قارئین!وزیر اعظم پاکستان نے اگرچہ لاک ڈاؤن سے انکار کر
دیا ہے جس کی بڑی وجہ دہاڑی دار مزدور طبقے اور ایسے غربت کے شکار افرادہیں
جن کا گذر بسر ہی عام حالات میں کچھ نہ کچھ کر کے ممکن ہو سکتا ہے۔ دوسری
طرف انہو ں نے مجموعی عوامی ذہنیت کو پرکھتے ہوئے بھی کھلی چھوٹ دی ہے کہ
سب ازخود ہی گھر وں میں قیام پذیر رہیں اور ایسی صورت حال کی طرف نہ جائیں
جس کی وجہ سے سب کو مسائل کا سامنا کرنا پڑے۔اپنے خطاب میں انہوں نے اس
حوالے سے ایک ریلیف پیکج بھی دیا ہے جس کی وجہ سے عوام کو کچھ تو سکون رہے
گا مگر اس حوالے سے ابھی بہت سے اقدامات کرنے باقی ہیں کہ یہ وبائی مرض
حکومت کو بہت کچھ کرنے کی طرف مائل کر رہا ہے کہ ہمارے ہاں صحت کی سہولیات
پہلے ہی بہت کم ہیں اوراس کی ذمہ داری قیام پاکستان سے لے کر آج تک کی سب
حکومتوں پر ہے کہ انہو ں نے کوئی مربوط نظا م تشکیل نہیں دیا ہے۔
کرونا وائر س نے عالمی وباء کی صورت اختیار کرلی ہے اور سب ہی اس مہلک مرض
سے اب خوف زدہ دکھائی دے رہے ہیں۔ اگر چہ چین نے اس حوالے سے بہترین اقدمات
کرتے ہوئے اس سے نجات کی صورت ممکن بنا لی ہے مگر دنیا کے بیشتر ممالک میں
بہتر ین سہولیات کے فقدان کی بدولت ہزاروں افراد اس مرض کی بدولت اپنی جان
سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔اس مرض سے ہلاکت کی اگرچہ شرح بے حد کم ہے مگر اس
میں مبتلا ہونے والے جب اپنے آپ کو لاعلاج سمجھ کر حوصلہ ہار دیتے ہیں تو
سننے میں آیا ہے کہ دل کے دورے سے بھی کئی افراد نے اپنی جان گنوائی ہے ۔بہت
سے افراد اس مرض کے خوف کی وجہ سے نفسیاتی مریض بھی بننا شروع ہو رہے
ہیں۔اس حوالے سے ماہر نفسیات حضرات کو کچھ کرنا چاہیے تاکہ عوام مر ض سے بے
خوف ہو کر زندگی گذر سکیں یہ نہ ہو کہ وہ گھروں میں قید ہو کر گھٹن کا شکار
ہوں اور پھر مزید پریشانی کا سامنا کرنا پڑے۔ماہر نفسیات حضرات کو اس حوالے
سے بھرپور مفت خدمات فراہم کرنی چاہیے تاکہ ذہنی اذیت کا شکار عوام نہ ہو
سکے۔
پاکستان میں بھی دنیا کے دیگرخطوں کی مانند اس مرض نے ایک دم سے جب وباء کی
صورت اختیار کی تو کم سے کم سندھ میں وزیر اعلی مراد علی شاہ نے عمدہ
اقدامات کی بدولت اس کی روک تھام میں انقلابی کاوشوں سے زور توڑ دیا ۔ اس
حوالے سے ابھی تک مختلف حلقوں میں بات ہو رہی ہے کہ ایران سے آنے والے
زائرین کوملک میں داخلے سے روک دینا چاہیے مگر یہ بھی دوسری طرف سوچنے کی
بات ہے کہ اگر اپنے ہی شہریوں کو ملک میں داخلے سے روک دیا جائے تو یہ قطعی
غیر مناسب عمل تھا۔چین میں مقیم طالب علموں کو بھی وہاں پر روک لیا گیا تھا
تو اس حوالے سے یہ بات بھی کہی جا رہی تھی کہ زائرین کو روک دیا جاتا تو
اچھا تھا۔ اب یہاں اندرونی حقائق بھی سامنے لے کر آنے چاہیں کہ وہ کونسی
وجوہات تھیں جن کی بدولت باہر سے آنے والوں کو ملک داخلے سے نہیں روکا گیا
ہے۔اسلام آباد جیسے شہر میں بھی جہاں کئی ممالک کے سفارت خانے ہیں اس وائر
س کی موجودگی نے بہت حد تک ان غیرملکیوں کو بھی پریشان کر دیا ہے اور
اخباری اطلاعت کے مطابق کچھ تو واپس جا چکے یا جانے پر بضد ہیں، یہ اس بات
کی نشاندہی کر رہی ہے کہ موجودہ حکومت اس وبائی مرض کے خلاف ابھی تک خاطر
خواہ ماسوائے سندھ صوبہ کے بہترین اقدامات نہیں کر سکی ہے جس کی وجہ سے
اپوزیشن جماعت بھی اس کے خلاف کچھ مزید کرنے کا اعلان کر رہی ہے۔لیکن حکومت
نے ابھی تک ریلیف پیکج دے کر بہت حد تک تو پوں کا رخ اپنی جانب سے ہٹا لیا
ہے کہ چند علاقوں میں فوج کو بھی تعینات کر دیا ہے تاکہ صورت حال کو قابو
کیا جائے۔
قارئین !اس مرض سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے اپنی قو ت مدافعت کو زیاد ہ
کرنے کے لئے آرام کیجئے، اچھی خوراک کا استعمال کریں اور سب سے بہترین عمل
تو یہی ہے کہ آپ پنجگانہ نماز کی ادائیگی کرنا شروع کر دیں ، یہ مرض آپ سے
بہت دور ہو جائے کہ صفائی تو یوں بھی نصف ایمان ہے۔ ہاتھوں کو با ر بار
دھونا اور باہر غیر ضروری طور نکلنا جب ممکن ہو جائے گا تو متاثر ہ فرد سے
آپ کے متاثر ہونے کے مواقع کم ہو جائیں گے۔اس کے لئے محض حکومتی اقدامات
کافی نہیں ہیں بلکہ اس کے لئے کچھ کام آپ کو بھی کرنا ہوگا، یعنی جب تک آپ
کچھ نہیں کرو گے تو تب تک یہ کرونا وائر س آپ سے دور نہیں رہے گا، تو اپنوں
اور دوسروں کی زندگیوں کو متاثر کرنے یا خود ہونے سے باز رہنے کے احتیاطی
تدابیر پر عمل کیجئے۔
|