اداکار۔کمپئرشاعر۔ادیب اور سیاست دان طارق عزیز مرحوم
پچاس سال پہلے 34 برس کی عمر میں ریڈیو ۔ٹیلیویژن اور فلموں میں اداکار اور
صداکار کی حیثیت سے اپنا لوہا منوا چکے تھے اور ان کی مقبولیت عروج پر تھی
۔ان کا ٹوبہ ٹیک سنگھ سے بھی گہرا تعلق تھا ان کی ہمشیرہ بیگم طاہرہ لطیف
کی شادی محلہ قاضیاں والا میں ٹوبہ ٹیک سنگھ سے ضلع کونسل کے سابق وائس
چیئرمین اور بایاں بازو کی سیاسی جماعت نیشنل عوامی پارٹی (بھاشانی گروپ )
کے اہم مقامی رہنما میاں محمد لطیف مرحوم کے ساتھ ہوئی تھی ۔طاہرہ لطیف کے
سسر میاں خادم حسین مرحوم بھی ترقی پسند سیاستدان تھے اور انہیں خان
عبدالغفار خان عرف باچا خاں کے علاوہ قیام پاکستان سے پہلے کئی ہندو۔سکھ
اور مسلمان کیونسٹ رہنماوں کی میزبانی کا شرف حاصل رہا ۔
نصف صدی قبل 23 مارچ 1970 کی ٹوبہ ٹیک سنگھ میں منعقدہ کسان کانفرنس میں
شرکت کے لئے طارق عزیز بھی ٹوبہ ٹیک سنگھ آئے اور مغربی اور مشرقی پاکستان
کے علاوہ غیر ممالک سے آنے لاکھوں کے اجتماع کا جوش و خروش دیکھ کر انہوں
نے فیصلہ کیا کہ وہ بھی کانفرنس سے خطاب کریں گے مگر مقررین کی طے شدہ
فہرست پہلے ہی بہت لمبی تھی ۔انکے بہنوئی میاں لطیف نے جو خود بھی کانفرنس
کی تنظیمی کمیٹی کے رکن تھے نے کمیٹی کے انچارج چوہدری فتح محمد مرحوم اور
ایک اور رکن غیاث الدین جانباز مرحوم سے بات کی اور اس طرح ان کا نام بھی
مقررین میں شامل کر لیا گیا ۔انکی شعلہ بیانی نے سامعین کو حیران کردیا اور
جب انہوں نے اعلان کیا کہ آج سے وہ غریب کسانوں اور مزدوروں کے حقوق کی جنگ
لڑنے کے لئے سیاست میں حصہ لینے کا اعلان کرتے ہیں تو مجمع کئی منٹ تک
تالیاں بجا تارہا ۔ان کے علاوہ ایسا ہی منظر اس وقت دیکھنے میں آیا جب
مولانا بھاشانی نے کہا لاکھوں شرکاء نے جو لال رنگ کی ٹوپیاں پہن رکھی ہیں
در اصل یہ کربلا کے خون کی علامت ہیں ۔اسی طرح جب گورڈن کالج راولپنڈی کی
طالبہ غزالہ شبنم نے یہ کہا کہ انقلاب "بیلٹ" سے نہیں بلکہ bullet سے آتا
ہے تو ایسا ہی منظر تھا۔جب بنگلہ دیش کے سابق ڈپٹی وزیراعظم مسیح الرحمان
مرحوم نے یہ کہا آیا خان(یحیی خان ) تو غدار ہے غدار ہے غدار ہے یا جب فیض
احمد فیض نے اپنی شہرہ آفاق نظم "ہم بشیر بھی ہیں ہم نذیر بھی ہیں " پڑھی
تو لاکھوں لوگ طارق عزیز کی طرح ہی تالیاں بجاتے اور ناچتے رہے ۔
کانفرنس کے بعد اس وقت کے مارشل لاء حکومت کے وزیر اطلاعات نوابزادہ شیر
علی خان نے طارق عزیز کی پاکستان ٹیلی وژن سے ملازمت ختم کردی۔انکے دوست
معراج محمد خان نے طارق عزیز کی ملاقات شہید ذوالفقار علی بھٹو سے کروائی
اور بھٹو نے طارق عزیز کو پیپلزپارٹی میں شامل کرکے انھیں معراج محمد خان
کے ساتھ پارٹی کی انتخابی مہم کے جلسوں سے خطاب کی ذمہ داری سونپی۔طارق
عزیز کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ پارٹی کارکنان ان سے وقت لینے کے لئے
