تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو’’ بنگلہ دیش‘‘

اگرچہ بنگلہ دیش کی موجودہ حکومت باوجوہ ہندوستان کے بہت زیادہ زیر اثر ہے ،البتہ پچھلے کچھ عرصے سے بھارت کی مودی سرکار نے مسلم دشمنی پر مبنی جو پالیسیاں اپنا رکھی ہیں اس کی وجہ سے بنگلہ دیش کے عوام وخواص میں ہندوستان کے خلاف خاصا اضطراب پایا جاتا ہے اور اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ آنے والے دنوں میں بنگلہ دیش کے عوام میں بھارت مخالف جذبات مزید کھل کر سامنے آجائیں جس کے نتیجے میں بنگلہ دیش بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظر ثانی پر مجبور ہوجائے۔

بنگلہ دیش جنوبی ایشیا میں واقع ایک اہم ملک ہے۔ یہ دنیا میں آٹھویں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے جسکی آبادی 161,000,000 سے زیادہ ہے۔ بنگلہ دیش کا رقبہ 147،570 مربع کلومیٹر (56،980 مربع میل) ہے، جو اسے دنیا کے سب سے زیادہ گنجان آباد ممالک میں شامل کرتا ہے۔بنگلہ دیش کے مغرب، شمال اور مشرق میں ہندوستان، جنوب مشرق میں میانمار اور جنوب میں خلیج بنگال کی مشترکہ سرحدیں ہیں۔یہ نیپال اور بھوٹان سے ہندوستان کے سلگوری کوریڈور کے ذریعہ اور شمال سے ہندوستان کی ریاست سکم کے ذریعہ بالترتیب چین سے الگ ہے۔

دارالحکومت اور سب سے بڑا شہر، ڈھاکہ جو کہ بنگلہ دیش کا معاشی، سیاسی اور ثقافتی مرکز ہے۔ سب سے بڑی بندرگاہ، چٹاگانگ، دوسرا بڑا شہر ہے۔بہت سی ندیوں اور اندرونی آبی گزرگاہوں کے ساتھ دریائے برہم پترا اور گنگادریا خلیج بنگال کے ساتھ شامل ہو جاتا ہے۔پہاڑ اور جنگلات شمال مشرقی اور جنوب مشرقی علاقوں کو ڈھانپے ہوئے ہیں۔

بنگلہ دیش میں آبی حیات کی بھاری تعداد اور مقدار موجود ہے۔یہاں سندربن جیسے خطرناک اور گھنے جنگل بھی ہیں جن میں شیر بھی بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں ۔یاد رہے کہ شیر کو بنگلہ دیش میں قومی جانور کا درجہ حاصل ہے۔۔بنگلہ دیش بنگال کے خطے کا زیادہ اہم اور مشرقی حصہ تشکیل دیتا ہے۔۔
 
بنگلہ دیش کی بیرون ملک تجارت، رومن دنیا کے ساتھ روابط، مشرق وسطی میں عمدہ ململ اور ریشم کی برآمد، اور جنوب مشرقی ایشیاء میں فلسفہ اور فن کو پھیلانے کے لئے یہ ادوار قابل ذکر تھیں۔خلافت عباسیوں کے ساتھ تجارت کے ذریعہ، سلطنت پالا کے دور میں اسلام کا تعارف ہوا تھا۔ پھر بھی، بختیار خلجی کی ابتدائی فتح اور اس کے نتیجے میں دہلی سلطنت کے قیام اور مشرقی بنگال میں شاہ جلال کی تبلیغ کے بعد، پورے علاقے میں اسلام کی اشاعت ہوئی اور مذہب اسلام پھیلتا چلا گیا۔

ایک سروے کے مطابق بنگلہ دیش کو تجارت کے شعبے میں تیزی کے ساتھ ترقی پذیر ملک قراد دیا گیا ہے ۔۔ یاد رہے کہ 1576 میں بنگال کی سلطنت مغل سلطنت کا حصہ بن گئی، لیکن اس کے بعد ’’سوری خاندان ‘‘برسراہ اقتدار آگیا۔ خاص طور پر شیر شاہ سوری کا دور اس ضمن میں خاص اہمیت رکھتا ہے۔یاد رہے کہ شیر شاہ سوری نے ہی دہلی پر اپنے عہد حکومت میں GT Roadتعمیر کی تھی جو پشاور سے کلکتہ تک تھی۔

یاد رہے کہ شیر شاہ سوری کی وفات کے بعد بنگال پر دوبارہ مغل سلطنت قائم ہوگی اور یہاں پر اس دوران ریشم کی صنعت نے بہت زیادہ ترقی کی جس کی وجہ سے اسے بہت شہرت حاصل ہوئی ۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ 1700 کے اوائل میں اورنگ زیب کی وفات کے بعد بنگال میں وہاں کے نوابوں نے زیادہ اہمیت حاصل کر لی اورسلطنت دہلی کی عمل داری بتدریج کم ہوتی چلی گئی اور بنگال ایک نیم آزاد ریاست بن گیا۔

برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی نے 1757 میں نواب سراج الدولہ کو پلاسی کی جنگ میں شکست دے کر اس علاقے کو فتح کرلیا۔جدید بنگلہ دیش کی سرحدیں اگست 1947 میں بنگال اور ہندوستان کی علیحدگی کے ساتھ ہی قائم کی گئیں،1971میں سانحہ مشرقی پاکستان رونما ہوا اوربھارتی سازشوں کے نتیجے میں پا کستان کا مشرقی بازو الگ ہو گیااور بنگلہ دیش وجود میں آیا۔

واضح رہے کہ موجودہ بنگلہ دیش میں پارلیمانی نظام حکومت قائم ہے۔بنگلہ دیش کو8 انتظامی ڈویژنوں اور 64اضلاع میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اگرچہ اس ملک کو روہنگیا پناہ گزینوں کے بحران، بدعنوانی اور آب و ہوا کی تبدیلی کے منفی اثرات کے چیلنجوں کا بھی سامنا ہے، لیکن یہ دنیا کی ابھرتی اور ترقی پذیر معیشتوں میں سے ایک ہے۔۔اس کی مجموعی گھریلو مصنوعات مارکیٹ ایکسچینج ریٹ کے لحاظ سے 39 ویں اور خریداری کے لحاظ سے 29 ویں نمبر پر ہے۔ جو ہندوستان کے بعد جنوبی ایشیاء میں دوسرے نمبر پر ہے۔ بنگلہ دیش کی فی کس آمدنی 1143 عام اور خریداری کی طاقت کے ذریعے 136 ویں نمبر پر ہے۔ورلڈ ٹریول اینڈ ٹورازم کونسل (ڈبلیو ٹی ٹی سی) نے 2019 میں اطلاع دی تھی کہ بنگلہ دیش میں ٹریول اور ٹورازم انڈسٹری نے براہ راست 2018 میں 1,180.500 ملازمتیں پیدا کیں۔آئی ایم ایف کے مطابق، اس کی فی کس آمدنی 2019 میں1,906 امریکی ڈالر تھی، جس کی جی ڈی پی 317 بلین ڈالر تھی۔

واضح رہے کہ موجودہ اعداوشمار اور تخمینے کورونا کی عالمی وبا ء کے آنے سے پہلے کے ہیں۔بہر کیف توقع رکھنی چاہیے کہ ماضی کی تما م تر تلخیوں کو بھلا کر عالم اسلام کے یہ دو اہم ملک باہمی تعلقات کو مزید وسعت دیں گے
 

Hammad Asghar
About the Author: Hammad Asghar Read More Articles by Hammad Asghar: 16 Articles with 12720 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.