وہ جن کے دیکھنے کوآنکھیں
ترستیاں ہیں
جناب مولانا ڈاکٹر نذیراحمد صاحب ندوی مدظلہ
(استاد دارالعلوم ندوة العلماء لکھنو)
حضرت مولانا عبدالعلی محمد فاخر بحرالعلوم فرنگی محلی (فاخرمیاں) رحمہ اللہ
علیہ کی شخصیت دور حاضر کی ان معدودے چند ہستیوں میں سے تھی جن کے زہد
واستغناء،صبر وقناعت ،تسلیم ورضا، توکل علی اللہ اور تعلق مع اللہ کا گہر
انقش لوح قلب پر اسی وقت سے مرتسم ہوگیا تھا جب کہ میں لکھنو میں طلب علم
کے ابتدائی مرحلہ میں تھا۔ ربع صدی سے زائد عرصہ پر محیط تعارف وتعلق کی
بناء پر مجھے انھیں بہت قریب سے دیکھنے اور ان کے حالات سے واقف ہونے
کاموقع ملا۔ میں نے انھیں ہمیشہ کم گوئی ،کم خوری، کم خوابی اور کم آمیزی
کے صوفیانہ زرّین اصول پر کاربند پایا۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں دنیوی وسیاسی
مجالس میں شرکت سے بالکل مناسبت نہیں تھی ۔ان کی طبیعت ریاونمود سے نفور
اورشہرت طلبی اور نام وری کے حصول سے کوسوں دور تھی۔
مولانا مرحوم بڑے ذاکر وشاغل اور پابند معمولات تھے۔ حتی الامکان اتباع سنت
اور اسوہ رسول مقبول ﷺ کی پیروی کی کوشش کرتے تھے،اسی جذبہ کے تحت اپنی
مسجد میں نماز فجر وظہر عام طور پر اول وقت میں اور نماز عشاء عام مساجد کے
مقابلہ میں نسبتاً تاخیر سے ادا فرماتے تھے ۔عام مشائخ اور پیران طریقت کے
برخلاف روزانہ صبح سویرے تیزگامی سے ہوا خوری کے لئے نکل جاتے تھے اور
فرماتے تھے کہ اس سے بہت سے امراض دبے رہتے ہیں۔
تعارف اور تعلق کے روزاول ہی سے مجھ کم سو ادا اور بے بضاعت کو ان کی
بزرگانہ شفقت اورنظرعنایت حاصل رہی، جب بھی ان کی زیارت کے لئے حاضر خدمت
ہوتا تھا تو ازراہ کرم اپنا دست شفقت میرے چہرے پر رکھتے تھے اور بے حد خوش
اخلاقی اور گرم جوشی سے ملاقات فرماتے تھے جب بھی ان کی مزاج پرسی کا موقع
ملا تو ہمیشہ میں نے انھیں الحمد للہ کہہ کر اپنی خیریت وعافیت پر اللہ کا
شکر ادا کرتے ہوئے پایا۔ میں نے ان کی زبان سے کبھی ناسازی طبع کی شکایت یا
زمانہ کا شکوہ گلہ نہیں سنا۔
مولانا بڑے وضعدار ،نستعلیق،خوبرو اور نہ صرف خوش پوشاک بلکہ جامہ زیب تھے
جو لباس بھی زیب تن کرلیتے تھے اس میں بڑے اچھے لگتے تھے ،ان کی صفائی باطن
اور طہارت قلب کا اثر نمایاں طور پر ان کے رخِ زیبا پر نظر آتا تھا ۔پہلی
بار ان سے حصول نیاز اور شرف ملاقات کی تقریب اس طرح پیدا ہوئی کہ غالباً
1980یا1981کے کسی ماہ میں جب کہ میں دارالعلوم ندوة العلماء کے ابتدائی
عربی درجات میں زیر تعلیم تھا،اس دوران اپنے والد ماجد جناب عزیز احمد خاں
صاحب ریٹائرڈ اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ ریلوے(جن کی وفات حسرت آیات مورخہ 3شعبان
1431ھ مطابق 16جولائی 2010ءبروزجمعہ ہوئی) کے استاذ گرامی قدر جناب ماسٹر
معین الدین حسن صاحب علوی کاکوروی رحمة اللہ علیہ کے دولت کدہ
واقع26قندھاری لین ،لال باغ لکھنو پر ازراہ استفادہ علمی حاضر ہوا کرتا
تھا،ایک روز ان کی اہلیہ محترمہ (جنھیں میں دادی جان کہا کرتا تھا)جو کہ
حضرت مولانا فاخر میاں صاحب کی حقیقی خالہ اور معروف ادیب وشاعر اور مشہور
افسانہ نگار وصاحب قلم جناب محی الدین حسن علوی کاکوروی المعروف بہ ”سہیل
کاکوروی“ کی والدہ ماجدہ تھیں، کے ہمراہ فرنگی محل حاضر ہو اتو حضرت مولانا
