تقویٰ اور علم میں بے مثال امامِ حدیث

خستہ حال کمرے میں پھٹی پرانی چٹائی بچھی ہوئی تھی۔ جس پروہ اکیلے بیٹے قرآن پاک کی تلاوت کررہے تھے کمرے میں ایک تھیلا تھا جس میں وہ رجسٹر تھے جن میں احادیث رسولؐ لکھی ہوئی تھیں اور ایک پانی کا برتن تھا جس سے وضو کیا کرتے تھے۔ یہی ان کی کل کائنات تھی۔ اس کے علاوہ نہ کوئی مال نہ کوئی ورثہ تھا وہ اپنے وقت کے امام حدیث تھے، انہیں علم حدیث سے محبت تھی اور دنیا سے نفرت وہ ایسے ہی جیتے تھے جیسے کوئی انسان قید خانے میں ہو۔ جو کبھی مال ہاتھ ا ٓتا بھی تو لوگوں میں تقسیم کر دیتے۔ خود سادگی سے رہتے تھے اور زیادہ سے زیادہ وقت قرآن و حدیث کے فروغ میں گزارتے۔
مقاتل بن صالح خراساں کے رہنے والے تھے وہ ان کے پاس اکثر آیا کرتے تھے ایک روز ملاقات کے لیے آئے تو اسی بوسیدہ چٹائی پر بیٹھے گفتگو کر رہے تھے کہ کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ انہوں نے اپنی خادمہ سے کہا کہ دیکھو بیٹی کون ہے۔ وہ واپس آ کر بولی کہ محمد بن سلیمان (بصرہ کا امیر) کا قاصد آیا ہے۔ فرمایا اس کو جا کر کہہ دو کہ وہ تنہا میرے پاس آئے۔ چنانچہ قاصد آیا اور اس نے امیر بصرہ کا خط پیش کیا۔ خط کا مضمون یہ تھا:
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
یہ خط محمد بن سلیمان کی طرف سے حماد بن سلمہ کے نام۔
امابعد: خدا آپ کو اسی طرح سلامت رکھے جس طرح اس نے اپنے دوست اور اطاعت گزار لوگوں کو سلامت رکھا ہے۔ ایک مسئلہ درپیش ہے، اگر آپ تشریف لائیں تو اس کے بارے میں آپ سے استفادہ چاہتا ہوں۔ والسلام۔
خط پڑھ کر انہوں نے اپنی خادمہ سے فرمایا: قلم دوات لاؤ! اور اس خط کی پشت پر یہ جواب لکھوایا:
امابعد: آپ کو بھی خدا اسی طرح سلامت رکھے جس طرح اپنے دوستوں اور فرمانبرداروں کو سلامتی عطا کرتا ہے۔ میں نے بہت سے ایسے علماء کی صحبت اختیار کی ہے جو کسی کے پاس جایا نہیں کرتے تھے اس لیے میں بھی معذور ہوں۔ اگر آپ نے کوئی مسئلہ سمجھنا ہے تو آپ خود تشریف لائیں اور جو دریافت کرنا چاہیں دریافت کریں۔ اور ہاں اگر آنے کا ارادہ ہو تو تنہا تشریف لائیے گا۔ آپ کے ساتھ پروٹوکول نہ ہو، ورنہ میں آپ کے ساتھ اور اپنے ساتھ خیر خواہی نہ کر سکوں گا۔ والسلام۔
قاصد یہ جواب لے کر واپس چلا گیا۔ مقاتل بن صالح بیان کرتے ہیں کہ میں ابھی بیٹھا ہوا تھا کہ کسی نے پھر دروازہ کھٹکھٹایا،خادمہ سے فرمایا جا کر دیکھو کون آیا ہے۔ اس نے آ کر جواب دیا: محمد بن سلیمان تشریف لائے ہیں۔ فرمایا ان سے کہہ دو تشریف لے آئیں مگر تنہا آئیں۔ چنانچہ محمد بن سلیمان اندر تشریف لائے اور سلام کر کے بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد گویا ہوئے کہ کیا وجہ ہے کہ جب بھی میں آپ کے سامنے ہوتا ہوں میرے اوپر خوف طاری ہو جاتا ہے۔ امام حماد بن سلمہ نے یہ سن کر ثابت البنانی کے واسطے سے حضرت انس t کی زبانی یہ حدیث بیان کی کہ رسول اکرمe کا ارشاد ہے کہ ’’جب عالم اپنے دین کے ذریعہ خدا کی خوشنودی چاہتا ہے تو اس سے ہر چیز ڈرنے لگتی ہے اور جب وہ اس سے دنیا کے خزانے چاہتا ہے تو وہ ہر چیز سے ڈرنے لگتا ہے۔