آپ تاریخ کے ورق گردانی کریں توبے شمار لوگ ترقی کے
بام عروج کو چھوتے ہوئے ملیں گے اسی طرح ان گنت لوگ معاشی بحرانوں کے گرداب
میں پھنستے اور ہمیشہ ہمیشہ کیلئے قصہء پارینہ ہوتے نظر آئیں گے یہ بحث
اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہے کہ کیا زندگی کا مقصد صرف اور صرف حصول دولت ہے
یا دولت کا حصول کسی خاص مقصد کو پانے کا ذریعہ ہر سلیم الفطرت شخص یہی کہے
گا کہ دولت کا حصول فی نفسہ مقصود جدوجہد نہیں بلکہ اسے بطور ذریعہ ،رابطہ
یا آلہ کار کے استعمال کیا جاتا ہے اسی لئے جو لوگ دولت کے حصول کو زندگی
کا مقصد گردانتے یا مانتے ہیں وہ بزنس سلیبریٹی تو بن جاتے ہیں مگر مقصود
فطرت نا ہونے کے باعث زندگی میں کچھ خاص کر نہیں پاتے اسی لئے یہ بات شروع
ہی میں سمجھنا ضروری ہے کہ حصول دولت اور حصول رزق کی جدوجہد میں بنیادی
فرق ہے جو سوچ سے شروع ہوکر آپ کی پوری زندگی کے ہر ہر عمل کو متاثر کرتی
چلی جاتی ہے یہاں آکر بہت سے لوگ ٹھوکر کھا جاتے ہیں اور عمر کے آخری حصہ
میں جاکر پشیمان ہوتے ہیں کیونکہ حصول دولت کبھی بھی کسی بھی مذہب میں،مہذب
معاشرے میں مقصود زندگی نہیں ہوسکتا فطرت کے تقاضے کچھ اور ہیں اگر حصول
دولت ہی مقصود زیست ہوتا تو یقین کریں کوئی بھی کم آمدنی والا خوشگوار
زندگی نا گزار سکتا مگر حقیقت یہی ہے کہ اگر زیادہ پیسے والوں اور کم پیسے
والوں کی زندگی کا موازنہ کیا جائے تو زیادہ خوش و خرم زندگی کم پیسے والوں
کی ہوتی ہے اور وہ زندگی کو اس کی خوشیوں اور غم کو ،معاشی نشیب و فراز کو
زیادہ بہتر انداز میں گزارتے ہیں الاماشاء اﷲ۔
اب تک ہم یہ سمجھ چکے ہیں کہ دولت اکھٹی کرنا زندگی کا مقصد نہیں ہم مسلمان
ہیں اور ہمارا یہ یقین ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے محبوب پیغمبر وجہ تخلیق کائنات
حضرت محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ہمارے سب سے بڑے خیر خواہ ،رہبرو
رہنمااور محسن ہیں اگر حصول دولت ان کی زندگی کا مقصود نہیں تو یقینا ہمارا
بھی نہیں ،آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حصول دولت کو مقصود زندگی قرار نہیں دیا
بلکہ اطاعت خداوندی کو مقصد زیست کہا ہے جیساکہ قرآن پاک کی ایک آیت کا
مفہوم ہے
’’ہم نے جنوں اور انسانوں کو نہیں پیدا کیا مگر اپنی عبادت کیلئے‘‘۔
مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسلام میں حصول دولت کو حرام قرار دیا ہے اگر
حصول دولت مقصود زندگی نا ہو بلکہ زندگی کی ضروریات کو پورا کرنے ،اپنے
اردگرد کمزور طبقوں کو مضبوط کرنے کا ذریعہ ہوتو اسے قرب الہی کا ذریعہ
