اس کا اعتراف کردیا ہے ۔یہ
عجیب دوہرا معیار ہے کہ ہندوستان کے اندر اقلیتوں پر مظالم کی جب بات ہوتی
ہے توحکومت اس کو داخلی معاملہ کہہ کر رفع دفع کردیتی ہے لیکن دوسرے ممالک
کا یہی مسئلہ عالمی بن جاتا ہے۔
اس حقیقت سے انکار ناممکن ہے کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ نقل مکانی کسی
تعذیب کے چلتے نہیں بلکہ معاشی خوشحالی کی خاطر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وطن
عزیز سے مشرق وسطیٰ ، مشرق بعید ، آسٹریلیا ، یوروپ اور امریکہ میں جاکر
بسنے والے ہندوستانیوں کی تعداد تین کروڈ دس لاکھ ہے۔ دنیا بھر میں نقل
مکانی کرنے والوں کی یہ سب سے بڑی تعداد ہے ۔ یہ پڑھے لکھے لوگ ہندوستان
چھوڑ چھوڑ کر جارہے ہیں۔ ان میں بڑی تعداد ہندو باشندوں کی ہے ۔ اس کمی کو
پورا کرنے کے لیے حکومت پڑوسی ممالک سے لوگوں یہاں لاکر بسانے کی سعی کررہی
ہے لیکن آئے گاکون ؟ ہندوستان سے باہر جانے والوں کی سب سے بڑی تعداد
44لاکھ 20 ہزار امریکہ میں ہے لیکن سعودی عرب میں بھی اکتالیس لاکھ
ہندوستانی ہے۔متحدہ عرب امارات میں اکتیس لاکھ اور ملیشیا میں تقریباً تیس
لاکھ ہے۔ ان کے درمیان مودی جی لمبی لمبی ہانکتے ہیں لیکن انہیں وطن واپسی
کے لیے نہیں کہتے ۔ وزارت خارجہ کے مطابق گیارہ لاکھ ہندوستانی تو پاکستان
میں رہائش پذیر ہیں اور پانچ لاکھ بنگلا دیش میں رہتے ہیں ۔ ان لوگوں کو
واپس آنے کے لیے کسی آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں اس لیے امیت شاہ اگر
انہیں کو واپس لاکر بتائیں تو وہ ان کا بڑا کارنامہ ہوگا۔
دنیا کے کچھ ممالک میں شہریت حاصل کرنا مشکل اور کہیں پر ناممکن ہے۔ یوروپ
وامریکہ میں شہریت مل تو جاتی ہے لیکن اس کے لیے بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں ۔ہندوستانی
شہری ہنسی خوشی ساری صعوبتیں برداشت کرکے وہاں کی شہریت اختیار کرکے اپنی
ہندوستانی شہریت چھوڑ دیتے ہیں ۔ یہ عجب تماشہ ہے کہ ایک طرف حکومت ہند
پڑوس کے ممالک میں رہنے والے غیر مسلمین کو شہریت سے نواز رہی ہے اور دوسری
طرف خود اپنے ملک کے ہندو بڑی تعداد میں ہندوستانی شہریت چھوڑ کر غیر ملکی
بن رہی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں کسی کو شہریت نہیں دی جاتی لیکن مذہب کی بنیاد
پر کوئی تفریق بھی نہیں ہوتی لیکن اگر وہ پابندی اٹھ جائے تو وہاں برسرِ
روزگار لاکھوں ہندو باشندے برضا و رغبت اپنی ہندوستانی شہریت کو تیاگ کر ان
مسلم ممالک کے شہری بن جائیں گے ۔ اس لیے شاہ جی یہ شہریت کا لالی پاپ دکھا
کر اپنے بھکتوں کے سوا کسی کو بہلا نہیں سکتے ۔
2014 کی انتخابی مہم کے دوران مودی جی اعلان کیا کرتے تھے کہ ہم اقتدار میں
آئیں گے توبرین ڈرین (brain drain) نہیں بلکہ برین گین (brain gain) ہوگا۔
دوسروں کے سجھائے ہوئے مکالموں پر اداکاری کرنا بہت آسان ہوتا ہے لیکن ان
کو سمجھنا اور اس مقصد کے حصول کی خاطر محنت و مشقت کرنا مشکل ہوتا ہے۔
