پاکستان بھرکے تعلیمی اداروں میں طلباء یونین اور طلبہ
تنظیموں پر پابندی کو 35 سال بیت چکے ہیں۔ پاکستان میں طلبا ء یونین پر
پابندی ضیاء الحق کے دورمیں 9 فروری 1984ء میں لگائی گئی تھی۔ بعد ازاں
1998ء میں بھی تعلیمی اداروں میں طلباء تنظیموں اور یونینوں پر پابندی
لگانے کا اعادہ کیا گیا تھا۔
1988 ء میں اور بعد میں 2008ء میں طلباء یونین پر عائد پابندی اٹھانے کا
اعلان کیا تھا تاہم اس پر عمل درآمد ممکن نہیں ہوسکا۔ طالب علم اس پابندی
کو طلباء کے خلاف سازش قرار دیتے ہیں۔
اگست 1992ء کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے اصلاح معاشرہ اور قومی حالات کا
جائزہ لینے کے بعد عوام کو ملکی قومی مفادات کے خلاف کاموں کی نشاندہی کرتے
ہوئے جب کہ ان کی روک تھام کے لیے اس وقت کی حکومت کو اپنی قومی ذمے داری
کے تین نکات ٭ اخلاقی تربیت ٭ اجتماعی دباؤ ٭ قانونی پابندی، پر مبنی
سفارشات کے تحت محسوس کیا کہ تعلیمی درسگاہوں میں حصول تعلیم سے زیادہ
سیاست نے ڈیرہ جما لیا ہے تو سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس وقت کی حکومت سے
تعلیمی درسگاہوں میں طلباء کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرنے کی سفارش
کی تھی۔
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ کسی بھی چیز /پالیسی کا غلط استعمال
ناقابل تلافی کا موجب ہوتا ہے۔آج طلباء کا موقف ہے کہ ان کی تنظیموں پر
پابندی عائد کرنا ان کی حق تلفی ہے۔ طلباء کا کہنا ہے کہ طلباء تنظیمیں
طلباء کو شعور وآگہی فراہم کرتی ہیں جب کہ پابندی ان کی صلاحیتوں کو زنگ
آلود کرنے کے مترادف ہے۔
یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ تحریک پاکستان میں طلباء نے بہت کام کیا ہے۔ یہ بھی
سچ ہے کہ طلباء کسی بھی ملک کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔
دُنیا میں موجود ترقی یافتہ اقوام کی تاریخ اُٹھائی جائے تو عیاں ہوتاہے کہ
ان ممالک کی آزادی اور ترقی میں طلبہ کا کردار کتنا کلیدی ہےٗ اور بے شک
طلبہ ہی وہ طبقہ ہے جو اگر کسی کام کو کرنے کے لئے کمرباندھ لے اوراپنے ملک
کی ترقی کا بیڑا اُٹھالے تو اس کو دُنیا کی کوئی بھی طاقت ٗ کوئی بھی باطل
قوت ان کا مقصد حاصل کرنے سے باز نہیں رکھ سکتی۔ دُنیا میں برپا ہونے والے
انقلابات میں بھی طلبہ نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔
اگر تحریک پاکستان پر نظر ڈالی جائے تو واضح ہو تاہے کہ پاکستان کی اس کے
حصول میں اور اُس وقت کی سیاست میں طالبِ علم طبقے کا کتنا اہم اور واضح
کردار ہے۔
آج طلبہ کا ملکی سیاست میں حصہ نہ لینا ایک ایسا خلاء پیدا کردیگا جس کو
اگر تعلیم یافتہ اور اچھے گھرانوں کے طلبہ پُر نہیں کریں گے تو غیر تعلیم
یافتہ اور نا اہل لوگ اس خلاء کو پُر کریں گے جس سے اس ملک کا آنے والا دور
بھی غیر محفوظ ہو جائے گا۔