فاخرمیاں صاحب کی وجیہہ اور پرکشش شخصیت کی زیارت ودیدار سے میری گنہگار
آنکھیں منور ہوئیں اور ان کے اخلاق کریمانہ سے طبیعت متاثر ہوئی ۔ہم طعامی
کی سعادت بھی حاصل ہوئی ۔اتفاق سے وہ روز جمعہ تھا، پہلی بار مدرسہ عالیہ
فرقانیہ کی مسجد میں نماز جمعہ ان کے پیچھے ادا کرنے کا شرف حاصل ہوا،اس کے
بعد بارہا ان کی اقتداء میں نماز جمعہ کی ادائیگی کا موقع ملا۔ مولانا
مرحوم کے فرزند ارجمند الحاج الحافظ مولانا ابوالحسن نظام الدین محمد (حسن
میاں) اس زمانہ میں دارالعلوم ندوة العلماء کے معہد ثانوی میں زیرتعلیم تھے
اور میں دارالعلوم کے ابتدائی عربی درجات میں تعلیم حاصل کر رہا تھا ،اس
تعارف وتعلق کی بناء پر ان سے گاہے بگاہے ملاقات ہوا کرتی تھی اور انھیں کی
وساطت سے مولانا کی خدمت میں حاضری ہوتی رہتی تھی۔ دارالعلوم ندوة العلماء
کے درجات عالمیت کے آخری سال کے امتحان میں ان کے ہونہار ولائق فرزنددلبند
نے جب کامیابی حاصل کی اور وہ سند عا لمیت تفویض کئے جانے کے مستحق قرار
پائے تو میری زبانی اس خوشخبری سے خوش ہوکر 50روپئے کے دو نوٹ مجھے عنایت
فرمائے جن میں سے ایک نوٹ آج بھی میرے پاس ان کی نشانی اور یادگار کے طور
پر محفوظ ہے۔
6نومبر 1994کو والدہ ماجدہ کے سانحہ ارتحال سے شفقت مادری کا سایہ جب
مولانا کے سر سے اٹھا تو اس صبر آزما موقع پر بھی میں نے انھیں کوہِ صبرو
استقلال پایا۔ تعزیت کی غرض سے استاذ گرامی قدر حضرت مولانا سید عبداللہ
صاحب حسنی ندوی دامت برکاتہم (خلیفہ اجل مخدوم معظم حضرت مولانا سید
ابوالحسن علی ندویؒ) کے ہمراہ جب حاضر خدمت ہوا تو محسوس ہوا کہ واقعةً
مولاناپ یکر صبروشکیب ہیں۔
12ستمبر1989کو مولانا اوران کے صاحب زادہ گرامی قدر کے ہمراہ مخدوم معظم
حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی (نوراللہ مرقدہ) کے دولت کدہ واقع
تکیہ کلاں،رائے بریلی پر حاضری کی سعادت حاصل ہوئی ،میرے پیرومرشد حضرت علی
میاں صاحب نے مولانا کا خیر مقدم فرمایا اور اس تعلق کی بنا پر مجھ پر بھی
بے حد شفقت کا اظہار اور محبت کا معاملہ فرمایا۔
مولانا فاخر میاں مرحوم بڑے فیاض اور مہمان نواز تھے، زائرین اور حاضر باش
معتقدین کی نہ صرف ضیافت طبع فرماتے بلکہ ان کی ضیافتِ کام ودہن کے ذریعہ
انھیں شاد کام اور دلشاد فرماتے تھے۔ ہر ماہ رمضان المبارک میں اپنی جیب
خاص سے افطار کا انتظام فرماتے تھے ،متعدد مرتبہ افطار میں شرکت کا شرف
حاصل ہوا اسی طرح مولانا کے صاحب زادہ گرامی قدر اپنی مسجد کے اندر نماز
تراویح میں جس شب کو ختم قرآن کرتے تھے اس میں بھی کئی بار حاضری اور شب
باشی کی سعادت حاصل ہوئی ،مولانا ہر بار بڑے اکرام اور دلجوئی کا معاملہ
فرماتے تھے۔
مولانا ادھر کچھ عرصہ سے بے حد تقلیل غذا اور بکثرت استعمال ادویہ کی وجہ
سے کافی کمزور ہوگئے تھے ،اتفاق سے 17جنوری2011 اندرون احاطہ فرنگی محل میں
واقع مسجد میں (جس میں مولانا پابندی سے پنچ وقتہ نمازوں کی امامت فرماتے
تھے)نماز مغرب ادا کرنے کے بعد حاضر خدمت ہوا تو چہرہ پراضمحلال کے اثرات
نظر آئے۔ تنفس کی شکایت بڑھی ہوئی تھی ۔مزاج دریافت کرنے پر پہلی بار
فرمایا:بیٹے !طبیعت اچھی نہیں ہے ۔کچھ دیر مسند پر سر رکھ کر آنکھیں بند کر
