مخدوم ُالعارفین، برہان ُالحق والدّین، سلطانُ
الراشدین،حضرت خواجہ حبیب عجمی رحمتہ اللہ علیہ بڑے جلیل القدر اولیاء میں
سے ہوئے ہیں. قطبِ وقت حضرتِ سیّدُنا حبیب عَجَمی فارسی علیہ رحمۃ اللہ
القَوی کی ولادت بصرہ (عراق) میں ہوئی اور3ربیعُ الآخِر156ھ کو وصال فرمایا۔
مزار شریف محلہ بشار بغداد میں ہے۔ آپ مشہورتا بِعی بزرگ حضرت خواجہ حسن
بَصَری علیہ رحمۃ اللہ القَوی کے شاگرد و خلیفہ، مشہور ولیِ کامل، مُستجابُ
الدُّعاء، صاحبِ کرامت اور عابد و زاہد ہیں۔
آپ کا اسم گرامی’’ حبیب، کنیت ابو محمد، ابونصر‘‘ ہے ، والد بزرگوار کا نام
’’شیخ محمد‘‘تھا۔ وطن اصلی فارس تھا، اس لیے عجمی کہاجاتاتھا۔ابتداء میں
بہت دولت مند سرمایہ دار تھے لیکن سود خور تھے. ہر روز تقاضا کرنے جاتے اور
جب تک وصول نہ کر لیتے اسے نہ چھوڑتے. اگر کسی کے پاس کچھ نہ ہوتا تو اس سے
آنے جانے کا خرچہ طلب کرتے ۔ایک روز کسی مقروض کے گھر گئے لیکن گھر پر
موجود نہ تھا. اس کی بیوی نے کہا کہ شوہر گھر نہیں ہے اس کے پاس قرض ادا
کرنے کے لیے رقم موجود نہیں البتہ بکری ذبح کی تھی. اس کی گردن موجود ہے.
جو ہم نے گھر پر پکانی ہے لیکن آپ اس عورت سے بکری کا گوشت زبردستی لے آئے
اورواپس آکر بیوی سے کہا کہ یہ سود میں ملی ہے اسے پکا لو. بیوی نے کہا آٹا
اور لکڑی بھی ختم ہے اس کا بھی بندوبست کردو. آپ دوسرے قرضداروں کے پاس گئے
اور یہ چیزیں بھی سود میں لے آئے. جب کھانا تیار ہوگیا تو کسی سائل نے آواز
دی , آپ نے اندر ہی سے اس سائل کو جھڑک دیا.کہا اگر ہم تمہیں دیں گے تو
فقیر ہو جائیں گے وہ سائل چلا جاتا ہے۔جب آپ کی بیوی نے ہانڈی سے سالن
نکالنا چاہا تو دیکھا کہ وہ خون ہی خون ہے. بیوی نے حیران ہو کر شوہر کی
طرف دیکھا اور کہا کہ اپنی شرارتوں اور کنجوسی سورخوری کا نتیجہ دیکھ لو.
خواجہ حبیب عجمی رحمتہ اللہ علیہ نے یہ ماجرہ دیکھا تو حیرت زدہ رہ گئے. اس
واقعہ نے آپ کی ذندگی میں انقلاب برپا کر دیا,اسی وقت سابقہ عادات سے توبہ
کی.بیوی کو گواہ بنایا۔ایک روز گھر سے نکلے تو راستے میں بچے کھیل رہے تھے.
آپ کو دیکھ کر چلانے لگے:" ہٹ جاؤ حبیب سود خور آرہا ہے.ہم پر اس کی گرد
بھی پڑ گئی تو ہم بھی ایسے ہو جائینگے." یہ سنا تو ندامت سے تڑپ اٹھے ,ندامت
سے سر جھکا لیا اور کہنے لگے : "اے رب تو نے بچوں تک میرا حال ظاہر فرما
دیا. "خواجہ حسن بصری رحمتہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہو کر توبہ کی ,سب
قرضداروں کا قرض معاف کر دیا, اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں وقف کر دیا.
عبادت وذکر الٰہی میں مصروف ہو گئے. اور صائم الدھر اور قائم الیل رہنے
لگے.کچھ وقت بعد پھر انہی لڑکوں کے پاس سے گزر ہوا تو انہوں نے آپس میں کہا
, خاموش رہو حبیب العابد جاتے ہیں.یہ سن کر آپ رونے لگے اور کہا کہ اے اللہ!
یہ سب تیری طرف سے ہے.