نوجوان کسی بھی ملک میں ریڑ ھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور یہ نوجوان ہی
ہیں جو ملک و قوم کا اثاثہ ہوا کرتے ہیں۔ جس قوم کے نوجوان شعور کی دولت سے
مالامال ہوں، اس قوم سے دُنیاکی کوئی بھی طاقت مقابلہ نہیں کر سکتی۔
پاکستان دُنیا کا واحد ملک ہے جس میں نوجوانوں کی آبادی 60فیصد سے زیادہ
ہے۔ نوجوانوں میں شعور اور علم کو فروغ دینے کیلئے تعلیمی ادارے قائم کئے
جاتے ہیں۔ یونیورسٹیاں درس و تدریس کیلئے بنائی جاتی ہیں مگر بد قسمتی سے
پاکستان کے تعلیمی اداروں خصوصا یونیورسٹیوں کوچند گروہوں کو مخصوص مقاصد
کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔یونیورسٹیوں میں موجود طلباء تنظیموں کے درمیان
آئے روز لڑائی جھگڑے معمول بن جاتے ہیں۔معمولی چپقلش کی وجہ سے لڑائی شروع
ہوتی ہے اور کئی کئی دن تک لڑائیاں چلتی ہیں جس کی وجہ سے یونیورسٹی کا
معیار بھی گرتا ہے اور طلباء میں خوف و ہراس پیدا ہونے کے علاوہ کئی گھرانے
اجڑ جاتے ہیں۔اداروں ٗ املاک کے نقصان کے علاوہ کئی قیمتی انسانی جانوں کا
ضیاع ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں پُر تشدد تحاریک سے تعلیمی حرج معمول بنا دیا
جاتا ہے۔
طلبا تنظیموں کا مقصد تعلیمی اداروں میں طلبا کے مسائل کیلئے موثر آواز
اٹھانا اور ان کے حل کیلئے ممکنہ جدوجہد کرنا ہے۔ تاکہ یونیورسٹیوں اور
کالجز میں پڑھنے والے طلبا کے مسائل کو حل کروایا جا سکے اور وہ بناء مسائل
کے اپنی تعلیم کو آسانی سے جاری رکھ سکیں۔
مگر ہماراالمیہ یہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں پروان چڑھنی والی طلبا تنظیمیں
اور گروہ مخصوص اورذاتی مقاصد کے حصول کی خاطر ایسی سرگرمیوں میں مصروف ہو
جاتے ہیں جن سے طلباء کے درمیان اخوت و بھائی چارے کی بجاے نفرت کا ماحول
دیکھنے کو ملتا ہے۔
ایک نوجوان طالب علم جب یونیورسٹی میں داخل ہوتا ہے تو اس کے ذہن میں
مستقبل کے خواب ہوتے ہیں کہ ڈگری حاصل کرنے کے بعد ملک و قوم کا معمار بنے
گا لیکن پڑھائی کے دوران غیر نصابی سرگرمیوں کی آڑ میں یہ نوجوان کبھی نشے
کا عادی بن جاتا ہے اور کبھی مخصوص مقاصد کے حصول میں مصروف تنظیموں کے
ساتھ مل کر قاتل یا مقتول کے عہدے پر فائز ہو جاتا ہے۔ والدین کو اپنی
اولاد سے بہت امیدیں وابستہ ہوتی ہیں لیکن یہ نوجوان والدین کی امیدوں پر
پانی پھیرتے نظر آتے ہیں۔ دشمن ہمیشہ یہ چاہتا ہے کہ پاکستان کا ماحول خراب
کیا جائے، جس کے لیے وہ نوجوانو ں کو استعمال کرتے ہیں۔
ہم تعلیمی اداروں میں ڈگریاں تو حاصل کر رہے ہیں مگر ان اداروں اور اعلیٰ
مرتبہ اساتذہ کی توقیر و حرمت معدوم ہو تی جا رہی ہے۔ تعلیمی ادارے ایک
ایسی جگہ ہیں جہاں نوجوان اپنی زندگی کا اہم ترین دورگزارتا ہے۔ اس دوران
نوجوانوں کو کو پانے مستقبل کی راہ ہموار کرنا ہوتی ہے، طلبا ساری زندگی
اسی راستے پر گزار دیتے ہیں۔ ہم ڈگریاں تو لے رہے ہیں لیکن کردار سازی کی