کئی کئی دن قبل رابطہ کرتے تھے ۔ٹوبہ ٹیک سنگھ کے کارکنوں سے وعدہ کےمطابق
پہلا جلسہ طارق عزیز نےٹوبہ میں اور دوسرا جلسہ نواحی علاقے شورکوٹ کینٹ
میں کیا وہ معراج محمد خان کے ساتھ حیدرآباد میں جلسہ سے خطاب کر کے فارغ
ہونے تو ان دونوں کو گرفتار کر کے جیل میں قید کر دیا گیا۔
ٹوبہ ٹیک سنگھ کے حوالے سے ایک اور اہم واقعہ بھی قابل ذکر ہے۔انہوں نے
کارکنوں سے وعدہ کیا تھا کہ پارٹی کی حکومت بنی تو وہ پہلا جلسہ ٹوبہ میں
کریں گے چنانچہ وہ اور معراج محمد خان آئے اور انکی بہن کے گھر کے باہر
جلسہ تھا اپنی تقریر میں غیاث الدین جانباز مرحوم نے جنرل ایوب خان کے سابق
اےڈی سی اورمقامی اسٹڈ فارم اونر کیپٹن ملک گاہی خان مرحوم کے خلاف اور ان
کے مزارعین کی حمایت میں جذباتی تقریر کی ان کے بعد طارق عزیز اور معراج
محمد خان نے ویسی ہی تقریریں کیں مگر جب انہیں پتہ چلا کہ گاہی خان انکے
بہنوئی میاں لطیف کے ذاتی دوست ہیں تو انہیں نے اپنے سخت الفاظ پر معذرت
کرنا پڑی ۔
طارق عزیز کی بہن طاہرہ لطیف کا ذکر بھی ہو جائے وہ بھی زبردست مقررہ
ہیں۔وہ ضلع کونسل کی ممبر تھیں جب فوجی آمر جنرل ضیاء الحق 1984 میں ٹوبہ
کے دورہ پر آئے ضلع کونسل کی طرف سے خواتین کی نمائندگی طاہرہ لطیف نے کی
اور ضیاء الحق کے سامنے جو سماں اپنی تقریرکے دوران طاہرہ لطیف نے باندھا
وہ بیان سے باہر ھے اپنے بھائی طارق عزیز کی طرح موصوفہ نے تقریر کے دوران
میلہ ھی لوٹ لیا جو کام ٹوبہ ٹیک سنگھ کے سیاستدانوں کو کرنا تھا وہ موصوفہ
نے اپنی تقریر کے دوران ضیاءالحق سے کرواڈالا طاہرہ لطیف نے جب حاکم وقت کو
اپنی تقریر کے دوران مخاطب کر کے کہا کہ ٹوبہ کو دو سال پہلے ضلع تو بنا
دیا مگر گرلزانٹر میڈیٹ کالج لڑکوں کے ہائی سکول میں چند کمروں میں بنایا
گیا ہے جہاں جاتے ہوئے لڑکیاں گھبراتی ہیں ۔ٹوبہ کے لوگ آپ سے کچھ نہیں
مانگتے انہیں انکا حق دو اور کالج کو ڈگری کادرجہ دینے کے بعد اس کی اپنی
عمارت کی منظوری دو ۔جلسہ کے شرکاء نے جب اس مطالبہ پر تالیاں بجائیں تو
ضیاءالحق سمجھ گئے کہ یہ مطالبہ جائز ھے اورجب ضیاءالحق نے کہا کہ میں
طاہرہ لطیف کے مطالبہ پر لڑکیوں کے کالج کو ابھی اور اسی وقت ڈگری کا درجہ
دینے اور عمارت تعمیر کرنے کا اعلان کرتا ھوں تو جلسہ میں موجود سبھی شرکاء
نے بھر پور تالیاں بجائیں اور دیر تک طاہرہ لطیف زندہ باد کے نعرے گونجتے
رھے
راقم نے فون پر طاہرہ لطیف کو جو آجکل لاہور شفٹ ہو چکی ہیں ٹوبہ کے حوالے
سے طارق عزیز کی تصاویر کا کہا تو انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اپنے بیٹے
عمران لطیف کی جان بچانے کے لیے اپنا گردہ اسے دیا تھا مگر وہ پھر بھی
جانبر نہ ہو سکا۔شوہر کی وفات کے بعد جوان بیٹے کی مفارقت اور اب بھائی
طارق عزیز کی رحلت پر وہ اتنے صدمہ میں ہیں کہ کوشش کے باوجود ان کی کوئی
تصویر نہیں مل رہی ۔ |