آج دنیا بھر میں ایک خوف ڈر پیدا ہو گیا ہے ۔ تقریباً نصف
دنیا کا ہر ملک دوسرے ممالک سے الگ تھلگ ہو گیا ہے۔کچھ لوگ اس کو عذاب ِ
خداوندی اور کچھ اﷲ کی طرف سے آزمائش قرار دے رہے ہیں۔ تحقیق کرنے والے
تحقیات کر رہے ہیں مگر سننے میں آر رہا ہے کہ سائنسدانوں نے خود اس کو
بیایا ہے ۔ ایسے بھی دانشور کچھ کم نہیں جو کہتے ہیں کہ یہ جانوروں سے پیدا
ہوا ہے۔ جیسا بھی ہوا ۔ اﷲ پاک کی رضاء کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں ۔ جہاں
تک دنیا کے ممالک کی ایک دوسرے ملک سے الگ تھلگ ہونے کی بات ہے تو اب ممالک
تو دور ایک ملک میں ایک ایک صوبہ دوسرے صوبوں سے الگ کئے جا رہے ہیں ۔
کیونکہ کرونا وائرس Coronavirus عالمی وباء کی صورت اختیار کر گیا ہے۔
ممتاز ماہرِ حیوانیات اور مصنف، ڈاکٹر صلاح الدین قادری نے بتایا کہ کسی
بھی وائرس کو عالمی وبا بننے کے لیے چار چیزیں درکار ہوتی ہیں:اول: وائرس
کی نئی قسم ہو۔دوم: حیوان سے انسان تک منتقل ہونے کی صلاحیت ۔سوم: انسان
میں مرض پیدا کرنے کی صلاحیت ۔چہارم: انسان سے انسانوں تک بیماری پیدا کرنے
کی استعداد
اس تناظر میں نئے کرونا وائرس میں یہ چاروں باتیں سامنے آچکی ہیں۔ ڈاکٹر
سید صلاح الدین قادری نے بتایا کہ یہ وائرس بہت کم وقفے میں دنیا کے کئی
ممالک میں پھیل چکا ہے اور اس سے قبل سوائن فلو کی وبا صرف ایک ماہ میں کئی
ممالک تک سرایت کرچکی تھی۔اب تک Coronavirusکروناوائرس کی نصف درجن سے زائد
اقسام دریافت ہوچکی ہیں، جب اس کا خوردبین سے جائزہ لیا گیا تو یہ نصف
دائرے کی شکل میں نظر آیا اور کنارے پر ایسا ابھار نظر آیا جو تاج کی شکل
کے مشابہ ہے، رومن زبان میں تاج کو کراؤن کہتے ہیں، اسی بنا پراس کا نام
کرونا رکھ دیا گیا ہے، اب تک زیادہ تر جاندار مثلاً: خنزیر اور مرغیاں اس
سے متاثر ہوتے رہے ہیں، لیکن اب یہ وائرس اپنی شکل بدل کر انسانوں کو بھی
متاثر کرکے موت کی وادی میں پہنچا رہاہے ۔ 1960ء کے عشرے میں کرونا وائرس
کا نام دنیا نے پہلی بار سنا اور اب تک اس کی 13اقسام سامنے آچکی ہیں، ان
میں سے سات اقسام انسانوں میں منتقل ہوکر انہیں متاثر کرسکتی ہیں۔ان میں سے
’’Novel Coronavirus 2019‘‘ اور ’’(SARS) Severe acute respiratory
syndrome‘‘ چین میں دریافت ہوئے ہیں اور ’’(MERS) Middle East Respiratory
Syndrome‘‘ شرقِ اوسط میں دریافت ہوا ہے۔ابھی تحقیقات جارہی ہیں ۔ ہر آدمی
انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنا اپنا کردار ادا کر کے اس موزی کرونا وائرس
Coronavirus خود کو اپنے چاہنے والوں کو بچا سکتا ہے جیسا کہ ماہرین کی
رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ گھروں میں استعمال ہونے والا عام فنائل
کرونا وائرس کو ختم کرنے کے لیے کافی ہے۔امریکی میڈیکل ایسوسی ایشن کے
رسالے ’جاما‘ میں شائع ہونے والی نئی تحقیق کے مطابق دن میں 2 بار عام
فنائل سے کی جانے والی صفائی کرونا وائرس کو مارنے کے لیے کافی ہے۔ماہرین
کے مطابق فنائل سے فرش کے علاوہ مریض کے زیر استعمال واش بیسن اور بیت
الخلا کی صفائی سے کرونا وائرس پر قابو پایا جا سکتاہے
سائنسی ماہرین نے کورونا وائرس کے پھیلنے کے حوالے سے تحقیقی مطالعہ کیا جس
کے دوران متاثرہ افراد کے ٹیسٹ لیے گئے اور نتائج کی روشنی میں رپورٹ مرتب
کی۔کہ کورونا وائرس کھلی فضا میں کئی گھنٹوں تک زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتا
