ڈیجیٹل ہوتا پاکستان، اور تانیہ ایدروس

پچھلے کچھ دنوں سے ہر طرف سے ڈیجیٹل پاکستان کی آوازیں کانوں سے ٹکرا رہی ہیں، بلکہ جدھر کو نظر اٹھتی ہے اسی کے چرچے ہیں کہ جی اب پاکستان ڈیجیٹل ہونے جارہا ہے۔ اور اس ڈیجیٹل پاکستان کے شور میں جو آواز صاف سنائی دے رہی ہے وہ ہے تانیہ ایدروس، یہ محترمہ ڈیجیٹل پاکستان بنانے میں اپنی توانائیاں اور صلاحیتیں صرف کریں گی۔ اور ان کا تعارف کرواتا جاؤں کہ تانیہ ایدروس کا جو تعارف ابھی تک کہ ہمیں میسر ہوا وہ صرف بقول وزیراعظم پاکستان اور خود ان کے منہ سے ہی سنا ہے، اس کے علاوہ ہمیں کہیں سے بھی ان کا کوئی تعارف میسر نہ ہو سکا۔ اور وہ تعارف یہ ہے کہ تانیہ ایدروس گوگل میں انتہائی اہم عہدے پر فائز تھیں مگر انہوں نے کچھ پاکستانی حکومتی نمائندوں کے کہنے پر اپنی انتہائی شاندار نوکری کے بدلے پاکستان کو ڈیجیٹلائز کرنے کے کام کو ترجیح دی اور ایک شاندار ملازمت چھوڑ کر پاکستان آگئیں۔ اور اس کے علاوہ ان کا کوئی تعارف ہمیں دستیاب نہ ہو سکا جو کہ ہم قارئین کی نذر کر سکتے۔ یہ چند باتیں بھی اگر تانیہ خود یا وزیراعظم ہمیں نہ بتاتے تو شاید ہم ان سے بھی انجان ہی رہتے۔

پاکستان تبدیلی کے بعد اب ڈیجیٹلائزیشن کی جانب بڑھ رہا ہے، پہلے پاکستان کی عوام ابھی تک تبدیلی ہضم نہ کر پائی تھی کہ اب ایک نیا نعرہ اور ایک نیا قدم اٹھا لیا گیا۔ اور اس میں تانیہ ایدروس کو فرائض منصبی سونپ دیے گئے۔ جب تبدیلی کی ہوا چلی تو پاکستان میں اچھے خاصے بڑے اور چھوٹے برج الٹ گئے، لوگ بے روزگار ہوئے، مہنگائی کی شرح، سود کی شرح اور ڈالر میں بے تحاشہ اضافہ ہوا۔ پچھلے دنوں جب وزیراعظم تقریب سے خطاب کر رہے تھے کہ اب ڈیجیٹل پاکستان بنے گا تو ایک سادہ لوح آدمی بیٹھے ہوئے تھے پوچھنے لگے، اب میں ڈیجیٹل پاکستان کا مطلب تو نہیں جانتا مگر بس آپ سادہ لفظوں میں یہ بتائیں کہ پاکستان کے حالات بدل جائیں گے کیا؟ بیروزگاری کم ہوگی، کیا مہنگائی ختم ہوگی؟ تو ان صاحب کی بات سن کر میں خاموش ہو گیا اور کوئی جواب نہ دے پایا، کیونکہ میرے پاس ان کو تسلی دینے کے لئے کوئی جواب نہیں تھا۔ بیچارے پاکستانی عوام غربت اور مہنگائی کے ہاتھوں ستائے ہوئے انہیں کیا غرض ڈیجیٹل پاکستان سے۔

ٹھیک ہے حکومت پاکستان کا یہ احسن قدم ہے انہوں نے جو ڈیجیٹلائزئشن کی جانب اٹھایا۔ مگر یہ اقدام ایک جانب اور پاکستان کے معاشی و معاشرتی حالات ایک جانب، اور پھر اس منصوبہ کی سربراہ تانیہ ایدروس بھی ابھی تک ایک سوالیہ نشان بنی ہوئی ہیں۔ تانیہ ایدروس کے بارے میں تفصیلات جاننا جو کہ ہر پاکستانی کا حق ہے وہ بھی ایک سوالیہ نشان ہی ہیں۔ چلیں عام عوام کو تو تانیہ سے کوئی سروکار نہیں کیونکہ انہیں ڈیجیٹل پاکستان کے منصوبہ سے بھی کوئی سروکار نہیں ہے۔ انہیں صرف اتنا پتا ہے کہ صبح کام پر جانا ہے اور تین وقت کے کھانے کا بندوبست کرکے گھر واپس لوٹنا ہے۔ انہیں ان ڈیجیٹل اقدامات سے کوئی واسطہ نہیں ہے اور نہ ہی انہیں اس جانب کوئی ذوق ہے کہ وہ اس منصوبہ کے بارے میں وزیر اعظم کی تقریر سن کر خوش ہو سکیں۔ اور رہا ان لوگوں کا سوال جو اس متعلق کچھ سوجھ بوجھ رکھتے ہیں وہ بھی اس منصوبے کے متعلق کچھ نہیں جانتے ہیں، اور نہ ہی بیچارے اب تک سمجھ پائے ہیں کہ یہ ایک نیا اقدام کیا ہے۔ بس اتنا ہی ہر ایک کے علم میں بات ہے کہ پاکستان ڈیجیٹل ہونے جارہا ہے اور ایک کوئی خاتون ہیں جو کے اپنی ملازمت ایک بہت بڑے دائرے گوگل سے چھوڑ کر آئی ہیں اور اب وہ پاکستان میں تمام چیزوں کو ڈیجیٹلائز کردیں گی۔