‘‘ اس کے بعد محمد بن سلیمان نے اجازت چاہی اور چالیس ہزار درہم پیش کیے اور عرض کیا کہ انہیں اپنی ضروریات میں صرف فرمائیں۔ امام حماد بن سلمہ نے فرمایا: ’’مجھے ان کی ضرورت نہیں، ان کو لے جاؤ اور جن لوگوں پرظلم کر کے انہیں حاصل کیا ہے ان کو دے ڈالو۔‘‘ محمد بن سلیمان نے جواب دیا کہ خدا کی قسم! میں یہ اپنے خاندانی ورثہ سے دے رہا ہوں۔ امام صاحب نے فرمایا: ’’مجھے اس کی ضرورت نہیں، مجھے معاف کرو اﷲ تمہیں معاف کرے، تم اس کو تقسیم کر دو۔‘‘ محمد بن سلیمان نے جواب دیا: میری تقسیم میں اگر کسی مستحق کو نہ ملا تو ناانصافی کی شکایت کرے گا۔ امام صاحب نے پھر یہی جواب دیا کہ مجھے معاف کرو۔‘‘ یہ حدیث کے امام حماد بن سلمہ تھے جو زہدو روع کے پیکر، مستغنی، حق گوئی میں بے مثال اور اعلیٰ مرتبہ و مقام کے حامل تھے۔
اﷲ سے بہت ڈرتے تھے، عبادت میں بہت زیادہ مصروف رہتے۔ حافظ ابن حجر نے محدثین کے احوال لکھے ہیں ان کے زمانے میں ایک شخص عفان نے لکھا ہے کہ میں نے حماد بن سلمہ سے زیادہ عبادت کرنے والوں کو دیکھا ہے مگر ان سے زیادہ تسلسل اور یکسوئی کے ساتھ بھلائی کرنے والا، تلاوت قرآن کرنے والا اور ہر کام اﷲ ہی کے لیے کرنے والاحماد بن سے زیادہ کسی کو نہیں دیکھا (تذکرۃ الحفاظ جلد نمبر 1 صفحہ 183)
امام صاحب نے اپنی زندگی کے شب و روز کو تقسیم کر رکھا تھا وہ اپنے طلبا کو درس حدیث دینے کے بعد جو وقت گزرتا اس میں قرآن مجید کی تلاوت کرتے تھے یا پھر نوافل ادا کرتے یا تسبیح پڑتے تھے۔ (صفوۃ الصفوۃ جلد نمبر 3 صفحہ 274)
انہوں نے علم حدیث حاصل کر کے آگے حدیث کو فروغ دیا ان کے مشہور شاگردوں کے نام یہ ہیں:
’’امام شعبہ بن المجاج (م 160ھ)، امام ابن جریج (م 150ھ)، امام عبداﷲ بن مبارک (م 181ھ)، امام عبدالرحمن بن مہدی (م198ھ)، امام یحییٰ بن سعید القطان (م 198ھ)، امام ابوداؤد طیالسی (م 204ھ)۔
حدیث کے تمام مجموعوں میں امام حماد بن سلمہ کی روایات موجود ہیں۔ خصوصیت سے امام ابوداؤد طیالسی نے جو ان کے شاگرد ہیں، اپنی مسند ابوداؤد میں کئی سو روایتیں ان کے واسطے سے نقل کی ہیں۔
امام حماد بن سلمہ حدیث بیان کرنے میں بہت محتاط تھے۔ آخر انہوں نے ایک دن ارادہ کر لیا کہ میں حدیث نبوی بیان نہیں کروں گا۔ ایک رات انہیں خواب میں امام ایوب جو امام حماد کے استاد تھے، ملے اور انہوں نے امام حماد سے فرمایا: ’’تم احادیث روایت کیا کرو۔‘‘ حافظ ذہبی (م 748ھ) نے امام حماد کا یہ قول نقل کیا ہے:
’’حدیث بیان کرنے کا میرا ارادہ نہیں تھا، حتیٰ کہ امام ایوب نے مجھے خواب میں تحدیث کا حکم دیا۔‘‘
امام حماد بن سلمہ نے بہت لمبی زندگی گزاری وہ آخر عمر تک حدیث پڑھاتے رہے۔ 67 ہجری میں ان کی عمر 80 سال تھی وہ بصرہ میں رہتے تھے درس دیا کرتے تھے۔ یہیں ان کا انتقال ہوا تھا ان کے جنازے میں علماء اور طلباء کے ساتھ بہت سے لوگوں نے شرکت کی۔ ہر آنکھ آنسو بہا رہی تھی کہ آج حدیث کا بہت بڑا امام ہم سے جدا ہو گیا۔ اﷲ ان پر رحمت نازل فرمائے۔ (تذکرۃ الحفاظ جلد نمبر 1 صفحہ 183)
 

Abdul Waris Sajid
About the Author: Abdul Waris Sajid Read More Articles by Abdul Waris Sajid: 53 Articles with 51851 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.