جانب کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم تہذیب، ثقافت، موجودہ ملکی
و عالمی حالا ت سے بے خبر ہیں۔
ہم تعلیمی اداروں میں جس مقصد کے حصول کی خاطر آئے ہیں، ان کو اپنی کل
صلاحیتیں اس ہی پر صرف کر دینی چاہیے۔ ہاں، تعلیمی اداروں میں ایسی بھی
تنظیمیں،یونین، گروہ اور سوسائٹیز موجود ہونی چایئے جو طلبا کی صلاحیتیوں
کو بہتر کرنے اور ان کو پاکستان کی حفاظت اور تعمیر و ترقی میں کردار ادا
کرنے پر ابھارنے کیلئے سرگرم ہوں۔ یقینا طلبا کو ایسی سوسائٹیز اور گروہوں
کے ساتھ مل کر اپنی صلاحیتیوں کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے 18اکتوبر 1945ء کو بلوچستان مسلم اسٹوڈنٹس
فیڈریشن کوئٹہ کے زیر اہتمام اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ طلباء
سیاست کا مطالعہ ضرورکریں لیکن وہ سیاست کو اپنی تعلیم کا ایک حصہ نہ
بنائیں۔
ان دنوں تحریک پاکستان اپنے شباب پرتھی، اگر قائد اعظم چاہتے تو طلباء کو
بڑی آسانی سے مسلم لیگ کی مفادات کے لیے استعمال کرسکتے تھے۔لیکن قائد اعظم
نے 10نومبر 1942ء کو آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے چھٹے اجلاس سے جوکہ
جالندھر میں منعقد ہوا تھا، خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ، میں جب آپ سے کہتا
ہوں کہ آپ سیاست میں کوئی عملی حصہ نہ لیں تو آپ میرا مطلب سمجھنے میں غلطی
نہ کریں، میرا مطلب یہ ہے کہ طالب علمی کے زمانے میں آپ خود کو تیار
کریں،آپ کو سب سے پہلے اور سب سے زیادہ جس چیزکی ضرورت ہے وہ ہے تعلیم،
تعلیم، تعلیم
نوجوان نسل چونکہ ملک وقوم کے معمار ہوتے ہیں اور مستقبل میں یہی نوجوان
نسل ملک کی باگ ڈور سنھبالیں گے مگر بدقسمتی سے ہمارے وطن عزیز میں
نوجوانوں کو ملکی وقومی مفادات کی بجائے ہمیشہ سیاسی مفادات کے حصول کے لیے
استعمال ہوتے ہیں جس وجہ سے آج ہمارا شمار ترقی پذیر قوموں میں ہوتا ہے۔
ہمیں ذرائع ابلاغ کے ذریعے نوجوانون طلبا کی تربیت اور اصلاح کا اہتمام
کرنے اور نوجوانوں میں پیار، محبت، اخوت و بھائی چارے کو فروغ دینا ہو گا۔
تاکہ ہمارے نوجوان ایک دوسرے کو پیار و محبت کی نظر سے دیکھیں نہ کہ ان کے
ذہن اور دل میں دیگر طلبا کیلئے مختلف تنظیموں اور گروہوں کے ساتھ تعلق کی
بنا پربغض، کینہ اور دشمنی پائی جائے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے مخالفین نے ہمیشہ
طلباء کو آپس میں دست وگریبان کرکے کمزور سے کمزور ترین کرنے کی کوششیں کی
ہیں۔
آج وقت ہے کہ ملک کے اس اثاثے نوجوانوں کو محفوظ کریں وگرنہ تو ہمارا دشمن
ہمہ وقت اس کوشش میں ہے کہ موقع ملے کہ انتشار و خلفشار پیدا کر کہ امت کے
نوجوانوں کو ایک دوسرے کے دست و گریبان کیا جائے۔طلباء یونین بحال ہونی
چاہیں ٗ لیکن ضابطہ اخلاق کے ساتھ ٗ تاکہ ان کا مثبت استعمال ہو اور طلباء
کہ اندر قائدانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لایا جا سکے۔
|