محترمہ تانیہ ایدروس کا گوگل کی نوکری چھوڑ کر پاکستان چلی آنا تو بہت سارے لوگوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے، کہ اتنا بڑا اقدام بقول وزیراعظم وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ ان کی تنخواہ کے چیک میں کتنے صفر تھے وہ چھوڑ کر پاکستان چلی آئیں۔ اور پاکستان کے لئے کام کرنے کو ترجیح دی، کیونکہ وہ پاکستان کے لیے کچھ کرنا چاہتی ہیں۔ انہیں اپنی ذات سے کوئی غرض نہیں ہے نہ انہیں پاکستان سے بڑھ کر اپنا کوئی مفاد عزیز ہے۔ اور بقول خود تانیہ کے وہ گوگل میں بہت بڑے عہدے پر ذمہ داریاں ادا کر رہی تھیں مگر انہوں نے اپنے وطن کے لیے کچھ کرنے کو ترجیح دی اور پاکستان چلی آئیں۔ اب یہ تو ایک طرفہ سوچ ہے جو کہ کسی کو بھی اپنے سحر میں جکڑنے کے لیے کافی ہے، مگر اہل علم و دانش کی سمجھ میں یہ بات بالکل نہیں گھس رہی۔ کیونکہ اگر ہم صرف اور صرف اس بات کو حقیقت مان کر بیان دینا چاہیں تو وہ یہ ہے کہ عالمی اداروں میں پاکستان کی ساکھ پہلے ہی خراب ہے، اور پاکستان کو کوئی بھی عالمی ادارہ ترجیح نہیں دیتا ہے،اور پاکستان کو ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا ہے۔ ایک ہماری بیٹی کسی بڑے عہدے تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی تو بجائے اس سے عالمی سطح پر فائدہ لینے کے اسے ہم واپس پاکستان لے آئے۔ یہ تو ویسی ہی مثال ہے کہ ایک بندہ آئی جی پولیس بن جائے مگر اس کے علاقہ کے لوگ کہیں کے نہ بھائی آپ آئی جی کے عہدے سے استعفی دے کر اپنے علاقے کی خدمت کرنے کے لئے واپس آجائیں اور ایس ایچ او بن کر اپنے علاقے کے عوام کی خدمت کو ترجیح دیں، یہ فیصلہ بھی بالکل ویسا ہی فیصلہ ہے۔ مگر اس فیصلے کے دوسرے پہلو پر جانے کی کوشش کرتے ہیں وہ یہ کہ کوئی بھی ایسا شخص جس کی تفصیلات قوم کے سامنے موجود نہیں ہیں، آپ اسے اتنی اہم ذمہ داری دے رہے ہیں جہاں پر وہ آپ کے قومی ادارے نادرا کے ریکارڈ کو تبدیل کرنے کی بات کرے، اور دوسری جگہ وہ آپ کے نیشنل ڈیٹا بیس میں بھی تبدیلیوں کی بات کرے تو یہ قومی مفاد میں ہرگز بھی نہیں ہے۔ اگر حکومت تمام تر تفصیلات سے آگاہ ہے تو سب کو بھی آگاہ کیا جائے۔

پاکستان میں بھی انتہائی ذہین دماغ موجود ہیں جو پاکستان کے لیے یہ تمام تر ذمہ داریاں بہترین طریقے سے ادا کرسکتے ہیں۔ ضرورت ہے ان کے لیے کچھ کرنے کی اور ان سے وطن عزیز کے لیے کام لینے کی۔ اور عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ بحال کرنے کی، اور بڑے اداروں میں پاکستان کے لوگوں کو بھیجنے کی۔ تاکہ وہ ملک کی ساکھ کو بہتر بنانے میں اپنا بہترین کردار ادا کر سکیں۔
 

Musab Ghaznavi
About the Author: Musab Ghaznavi Read More Articles by Musab Ghaznavi: 16 Articles with 10701 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.