خالد بن مجید
’’کورونا‘‘ نے دنیا کو جمود کی جانب دھکیل کر مصافحہ سے لیکر گلے ملنے تک،
تعلیمی اداروں سے گھروں تک ، سفر سے گریز، اجتماع کی ممانعت اور احتیاطی
تدابیر اختیار کرنے کے جہاں بہت ہی قریب کیا ، وہاں یہ بات بھی عیاں ہوئی
کہ چین نے وبائی علاقہ سیل کرکے کامیایی حاصل کی مگر دنیا کا ہر ملک اِس
وباء کے خطرے میں ہے، کھیل رُک گئے، پہیے جام ہوگئے ، ماہرین طبّ سر جوڑ کر
بیٹھے ہیں کہ اِس وائرس سے کیسے نمٹیں؟ قیمتی جانیں کیسے بچائی جائیں؟
عالمی ادارہ صحت کی وارننگ سے معیشت کو بھی بڑا دھچکا لگ چکا خوراکی اور
غیر خوراکی اشیاء کی سپلائی روک دی گئی ہے، تیل کی درآمد برآمد پر بھی
پابندی لگا دی گئی ہے ایسے اقدامات سے معاشی حالات بھی دگرگوں کردیئے گئے
ہیں۔ سٹاک ایکسچینج میں مندی کا مسلسل راج ہے۔ عالمی معیشت کو ایک اندازے
کے مطابق دو ٹریلین ڈالر کا نقصان پہنچ چکا ہے۔دنیا کے 146 ممالک متاثر ہو
چکے ہیں اور وطن ِ عزیز میں بھی متاثرہ افراد کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے
اور یہ سلسلہ تھمنے کو نہیں آرہا۔ صوبہ سندھ کی صورتحال ابتر ہے۔ چین کا
ہمسایہ ہونے کی صورت میں پاکستان شدید خطرات میں گھرا ہے اور ہمارے ہاں اِس
وائرس کیخلاف صحت سے متعلق سہولیات ناکافی ہیں۔ اِس عالمی وباء سے سب سے
زیادہ غریب ممالک متاثر ہوں گے اور ہو رہے ہیں۔ چہ جائیکہ چند ممالک صلاحیت
کی کمی کے ساتھ جدوجہد کررہے ہیں، کچھ ممالک وسائل کی کمی کے باوجود مصروف
ِ عمل ہیں اور بعض ممالک عزم کے فقدان کو ساتھ لیے کوشش کررہے ہیں کہ اس
وباء سے نمٹا جا سکے۔ پوری دنیا میں آگاہی مہم زور و شور سے جاری ہے، لوگوں
کو قریبی روابط کی بجائے قدرے فاصلہ رکھنے کا کہا جارہا ہے۔ بار بار ہاتھ
دھونے کی تلقین بھی جاری ہے، کھانا پکانے سے لے کر کھانا کھانے تک کی
احتیاط بتائی جارہی ہے۔ یہ سب کچھ زندگی کی بقا کیلئے ہورہا ہے۔ زندگی
انمول ہے، اِس کا کوئی نعم البدل نہیں، ہمارے کئی شہر متاثر ہو چکے ہیں۔
کراچی ، سکھر ، کوئٹہ ، شمالی علاقہ جات بالخصوص گلگت بلتستان، لاہور اور
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بھی متاثرہ افراد سامنے آچکے ہیں۔ووہان
میں پھوٹنے والی یہ وباء اب لوگوں کی نقل و حرکت کے باعث سینکڑوں ممالک تک
جا پہنچی ہے۔ اِس لیے جس طرح چین نے قابو پایا دیگر ممالک کو بھی ایسے
اقدامات اُٹھانے ہوں گے۔پاکستان نے ایران اور افغانستان سے ملحقہ سرحدیں
سیل کر دی ہیں، انٹری پوائنٹس پر سکریننگ کا عمل مستعدی سے جاری ہے اور ہر
باشعور شہری اِس وباء کیخلاف جدوجہد میں اپنی بساط کے مطابق کردار ادا
کررہا ہے۔ شادی ہال سے لے کر سکولوں تک، کالج سے لے کر جامعات تک، مزاروں
سے لے کر سماجی تقریبات تک پر عارضی پابندی بھی اُن اقدامات کا حصہ ہے،
جیلوں میں قیدیوں سے ملاقاتیں بھی فی الحال بند کردی گئی ہیں۔ ہمارے تمام
طبّی ادارے متاثرہ افراد کے علاج معالجہ میں کامیاب جارہے ہیں،فی الوقت کسی
بھی فرد کی اِس وائرس سے موت واقع نہیں ہوئی۔ ہمارے تمام اقدامات انسانیت
کی بقاء کیلئے ہیں، احتیاط علاج سے بہتر ہے کہ مصداق ہماری آگاہی مہم سے
عوام الناس میں شعور کی روشنی پہنچ رہی ہے۔ ہم نے سماجی رابطوں کی سائٹس پر