ہے، اسی طرح ہوا سے آلودہ ہونے والی کسی بھی شے پر دو تین روز تک موجود
رہتا ہے۔رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس ایک انسان سے دوسرے کو منتقل ہوتا
ہے۔ماہرین نے تحقیق کے دوران متاثرہ افراد کے زیر استعمال نیبولائزر سے
نمونے حاصل کر کے انہیں فضا میں چھوڑا، جس سے یہ معلوم ہوا کہ تین گھنٹے تک
وائرس ہوا میں موجود رہا اور پھر خود ختم ہوگیا۔جب ان نمونوں کو دیگر اشیاء
کی سطح پر چھوڑا گیا تو نتائج خوفناک صورت میں سامنے آئے۔ ماہرین کے مطابق
تانبے کی دھات پر وائرس کے نمونے چار گھنٹے، گتے پر 24 جبکہ پلاسٹک اور
اسٹیل کی دھات کی سطح پر یہ دو سے تین روز تک زندہ رہے۔جارج ٹاؤن یونیورسٹی
سے تعلق رکھنے والی مائیکرو بائیولوجی کی پروفیسر جولی فشر کا کہنا ہے کہ
ان تجربات کے نتائج بہت اہم ہیں اور ان سے صفائی ستھرائی سے متعلق بتائی
جانے والی احتیاطی تدابیر کی اہمیت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ تحقیقی نتائج کو
مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں ہاتھ دھونے کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کرنا چاہیے۔
آخر میں تین باتیں عرض ہیں ۔ اول :۔ محسن ِ انسانیت نبی کریم ﷺ نے اﷲ پاک
کا پسندیدہ ’’ دین اسلام ‘‘ میں ہمیں داخل کر کے جہنم کے عذاب اور دنیا کی
بلاؤں سے محفوظ کر لیا۔ یعنی ’’ صفائی کو نصف ایمان ‘‘ قرار دیکر وہ تمام
آفتیں بلائیں جو دنیا میں صفائی ستھرائی نہ رکھنے سے پیدا ہوتیں ہیں ان سے
بچانے کے لئے صفائی کو نصف ایمان کا درجہ دیکر دنیا میں سب سے زیادہ صاف
ستھرا مسلمانوں کو کر دیا۔
دوئم :۔ دنیا کی جدید تحقیق اور سائنسدان اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ تمام
وبائی امراض انفیکش کا سبب جراثیم Microorganism ہیں اور یہ عموماً ہمارے
جسم کے وہ حصے جو کھلے یا نظر آتے ہیں جیساکہ ہاتھ پاؤں ،ناک، کان ۔ گلا،
وغیرہ کے زرئیے جسم میں داخل ہوکر امراض Infection پیدا کرتے ہیں۔ کریم آقا
ﷺ کے صدقے کتنا عظیم ’’ دین اسلام ‘‘ ملا جس کی برکت سے دن میں کم از کم
پانچ مرتبہ وضو کرنے کی سعادت ملتی ہے۔ کیونکہ نماز ادا کرنے کے لئے وضو
کرنا شرط اول ہے۔ مسلمان تو جانتے ہیں مگر جن کو دین اسلام کی سعادت نصیب
نہیں ہوئی ان کے لئے عرض ہے وضو میں وہ تمام اعضاء ( طریقہ اسلام ) کے
مطابق دھوئے جاتے ہیں جن کے لئے آج سائنس چیخ رہی ہے۔
سوئم :۔ تحقیق کرنے والے سائنسدان اور صحت کے لئے کام کرنے والے جانتے ہیں
کہ اﷲ کی طرف سے ہمارے جسم میں ایک نظام ہے جس کو ’’ قوت مدافعت immune
system ‘‘ کہتے ہے۔ اس کو سمجھنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے جیسا گھر کا
چوکیدار ہو اگر چوکیدار طاقتور اور ہوشیار ہو تو گھر میں چوری چکاری نہیں
ہو سکتی اسی طرح جسم انسانی میں قوت مدافعت ہے اگر یہ کمزور نہ ہو تو کوئی
جراثیم یا وباء انسان کو بیمار نہیں کر سکتی کیونکہ انسانی مدافعتی نظام
عملہ آور( جراثیموں) کا مقابلہ کر کے ماردیتا ہے یا بھگا دیتا ہے۔ جس وجہ
سے انسان تندرست رہتا ہے۔ اس قوت کے لئے یعنی مدافعت کو زیادہ متحرک کرنے
کئے ’’ نماز کا عظیم تحفہ دیا وہ بھی اپنے محبوب خاتم النبی محمد رسول ﷺ کو
عرش معلی میں معراج کی صورت میں ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ کروناوائرس یا دیگر وائرسوں سے بچنے کے لئے دین
اسلام پر عمل کرنا ہوگا۔ ورنہ آئے روز کوئی نہ کوئی Micro - organism
دریافت ہوکر دنیا کو جہنم بناتا رہے گا۔ |