جب آپ کے سامنے کلامِ مجید پڑھاجاتا تو آپ پررقت طاری ہوجاتی،آپ سے
پوچھاگیاکہ آپ عجمی ہیں اور قرآن مجید عربی ہے ،رونے کی کیا وجہ ہے ؟ آپ نے
فرمایا میری زبان عجمی ہے لیکن میرا دل عربی ہے ۔ سات سال تک نفس گوشت کی
آرزو کرتارہا مگر آپ نے اس کی ایک نہ سنی، جب نفس نے زیادہ مجبور کیا تو آپ
بازار گئے ،کباب روٹی خریدی، راستے میں ایک لڑکا ملا، آپ نے پوچھا تو کس کا
بیٹا ہے ؟اُس نے کہا میرا والدفوت ہو گیا ہے ، آپ نے وُہ کباب روٹی اس کو
دے دی، اور نفس کی خاطر کرنے پر بہت افسوس کیا۔ابتدائے احوال میں ایک مرتبہ
آپ کی اہلیہ نے افلاس سے تنگ آکر کہا کہ آپ کچھ محنت مزدوری کیا کریں تاکہ
کھانے پینے اور کپڑوں کا انتظام ہوسکے ، آپ جا کر عبادت میں مشغول ہوگئے ،
رات کو آئے تو بیوی نے پوچھا، آپ نے فرمایا کَل مزدوری ملے گی، دوسرے دن
بھی عبادت میں ہی رہے ، اور گھر میں کہا کہ میں جس کے ہاں مزدوری کرتا ہوں
وہ بڑا فیاض و کریم ہے ،مجھے اُس سے مانگتے شرم آتی ہے ، وہ خود ہی دس دن
کے بعد مزدوری دے گا، بیوی خاموش ہو گئی، آپ روزانہ عبادت میں مشغول رہتے ،
دس دن پورے ہونے پر آپ شرمندگی کے باعث اندھیرا کر کے گھر لوٹے ، کہ آج کیا
عذر پیش کروں گا، دروازے پر پہنچے تو گھرسے کھانے کی خوشبو آرہی تھی، بیوی
سے پوچھا کہ یہ کہاں سے آیا ہے ، انہوں نے کہا کہ ایک شخص ایک تھیلا آٹا،
ایک بکری، گھی، شہد اور تین سو درہم کی تھیلی دے کر گیا ہے وہ کہتا تھا کہ
حبیب جن کے ہاں مزدوری کرتاہے یہ انہوں نے بھیجے ہیں،اور ان سے کہیے گا کہ
مزید محنت کریں مزدوری مزید بڑھا دوں گا۔آپ دنیاسے بالکل کنارہ کش ہوگئے ،
اورکامل یکسوئی سے اﷲ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف ہوگئے ، یہاں تک کہ مستجاب
الدعوات ہوگئے ، اور آپ کی دعا سے بہت لوگ اپنی مراد کو پہنچے
ایک درویش نے آپ کو عظیم وبزرگ مرتبہ پرفائز دیکھ کر پوچھا کہ آپ تو عجمی
ہیں، اِس درجہ پر کِس طرح پہنچے ؟ آواز آئی ہاں عجمی ہے لیکن حبیب ہے ۔حضرت
امام احمدبن حنبل رحمۃ اﷲ علیہ اور حضرت امام شافعی رحمۃ اﷲ علیہ اکھٹے
بیٹھے ہوئے تھے ، کہ وہاں سے آپ کا گزرہوا، امام احمد رحمۃ اﷲ علیہ نے کہا
کہ اِن سے کچھ سوال پوچھتے ہیں، امام شافعی رحمۃ اﷲ علیہ نے کہا،یہ و
اصلانِ حق سے ہیں، اِن سے ایسا نہیں کرنا چاہیے ، مگر امام احمد رحمۃ اﷲ
علیہ نے قریب آنے پرپوچھ لیا کہ اے حبیب!ایک ایسا شخص ہے جس کی پانچ نمازوں
میں سے ایک نماز قضا ہو گئی ہو اور وہ نہیں جانتا کہ وہ کونسی نماز ہے ، اس
کو کیا کرنا چاہیے ، تو آپ نے فرمایا ایسے شخص کا دل یاد خدا سے غافل
تھااسے ادباً پانچوں وقت کی نماز قضا کرنا چاہیے امام احمد رحمۃاﷲ علیہ یہ
جواب پاکر حیرت زدہ رہ گئے ، امام شافعی رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا کیا میں آپ
سے نہ کہتا تھا کہ ان خاصان خدا سے سوال نہ کیجیے ۔حضرت خواجہ حبیب عجمی
رحمہ اللہ 3 ربیع الآخر 156ھ بمطابق یکم مارچ 773ء کو وصال فرماگئے ۔
( مآخذ ومراجع: تذکرۃ الاولیا، مسالک السالکین ، تذکرۃ الانساب، کشف
المحجوب )
اللہ تعالیٰ اپنے ان برگزیدہ بندوں کے وسیلے سے ہم سب پر رحم فرمائے
پاکستان پر رحم فرمائے اور پاکستان کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت
فرمائے آمین
اگر اس تحریر میں مجھ کوئی غلطی کوتاہی ہوئی ہو تو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ
میں معافی کا طلبگار ہوں
|