مودی جی غالباً وہ نعرہ پوری طرح بھول چکے ہیں اس لیے اب اگر ان سے ’برین
ڈرین‘ کے بارے میں پوچھا جائے تو ان کا برین کام نہیں کرے گا۔ ہندوستان کی
اعلیٰ تعلیم گاہوں سے نکل کر یوروپ اور امریکہ میں تعلیم حاصل کرنا ہمیشہ
ہی باعثِ فخر سمجھا جاتا رہا ہے۔ وہاں جانے والے شاذونادر ہی واپس آتے ہیں
۔ ڈاکٹر ہرگوبند کھرانہ کی چشم کشا مثال سب کے سامنے ہے۔
ڈاکٹر کھرانہ1945 میں ملتان سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے برطانیہ گئے
اور 1948دہلی لوٹےتو انہیں ملازمت نہیں ملی ۔ وہ دوبارہ باہر گئے اور
1966میں امریکی شہریت لینے کے بعد 1968 میں نوبل انعام حاصل کیا۔ مودی جی
اس کے لیے پنڈت نہرو کو موردِ الزام ٹھہرا سکتے ہیں لیکن ابھیجیت بنرجی نے
تو مودی جی کے اقتدار میں آنے کے پانچ سال بعد معاشیات میں نوبل انعام
جیتا ہے۔ وہ اگر امریکہ میں جاکر زوکر برگ کے بجائے بنرجی سے ملتے اور
میڈیسن اسکوائر میں تماشہ کرنے کے بجائے ان کو اپنے ساتھ ہندوستان لاتے تو
ان کے ساتھ ایک نوبل پرائز بھی آتا لیکن جے این یو والوں سے تو سنگھ کو
خدا واسطے کا بیر ہے۔ ان کے بس میں ہوتو اپنے سارے مخالفین کو شہریت سے
محروم کرکے پاکستان بھیج دیں ۔ اپنے شہریوں کوروزوشب پاکستان بھیجنے دھمکی
دینے والے جب باہر والوں کو شہریت دینے کی بات کرتے ہیں تو ہنسی بھی آتی
ہے اور ساتھ میں رونا بھی آتا ہے ۔ شہریت ترمیمی بل کے طلسم سے نکل کر جب
ہندوستان کے عوام اس کی حقیقت سے روشناس ہوں گے تو ان کو فریب دینے والے
سیاستدانوں سے شہریت نہ سہی تو اقتدار ضرور چھین لیں گے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں لوگ ایک ملک سے دوسرے مقام پر معاشی
خوشحالی کے ہجرت کرتے ہیں تو اس بات کی اہمیت بھی بڑھ جاتی ہے کہ ہماری
معیشت کا حقیقت جائزہ لیا جائے ۔ حکومت یا بھکتوں کے علاوہ کوئی اس بات کا
انکار نہیں کرسکتا کہ فی زمانہ ملک شدید معاشی بحران سے دوچار ہے ۔ بی جے
پی رکن پارلیمان ڈاکٹر سبرامنین سوامی ہارورڈیونیورسٹی سے نوبل انعام یافتہ
ماہرین معاشیات کے تحت ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہاں معلم کی ذمہ
داری بھی ادا کرچکے ہیں ۔ ڈاکٹر سوامی نےملک کی معیشت پر تشویش کا اظہار
کرتے ہوئے اپنے حالیہ انٹرویو میں کہا ہےکہ 2014 کے اندر یہ حکومت جن تین
بنیادوں پر قائم ہوئی ان میں سے اول ہندوتوا کا فروغ تھا ۔ دوسرے بدعنوانی
کا خاتمہ اور تیسرے خوشحالی یا ترقی۔ ان کے مطابق ہندوتوا کے علاوہ باقی دو
معاملات میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ۔ جہاں تک’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ کا
تعلق ہےاس نعرے کو دریا برد کردیا گیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ 2019 کے بعد اس
نعرے کو’سب کے ساتھ سب کا وناش ‘ میں تبدیل کردینا چاہیے۔ جس ملک کے اندر
وکاس کے بجائے وناش کا بول بالا ہو وہاؓ بھلا باہر سے کون آکر بسے گا؟
|