ڈاکٹر سید اختر حسین اختر:ایک روشن دماغ تھا نہ رہا

عالمی شہرت کے حامل مایہ ناز ادیب دانشور ،ماہر تعلیم اور صحافی ڈاکٹر سید اختر حسین اختر نے ترک رفاقت کی ۔3مئی 1937کوٹیگرام(بالا)تحصیل چک درہ ضلع دیر مالا کنڈ دویژن صوبہ خیبر پختون خواہ سے طلوع ہونے والا علم و ادب کا آفتاب جہاں تاب 15 مارچ 2011کی شام کو لاہور کے افق پر غروب ہو گیا ۔یہ درویش منش تخلیق کار پوری دنیا کو اپنے افکار کی ضیا پاشیوں سے منور کرنے کے بعد عدم کی بے کرا ں وادیوں کی جانب سدھار گیا ۔سوڈیوال کالونی ملتان روڈ لاہور سے کچھ فاصلے پر واقع شہر خاموشاں کے ایک گوشے میں یہ لافانی ادیب آسودہ ء خاک ہے ۔اپنی تمام زندگی علم و ادب کے فروغ کے لیے وقف کر دینے والے حریت فکر کے اس جلیل القدر مجاہد کا نام جریدہ عالم پرتا ابد ثبت رہے گا ۔انھوں نے علم ،ادب ،تاریخ ،تہذ یب و ثقافت ، زندگی کی اقدار عالیہ اور معاشرتی زندگی میں امن و آشتی کے فروغ کی خاطر جو گراں قدر خدمات انجام دیںوہ ہماری قومی تاریخ اور تاریخ ادب کا ایک درخشاں باب ہیں ۔ان کی وفات ایک بہت بڑا سانحہ ہے ۔
برس گیا بہ خرابات آرزو تیرا غم
قدح قدح تیری یادیں سبو سبوتیرا غم

ڈاکٹر سید اختر حسین اختر ایک عظیم محب وطن پاکستانی تھے ۔وطن ،اہل وطن اور پوری انسانیت کے ساتھ ان کی والہانہ محبت اور قلبی وابستگی کا ایک عالم معترف تھا۔ان کی مادری زبان اگرچہ پشتو تھی مگر انھیں دنیا کی بیشتر اہم زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ان میں اردو ،فارسی ،عربی ،انگریزی،ہندی،پنجابی ،سندھی ،سرائیکی،بنگالی ،ہندکو،بلوچی ،جاپانی ،چینی اور جرمن زبانیں قابل ذکر ہیں ۔عالم ادبیات کا انھوں نے عمیق مطالعہ کیا اور اس طرح تہذیبی ہم آہنگی کے لیے مقدور بھر سعی کی ۔دنیا بھر کے ادیب ان کی علمی وادبی خدمات کو بہ نظر تحسین دیکھتے تھے ۔ان میں رالف رسل ،جیکوئس دریدا ، سبط الحسن ضیغم ، استاد دامن ،قرة العین حیدر،ڈاکٹر نثار احمد قریشی ،ڈاکٹر بشیر سیفی ،میاں اقبال زخمی ،شریف کنجاہی ،سمیع اللہ قریشی ،احمد حسین قلعہ داری ،راجا رسالو،محمد آصف خان ،نور احمد ثاقب ،اقتدار واجد،رام ریاض،معین تابش اور صاحب زادہ رفعت سلطان شامل ہیں ۔ان کا حلقہءاحباب بہت وسیع تھاا ن کی دوستیاں لا محدود تھیں لیکن کسی کے ساتھ معمولی رنجش کے بھی وہ روادار نہ تھے ۔ان کی شخصیت بے لوث محبت ،خلوص ،دردمندی ،ایثار ،انسانی ہمدردی، حریت فکر و عمل اور قومی وقار اور سر بلندی کے اوصاف سے متمتع تھی ۔

پنجابی زبان و ادب کی عظیم روایات سے انھیں عشق تھا ۔وہ پنجابی زبان کے کلاسیکی شعرا کے بہت بڑے مداح تھے ۔وہ شاہ حسین ،بلھے شاہ ،حضرت سلطان باہو،میاں محمد بخش،وارث شاہ،علی حید ر ملتانی اور پیر مہر علی شاہ کے شیدائی تھے ۔پنجابی زبان کے کلاسیکی ادبی ورثے سے متاثر ہو کر انھوں نے اس زبان کی ادبی روایات کو آگے بڑھانے کا عزم صمیم کر لیا۔1965میں انھوں نے اپنا ایک ادبی مجلہ جاری کیا جس کا نام ” لہراں“ تھا۔وقت گزرنے کا ساتھ ساتھ اس رجحان سازادبی مجلے نے ایک مضبوط اور مستحکم روایت کی صورت اختیار کر لی ۔اپنی مدد آپ کے تحت شائع ہونے والا پنجابی زبان کا یہ ادبی مجلہ سفاک ظلمتوں میں ستارہءسحر بن کر اذہان کی تطہیر و تنویر کا وسیلہ ثابت ہوا ۔روشنی کا یہ سفر اب تک جاری ہے اور ” لہراں “ کا مئی 2011کا شمارہ دیکھ کر آنکھیں بھیگ بھیگ گئیں ۔مجلہ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ شائع ہو ا ہے صر ف مجلس ادارت میں سے ڈاکٹر سید اختر حسین اختر کانام حذف کر دیا گیا ہے اب یہ تاریخی مجلہ ان کی یاد میں شائع ہوا کرے گا ۔ اب ان کا نام لہراں کے بانی ایڈیٹر کے طور پر درج ہے یہی تو تاریخ کا مسلسل عمل کہلاتاہے ۔
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا

ایک وسیع النظر ادیب کی حیثیت سے انھوں نے اپنی تخلیقی فعالیت کا اس طرح اثبات کیا کہ پوری دنیامیں ان کے کام کی تحسین ہوئی ۔پنجابی زبان وادب کے فروغ کے لیے ان کی عظیم الشان خدمات کا علمی و ادبی حلقوں میں اعتراف کیا گیا ۔انھیں متعدد ملکی اور بین الاقوامی ایوارڈ ملے جن میں سے اہم ایوارڈ حسب ذیل ہیں: استاد عشق لہر ایوارڈ،مسعود کھدر پوش ایوارڈ،بلھے شاہ ایوارڈ،سائیںمولا بخش ایوارڈ،پروفیسر پیارا سنگھ سرومنی ایوارڈ(کینیڈا)، بھائی ویر سنگھ ایوارڈ(بھارت)

وہ تمام عمر ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز پرورش لوح و قلم میں مصروف رہے ۔ایک مستعد ،جری اور زیرک تخلیق کار کے طور پر انھوں نے بڑے زوروں سے اپنے آپ کو منوایا۔ان کی تخلیقی فعالیت کا جادو سر چڑھ کر بولتا تھا ۔اکثر نو آموزادیبوں کو ان کے وسیلے سے ادبی حلقوں تک رسائی نصیب ہوئی ۔ان کا ادبی مجلہ نو خیز ادیبوں کی ایک تربیت گاہ تھا جہاں ہونہار اور باصلاحیت ادیبوں کی صلاحیتوں کو صیقل کیا جاتا تھا ۔اس تمام کام میں وہ ہمہ وقت مصروف رہتے اور اپنا سب کچھ اس کام کے لیے وقف کر دیا ۔ان کے ادبی منصب کے اعتراف میں انھیں جو اہم ذمہ داریاں اور اعزاز ملے ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں:

پنجابی سائنس بورڈ کی مجلس عاملہ کے رکن ،مسعود کھدر پوش ٹرسٹ لاہور کے ادبی مشیر ،پاکستان رائٹرز گلڈ کے سینئیر رکن ،پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف لینگیویج آرٹ اینڈ کلچر (PILAC)کے بورڈ ممبر اور لہراں ادبی بورڈ کے جنرل سیکرٹری ۔یہاں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ لہراں ادبی بورڈ کا قیام فروغ علم و ادب میں کلید ی اہمیت کا حامل اقدا م ہے ۔یہ اسی طرز پر کام کرتا ہے جس پر شبلی نعمانی کا دارالمصنفین اعظم گڑھ کام کرتا تھا ۔ان کی خواہش تھی کہ دنیابھر سے شاہ کار ادبی تخلیقات کے تراجم پنجابی میں شائع کیے جائیں ۔اس طرح دو مختلف تہذیبوں کے مابین سنگم کی ایک صور ت پیدا ہو سکتی ہے ۔لہراں ادبی بورڈ کو اپنی زندگی کا ایک اہم ترین نصب العین قرار دیتے تھے۔اس کے زیر اہتمام وہ ان نابغہ روزگار ادیبوں کے کارہائے نمایاں منظر عام پر لانے کے آرزومند تھے جو ابلق ایام کے سموں کی گرد میں اوجھل ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے لہراں کے متعد خاص نمبربھی شائع کیے ۔ان میں سے چند کے نام یہ ہیں:
خواجہ فرید نمبر،رفیع پیر نمبر ،افضل احسن رندھاوا نمبر،عشق لہر نمبر،امرتا پریتم نمبر،فیض نمبر ،مسعود کھدر پوش نمبر ،احمد راہی نمبر ،شریف کنجاہی نمبر اور ڈاکٹر فقیرمحمد فقیر نمبر ۔

ان کی زندگی میں لہراں ادبی بورڈ نے جوکارہائے نمایاں انجام دئیے ان کو پوری دنیا میں پذیرائی ملی ۔ایک سو کے قریب کتب کی اشاعت کے منصوبے پر کام جاری تھا۔ان میں سے نصف زیور طباعت سے آراستہ ہو کر منظر عام پر آ چکی ہیں ۔ڈاکٹر سید اختر حسین اختر کی زندگی ایک شمع کے مانند گزری ۔روشنیوں کے جس سفر کا آغاز انھوں نے نصف صدی قبل کیا تھا وہ تا ابد جاری رہے گا ۔
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
Dr. Ghulam Shabbir Rana
About the Author: Dr. Ghulam Shabbir Rana Read More Articles by Dr. Ghulam Shabbir Rana: 80 Articles with 257229 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.