کے غالباً کسی دوا کے بارے میں سوچتے رہے۔ پھر مسند سے سر اٹھا کر آنکھیں
کھولنے کے بعد ایک حاضر باش خادم کو ایک دوا کا نام بتایا جو اس دوا کا نام
جب صحیح طورپ ر نہ سمجھ سکے تو کاغذ پر قلم سے دوا کا نام تحریر کر کے
انھیں دیا بعد میں ایک دوا کا نام اور یاد آیا اور ان سے کہا کہ بازار سے
یہ دوا لے آﺅ۔ پھر مجھ سے دریافت فرمایا:کیا حسن میاں نہیں ہیں؟ کیا ان سے
ملاقات نہیں ہوئی؟ میں نے عرض کیا کہ پہلے حضرت کی مزاج پرسی اور سلام کرنے
کے لئے حاضر ہوگیا،بعد میں ان سے ملاقات کروں گا۔ جب مجلس سے اٹھنے کی
اجازت چاہی تو حسب سابق ازراہ کرم میرے چہرے پر اپنا دستِ شفقت رکھا۔ ہوش
وحواس کے عالم میں ان کی زندگی میں ان سے یہ آخری ملاقات تھی جس میں ان کے
دست شفقت کے لمس کی گرمی آخری بار حاصل ہوئی ۔وہاں سے اٹھ کر میں ان کے
صاحب زادہ گرامی قدر کے پاس آکر بیٹھ گیا ،ان سے کچھ دیر تک مختلف موضوعات
پر تبادلہ خیال ہوتا رہا کہ اچانک خدام نے آواز دی کہ میاں کو سنبھالئے اور
وہ مولانا کو سہارا دے کر اندرون خانہ لے گئے ،اس کے بعد سے مولانا کی صحت
روز بروز گرتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ انھیں (ICU)میں داخل کرنے کی نوبت
آپہنچی ،جب علاج سے کوئی آرام نہیں ملا تو اہل خانہ انھیں فرنگی محل واپس
لے آئے۔ اسی روز صبح فرنگی محل حاضر ہوا تو پرسش احوال کے ذریعہ معلوم ہوا
کہ طبیعت میں قدرے افاقہ ہے،ہوش وحواس کے عالم میں اہل خانہ سے گفتگو کی ہے
اور قدرے چائے نوش فرمائی ہے جسے سن کر قدرے اطمینان ہوا، جس کی بنا پر
سہواپور کے حکیم صاحب سے طبی مشورہ کی غرض سے روانہ ہوگیا، اسی روز مورخہ
20صفر 1432مطابق 25جنوری،2011کو مولانا کے انتقال پرملال کا حادثہ فاجعہ
پیش آگیا جس کی اطلاع مجھے بذریعہ فون استاذ محترم جناب مولانا سید سعید
حسن صاحب ندوی ابن حضرت مولانا سید محمد مرتضیٰ صاحب مظاہری(سابق ناظر کتب
خانہ ندوة العلماء اور ندوہ میں داخلہ سے تکمیل تعلیم تک میرے مربی
وسرپرست) سے دیر رات میں ملی، اس لئے میں مولانا کے آخری دیدار اور نماز
جنازہ میں شرکت سے محروم رہا جس کا مجھے تاعمر بے حد قلق وافسوس رہے گا۔
بجنازہ گر نیائی بمزار خواہی آمد
کے بمصداق مولانا کے جانشین ،خلف الصدق الحاج الحافظ مولانا ابوالحسن نظام
الدین محمد فرنگی محلی کے ہمراہ مولانا کی تربت پرحاضری دی اور ان کے مزار
پرانوار واقع باغ مولوی انوار پر فاتحہ خوانی کی۔
آسمان ان کی لحد پرشبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
مولانا کا طائر روح اگرچہ قفس عنصری سے آزاد اور ان کا جسد خاکی زیر زمین
آسودہ خواب ہے۔ مگر سینوں میں ان کی یاد جس طرح آباد ہے اس سے ایسا لگتا ہے
کہ وہ زندگی میں زبان حال سے اپنے اہل ارادت وعقیدت سے یوں مخاطب تھے
بعد از وفات تربتِ مادر زمین مجو
درسینہ ہائے مردمِ عارف مزارماست
اللہ تعالیٰ مرحوم کی بال بال مغفرت فرمائے ۔کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے،ان
کے حسنات کو قبول فرما کر جنت الفردوس میں انھیں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور
ان کے اہل خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
”یاایتھا النفس المطمئنة ارجعی الی ربک راضیة مرضیة فادخلی فی عبادی وادخلی
جنتی(القرآن) |