اللہ کریم نے جب آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا تو اسے
علم بھی سکھایا۔ ثابت ہوا علم کے بغیر کوئی معاشرہ، ملک اور قوم ترقی نہیں
کر سکتی۔ رب العالمین یعنی ساری دُنیا کا رب ہے، پالنے والا ہے۔ لیکن اس
حقیقت کے باوجود یہود و نصاریٰ نے بے شمارتدبیریں، پلان تیار کیے کہ کسی
طرح مسلم امہ کو ڈھیر کیا جاسکے اور غزوہ ہند سے پہلے کوئی حل نکالا جا ئے۔
وہ اس حقیقت کو بھول گئے جس رب نے ساری باتیں قرآن مجید میں کھول کھول کر
بیان کر دی ہیں وہاں یہ بھی بتا دیا ہے کہ جو تم چالیں چلتے ہو اللہ ان کو
جانتا ہے اور رب کریم سب سے بڑا اور بڑی پلاننگ کرنے والا ہے تم اس سے بے
خبر ہو۔باوجود اس کے یہود اپنے ٹرکس کا گھناؤ کھیل کھیلنے سے باز نہیں آرہا
ہے۔ COVID-19 سال 2011میں ریلیز ہونے والی انگلش مووی کے مطابق یہ ایک پری
پلان منصوبہ تھا کیونکہ تقریباً ہو بہ ہو ویسے ہو رہا ہے۔ جو اس میں دکھایا
گیا ہے، لیکن اگر پلاننگ کے پیچھے ایک بڑا مقصد تھا تو آج یورپین بھی اس
میں مبتلا ہیں یا پھر صرف خبروں کی حد تک بے بسی کا عالم پیدا کر رہے اور
کوئی دوسرے ہدف کی طرف گامزن ہیں۔ خیر میرا رب سب کچھ جانتا ہے اور بڑی
حکمت والا ہے۔ کورونا کا آغاز ہوتا ہے، چائنا متاثر ہونا شروع ہوا، چلتے
چلتے تمام عالم میں یہ وباء پھیل چکی ہے، اگر کوئی ملک بچا ہوا ہے تو وہ جس
کے پاس ابھی تک کورونا ٹیسٹنگ کٹس نہیں۔ جنوری سے مارچ تک حکومت پاکستان نے
اپنے وزیروں اور مشیروں سے میٹنگ کرکے اس کو وقت سے پہلے حفاظتی تدابیر کے
لیے مشاروت کی، فنڈز جاری ہوئے لیکن اس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ منظر عام
پر نہ آسکا۔ میرے رائے کے مطابق اگر کوئی مثبت نتیجہ سامنے آتا تو پھر کور
کمانڈرز کی 13مارچ کو ہونے والی میٹنگ نہ ہوتی۔ اس سے اندازہ لگا یا جا
سکتا ہے کہ وقتی وزیروں اور مشیروں نے کس قدر اس وبا کو سنجیدگی سے لیا کہ
مجبوراً پاک افواج کو اس وبا سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے فرنٹ لائن پر
لانا پڑا۔ میٹنگ کے بعد حفاظتی تدابیر، سامان اور کمانڈ اینڈ کنٹرول قائم
کیا گیا۔ چائنا سے حفاظتی کٹس اور وینٹیلیرز ماسک آنا شروع ہوگئے۔ ڈاکٹر
پیرا میڈیکل سٹاف اور دیگر ادارے فرنٹ لائن پر آگئے تاکہ انسانی زندگی کی
کو بچایا جا سکے اور پاکستانی قوم کو اس وباء سے محفوظ بنانے کی بھر پور
کوشش کی جائے۔ لاک ڈاؤن شروع ہوتا ہے۔ پاکستان میں موجود حفاظتی سامان نا
پیدا ہونا شروع جاتا ہے، سیٹناٹائیزر جسے کوئی پوچھتا نہیں تھا، ماسک جو
عام روٹین میں استعمال نہیں ہوتا تھا جوئے شیر بن گیا۔ ایک طر ف قوم کو
محفوظ بنانے کی کوشش تو دوسری طرف قوم ہی قوم کو موت کے منہ میں دھکیلنے
میں مصروف ہو گئی، انسانیت کی بقاء کی بجائے مال بنانے میں تاجر حضرات نے
بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔چائنا سے حفاظتی ساما ن پہنچنا شروع ہو گیا۔ جنرل افضل
صاحب نے اس سامان کو ایک سروے کے مطابق تقسیم کرکے متعلقہ سیاسی وزیروں اور
مشیروں تک پہنچا دیا تاکہ اپنے ہسپتال کے متعلقہ میڈیکل اور پیرا میڈکل
سٹاف کو محفوظ بنائیں کیونکہ وہ فرنٹ لائن کے سپاہی ہیں۔ مگر دیکھنے اور
سننے میں آیا کہ اس میں بھی بندر بانٹ شروع ہو گئی حتیٰ کہ اعلیٰ شخصیات کے