نام نہاد علاج کی تراکیب کا بھی بڑی جانفشانی سے مقابلہ کیا ہے، بہت سے
مفروضوں، افواہوں کا بھی خاتمہ کیا ہے اور عوام کو مستند احتیاطی تدابیر سے
روشناس کیا ہے، پیاز کھانے سے لے کر لہسن چبانے تک کے ٹوٹکے بے اثر ثابت
کیے ہیں، لالچی لوگوں کے پھیلائے مختلف طبّی ٹوٹکوں کی بھی ممانعت کی ہے،
یہ وقت لوگوں کو حقیقی تصویر دِکھانے کا ہے نہ کہ پیسہ کمانے اور اور خوف
وہراس پھیلانے کا ۔۔۔۔ہاتھ دھونے سے لے کر کھانا کھانے اور اور روزمرہ
زندگی میں میل ملاپ سے متعلق احتیاطی اقدامات کو عالمی دنیا نے پذیرائی
بخشی ہے اور ہلالِ احمر پاکستان اِس آگاہی مہم میں ہمیشہ کی طرح پیش پیش
رہا ہے۔ جس کی بدولت عالمی برادری میں اِس کا وقار بڑھا ہے۔ چیئرمین ابرار
الحق کی قیادت میں ہلالِ احمر پاکستان اِس نازک صورتحال میں حکومت کے شانہ
بشانہ مصروف کار ہے۔ ’’احتیاط کرونا‘‘ کے ہیش ٹیگ نے لوگوں کو حوصلہ دیا،
مورال بڑھایا، انسانی ہمدردی کو فروغ ملا ۔ انٹرنیشنل فیڈریشن آف ریڈ کراس،
موومنٹ پارٹنرز، وفاقی و صوبائی حکومتوں اور بالخصوص قومی ادارہ صحت کے
ساتھ قریبی روابط سے اِس ملک گیر مہم کو پذیرائی ملی اور کورونا وائرس
کیخلاف اقدامات کو سراہا گیا۔طبّی عملہ اور تربیت یافتہ رضاکاروں نے وطن ِ
عزیز کے کونے کونے میں آگاہی مہم جاری رکھی ہوئی ہے۔ہلال ِاحمر کی تربیت سے
لیس طبّی ٹیمیں بلوچستان کے محکمہ صحت کے ساتھ مل کر کام کررہی ہیں۔
قرنطینہ کی سہولت بھی بہم پہنچائی گئی ہے تاکہ مشتبہ افراد کی سکریننگ کی
جاسکے۔تمام ائیرپورٹس کے علاوہ طور خم بارڈر پر بھی ہلالِ احمر کی
ایمبولینس سٹینڈ بائی ہے، ہلالِ احمر نیشنل ہیڈکوارٹرز کی جانب سے ہلالِ
احمر ہسپتال راولپنڈی میں بھی ’’قرنطینہ‘‘ کی سہولت قائم کی گئی ہے۔قومی
ادارہ صحت کے تعاون سے اِسی سلسلے میں ہلالِ احمر کے زیر اہتمام 11 مارچ کو
ریلی بھی نکالی گئی اور لوگوں کو اِس وباء سے متعلق آگاہی دی گئی تاکہ وہ
احتیاطی تدابیر اپنا سکیں۔ ہلالِ احمر کے تربیت یافتہ رضاکار آگاہی پھیلانے
کیلئے شہر شہر قریہ قریہ اپنا قیمتی وقت دے رہے ہیں، علماء حق ، مذہبی
سکالر، مختلف مکاتب فکر کی شخصیات اِس مہم میں شریک ہیں، راقم اور چیئرمین
ابرار الحق نے گزشتہ دِنوں دورہ جنیوا کے دوران ہلالِ احمر کی کورونا وائرس
کیخلاف حکمت عملی کیلئے عالمی مدد کیلئے بھی راہ ہموار کی۔ انٹرنیشنل
فیڈریشن، انٹرنیشنل کمیٹی کے ہیڈکوارٹرز اور سوئس ریڈکراس کے دفتر میں
اعلیٰ سطح اجلاسوں میں حکومت ِ پاکستان اور ہلالِ احمر کے اقدامات کا احاطہ
کیا گیا۔ اِن اقدامات کو عالمی اداروں نے نہ صرف سراہا، بلکہ بھرپور مدد و
تعاون کی بھی یقین دہانی کرائی ۔ ہلالِ احمر پاکستان کو اِس بات کا بخوبی
ادراک ہے کہ کورونا اب عالمی وباء کی صورت اختیار کرگیا ہے اور اِس وباء سے
نمٹنے کیلئے ٹوٹکوں، خالی خولی نعروں کی بجائے عملی اور پائیدار اقدامات کی
ضرورت ہے اور ہلالِ احمر کا قدم پہلے دِن سے ہی اِسی جانب ہے۔ آئیے! اِس
وباء کے خلاف ہلالِ احمر کی جدوجہد میں شریک ہوں تاکہ کوئی بھی ہم وطن اِس
کا شکار نہ ہو سکے۔ہمیں خوف و ہراس پھیلانے کی بجائے احتیاط کا دامن تھامے
رکھنا چاہیے کیونکہ احتیاط ہی زندگی ہے۔ |