قرار دیا گیا ہے بلکہ جو شخص اس کی اسلامی حدود و قیود کا لحاظ رکھتا ہے تو
اس کا حشر ایک حدیث کے مفہوم کے مطابق انبیاء ،صدیقین اور شہداء کے ساتھ
ہوگا سبحان اﷲ، اسی لئے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے خود بہترین ذریعہ
معاش (تجارت )کو اختیار کیا اور ایک ارشاد مبارک کا مفہوم ہے کہ دس میں سے
نو حصے رزق تجارت میں رکھا گیا ہے ، ایک اور حدیث میں محنت سے کمانے والے
کے بارے میں فرمایا کہ
’’ہاتھ سے کمانے والا اﷲ کا دوست ہے ‘‘
اسی طرح قرآن پاک میں ایک جگہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا جس کا مفہوم ہے کہ ’’جب
تم نماز سے فارغ ہوجاؤ تو رزق کی تلاش میں نکل کھڑے ہو ‘‘۔
دیکھیں یہاں یہ نہیں کہا گیاکہ پیسوں کی تلاش میں نکلو بلکہ کہا گیا رزق کی
تلاش میں نکلو ۔
اب یہ بات واضح ہوگئی کہ پیسے کمانا زندگی کا مقصد نہیں بلکہ حصول رزق کا
ایک ذریعہ ہے دوسری بات اگر اسلامی حدود و قیود کو مدنظر رکھتے ہوئے تلاش
رزق میں اﷲ تعالیٰ برکت اور فراوانی عطا کریں اور آپ ارب پتی کھرب پتی بن
جائیں تو کوئی مضائقہ نہیں اور تیسری بات حصول رزق کا بہترین ذریعہ ملازمت
نہیں بلکہ تجارت ہے اور یہی ہمارے آج کے کالم کا موضوع ہے ۔
اس موڑ پر یہ بحث بھی بہت اہمیت کی حامل ہے کہ کیا تجارت اکیلے کی جائے یا
کسی کے ساتھ شراکت داری کی جائے یعنی مضاربہ یا مشارکہ وغیرہ کو اختیار کیا
جائے تو اس میں بہت سے لوگوں کی مختلف آراء ہیں اور اپنی اپنی جگہ اہمیت کی
حامل بھی ہیں مگر سو میں سے اسی فیصد کامیاب کاروبار شراکت داری پر چلتے
ہیں ہاں بیس فیصد ایسے بھی ہیں جو بغیر شراکت داری کے کامیاب کاروبار ہیں
،ایک بات لازماًآپ کے ذہن میں آرہی ہوگی کہ ملک کی موجودہ معاشی صورتحال
میں جب کہ تمام کاروبار شدید متاثر ہوچکے ہیں اور ملک عزیز پاکستان کئی
دھائیوں سے معاشی عدم استحکام کا شکار ہے تو کیسے کاروبار کا سوچا جاسکتا
ہے جب کہ ہزاروں کاروبار داؤ پر لگ چکے ہیں تو جناب بسم اﷲ کیجئے اگر
اکیلئے کاروبار کرنا چاہتے ہیں یا شراکت داری میں تو ایک ہستی کو اپنے
کاروبار میں شریک کرلیں یقین کریں غیر یقینی صورتحال میں آپ کے ڈوبے ہوئے
کاروبار کو وہ ہستی ایسے چار چاند لگائے گی کہ دنیا دیکھتی رہ جائے گی سو
فیصدگارنٹی ہے کامیابی کی۔
آپ اپنے کاروبار میں اﷲ پاک کو شریک کرلیں اور منافع کی ایک مخصوص مقدار
ایمانداری سے نکال کر اﷲ تعالیٰ کے رستے میں مستحق افراد کی ضروریات زندگی
کو پورا کرنے پر صرف کردیں تو یقین کریں آپ کو کبھی بھی معاشی خسارہ نہیں
ہوگا بلکہ آپ خساروں سے نکل کر منافع بخش کاروبار کے مالک بن جائیں گے
چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا جس کا ترجمہ ہے کہ
’’بیشک صدقہ دینے والے مرد اور عورتیں اور جو اﷲ کو خلوص کے ساتھ قرض دے
رہے ہیں ان کیلئے یہ (مال) بڑھایا جائے گا اور ان کیلئے پسندیدہ اجرو ثواب
ہے ‘‘۔ (الحدید۔18)
اب آخر میں کاروباری خسارے کے چند اسباب کو مختصراً ذکر کرتے چلیں۔
(1)……:ہم گاہک کا فائدہ نہیں سوچتے صرف اور صرف اپنی جیب بھرنے کی فکر کرتے
ہیں یہ بات اﷲ پاک کو ناپسند ہے کہ آپ کسی کا نقصان کرتے ہوئے اپنا فائدہ
سوچتے ہیں تو رزق سے برکت اٹھ جاتی ہے۔
(2)……:ہم زکوۃ ادا نہیں کرتے جس کی وجہ سے رزق میں برکت نہیں ہوتی اور برکت
پیسوں کی بہتات کو نہیں کہا جاتا بلکہ کم یا زیادہ پیسوں سے اچھے انداز میں
ضرورت کا پورا ہونا برکت کہلاتا ہے۔
(3)……:ہم اپنے رشتہ داروں سے صلہ رحمی نہیں کرتے ،اپنے پڑوس اور محلے والوں
کا خیال نہیں کرتے یقین کریں جب آپ اپنی دس روپے والی ضرورت سو روپے میں یا
لگژری انداز میں پورا کررہے ہوتے ہیں اور اسی وقت آپ کا کوئی عزیز رشتہ دار
یا محلے دار کسی ایسی مصیبت یا مجبوری میں مبتلا ہوتا ہے جو آپ کے چند
روپوں سے پوری ہوسکتی ہے تو اسی وقت رزق سے برکت اور فراوانی ختم ہونی شروع
ہوجاتی ہے سو اپنے عزیزو رشتہ داروں اڑوس پڑوس کا خیال رکھیں کیا پتا کسی
کو آپ کے ذریعے ملنے والے چند ہزار روپے آپ کے مال میں لاکھوں روپے اضافے
کا سبب بن جائیں۔
(5)……:اپنے ساتھ کام کرنے والوں اور ملازموں کو عزت کی نظر سے دیکھیں ،ان
کے ساتھ اچھا برتاؤ کریں ،ان کی ضروریات کا خیال کریں ،ان سے اچھے انداز
میں مخاطب ہوں اور اصلاح کے نام پر ان کی تذلیل نا کریں جو اپنے ماتحتوں کا
خیال نہیں کرتا اس کے رزق میں برکت نہیں ہوتی ۔
(6)……:حرام ذرائع سے اجتناب کریں دیکھیں رزق اﷲ تعالیٰ کی تقسیم سے ملنا ہے
یہ دنیا اﷲ تعالیٰ کی پیدا کردہ ہے اور اس میں موجود نعمتیں اﷲ تعالیٰ کی
ملکیت ہیں اور اس سے فائدہ بھی اﷲ تعالیٰ کے حکم کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا
اسی لئے جن ذرائع کو اﷲ تعالیٰ نے اختیار کرنے سے منع کیا ہے ایک مسلمان
کیلئے لازم ہے کہ ان ذرائع سے اجتناب کرے ورنہ یاد رہے کہ سارے کے سارے
اختیار اﷲ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں ہم جتنے بھی ہوشیار اور چالاک بن جائیں
اﷲ تعالیٰ کی دسترس سے باہر نہیں جاسکتے سو اﷲ تعالیٰ کی دنیا میں اﷲ
تعالیٰ کی پیدا کردہ نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کیلئے ضروری ہے کہ اس کے بتائے
ہوئے طریقوں سے فائدہ اٹھایا جائے ورنہ نقصان ہی ہمارا مقدر ٹھہرے گا دنیا
میں بھی اور آخرت میں بھی خسر الدنیا والآخرہ۔
|