بچوں کی کٹس پہنی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئیں۔ ڈاکٹر ز نے حفاظتی
سامان کے نہ ملنے پر ہڑتالیں شروع کر دیں، لاٹھی چارج تک نوبت آگئی۔ مگر
ینگ ڈاکٹرز سراپا احتجاج بن گئے۔ جیسے ہی کسی ڈاکٹر، نرس پیرا میڈیکل سٹاف
کی رپورٹ پازیٹو آتی تو پھرہنگامہ شروع جاتا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ حفاظتی
ساز و سامان متعلقہ سٹاف تک پہنچے سے پہلے ہی کہیں ادھراُدھر ہو جاتا ہے
حالات سنگینی کی طرف جا رہے ہیں لیکن بااثر شخصیات انجوائے کر رہی ہیں۔ پھر
فیصلہ آتا ہے کہ یہ حفاظتی سامان متعلقہ ڈاکٹرز انچارج کے حوالے کیا جائے
لیکن شفافیت پھر بھی منہ چڑانے لگی، فی الوقت فیصلہ نظر آیا کہ ان کٹس کو
پاک آرمی خود ذمہ داران کے حوالے کرے گی۔ افسوس کے ساتھ تحریر کر رہا ہوں
کہ یہ کورونا واقعی کوئی شغل اور پری پلاننگ کا حصہ ہے جسے یہ لوگ جانتے
ہیں جس کی وجہ سے یہ عہدیداران غیر سنجیدہ ہیں اگر یہ وبا واقعی وبا ہے تو
پھر حفاظتی سامان جو ڈاکٹرز کے پاس ہونا چاہیے تھا وہ غیر متعلقہ شخصیات
اور ان کے بچوں تک کیوں پہنچا، چار روز پہلے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی
تصویر نے سنجیدگی اور غیر سنجیدگی کے پر خچے اڑا دیئے۔ وہ اعلیٰ عہدیدار
ہستی جو خود ایک بہت بڑا پلیٹ فارم ویلفیئر کے نام سے چلا رہی ہے، اس کے
زیر سایہ دو بڑے ہسپتال فاؤنڈیشن کے نام سے چل رہے ہیں وہ اور اس کی ٹیم
ایسے ماسک پہنے ہوئے ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں جس فی میل ڈاکٹر نے نارمل
سرجیکل ماسک پہن رکھا تھا، یعنی جو ماسک ڈاکٹر کی اولین ضرورت تھی وہ غیر
ضروری اور غیر متعلقہ شخصیات پہنے ہوئی تھیں جو ان شخصیات کے لیے کافی تھے
وہ ڈاکٹرز کو میسر آ رہے تھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ عہدیداران
قوم کے لیے ایک واقعی مسیحا ہیں تو پھر ان کے پاس یہ میڈیکل کا حفاظتی
سامان کیسے پہنچا؟؟حتیٰ کہ تصویر نے الیکٹرانک میڈیا پر نشر ہونے پر مجبور
کر دیا۔ لیکن کسی شخصیت کی طرف سے معذرت نہیں آئی۔ ان سب کی کارکردگی پر
سوالیہ نشان بن چکا ہے اس کی ایک اور مثال ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو عہدے
سے ہٹانا، نیا عہدیدار لانا بلکہ ریٹائرڈ جنرل عاصم سلیم باجوہ صاحب کو ایک
خاص عہدہ دینا، ان مشیروں اور وزیروں کی کارکردگی پر تماچہ ہے۔ اگر یہ پبلک
آفس ہولڈرز اپنا کام ایمانداری اور دل سے لگی سے سر انجام دے رہے ہوتے پھر
مسلح افواج سے ریٹائرڈشخصیات کی ضرورت کیوں محسوس ہوتی ہے۔ اس کا مطلب ہے
کہ ہمیں اعلیٰ عہدے چاہیے اپنے تحفظ یا ناجائز اختیارات کا استعمال کرنے
لیے۔ خدارہ پاکستانی بنو، پاکستان سے محبت کرنا سیکھو، کورونا نے بھی عملی
طور پر ثابت کردیا کہ مال و دولت کس کام، نہ کسی دوسرے ملک جا سکتے ہو نہ آ
سکتے ہو۔ بیرون ملک کی جائیدادیں اور سرمایہ فضول، اس سے دوسرے لوگ ہی
فائدہ اٹھائیں گے جس ملک کا لوٹا ہے وہ خسارے میں ہی رہے گا۔ التماس ہے ذر
ا سوچیں کہ ہمارے قول و فعل اور ذمہ دار ی میں فرق اور غفلت کس وجہ سے پیدا
ہو رہی ہے۔ میں پر امید ہوں کہ سب ایک پاکستانی ہو کر اس ملک اور قوم کا
سوچیں گے۔ اللہ کریم ہم سب میں وطن ِ عز یز پاکستان سے سچی محبت پیدا
فرمائے آمین تاکہ ہم منافقانہ خصلتوں سے باز رہیں۔
|