اردگان اور آئی ایم ایف

بہت سی دوسری معیشتوں کی طرح ترک معیشت بھی خرابی سے دوچارہے اورمکمل یابہت بڑے پیمانے کی ناکامی کی طرف بڑھنے کی راہ دیکھ رہی ہے۔ تین سال کے دوران ترک کرنسی لیراامریکی ڈالرکے مقابلے میں اپنی قدرکم وبیش90فیصد تک کھو چکی ہے۔لیراکو بچانے کیلئےترک قیادت نے گزشتہ ماہ اپنے بین الاقوامی کرنسی ریزروزکاایک بڑاحصہ داؤپرلگادیا۔ترکی کی بہت سی کمپنیوں پرغیر معمولی مالیاتی دباؤہے۔زرمبادلہ کی شکل میں ان کے واجبات کم وبیش300ارب ڈالرکے ہیں۔یہ کمپنیاں معیشتی خرابی کی غیرمعمولی قیمت اداکررہی ہیںترک رہنمااردگاان اب بھی بین الاقوامی مالیاتی فنڈسےغیر معمولی نوعیت کابیل آؤٹ پیکیج لینے کے حق میں نہیں۔اس حقیقت سے کوئی انکارنہیں کرسکتاکہ ترکی کواس وقت عالمی مالیاتی فنڈسےغیرمعمولی بیل آؤٹ پیکیج درکارہے۔یہ معیشت کی فوری ضرورت ہے۔

آئی ایم ایف سے کوئی بڑابیل آؤٹ پیکیج لینے سے گریزکاایک بڑاسبب یہ بھی ہے کہ اردگان مسائل کوٹھوس اندازسے اور بڑی مدت کیلئےحل کرنے کے بجائے فوری نوعیت کے حل پرزیادہ متوجہ ہوتے ہیں۔جب بھی کوئی بحران کھڑاہوتاہے،وہ چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طورکوئی فوری حل نکل آئے۔فوری حل تلاش کرنے کی عادت نے معاملات کوبگاڑاہے۔انہوں نے حال ہی میں قطر کے ساتھ لیراریال تناسب کووسعت دی ہے۔یہ فوری نوعیت کاحل ہے،جس کے نتیجے میں ترکی کے مرکزی بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر(کاغذکی حدتک)5/ارب ڈالرسے بڑھ کر15ارب ڈالرہوجائیں گے۔ترک معیشت کواس نوعیت کے فوری انتظامات کی ضرورت نہیں۔وہ تومسائل کاقدرے دیرپاحل چاہتی ہے۔لازم ہے کہ آئی ایم ایف سے کوئی اسٹینڈبائی ایگریمنٹ یاپھرایکسٹینڈیڈفنڈ فیسلیٹی لی جائے۔اس کے نتیجے میں ترکی کووسط مدتی،کم شرح سودوالاقرضہ ملے گاجو اسٹرکچرل ریفارمزکی راہ بھی سجھائے گا۔

ترکی میں اورترکی کے باہرسیاسی ومعاشی امورکے بہت سے ماہرین کی رائے یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے کوئی بیل آؤٹ پیکیج لینے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اردگان کے نظریات کے ساتھ ساتھ یہ خوف بھی ہے کہ آئی ایم ایف سے کوئی پیکیج لینے کی صورت میں حکمراں جماعت کے ووٹربدک جائیں گے ۔ماہرین کااندازہ غلط ہے۔اردگان کودراصل یہ خوف لاحق ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈاگرکوئی بڑاپیکیج دے گاتواس کے ساتھ چندایسی شرائط بھی عائد کرے گا ، جوترکی میں اس وقت نافذاندازِحکمرانی کو قبول کرنے سے انکاری ہوں گی۔اردگان نے کم وبیش تمام اختیارات اپنے مٹھی میں کررکھے ہیں۔ان کی ذات ترکی میں حکومتی سطح کے اختیارات کامجموعہ ہوکررہ گئی ہے۔

ایک عشرے کے دوران اردگان نے اپنے اقتدارکوایک ایسے سیاسی پلیٹ فارم پرمضبوط بنایا ہےجوغیرروایتی نوعیت کی معاشی پالیسیوں سے متصف ہے۔ سرمایہ کاراردگان کے اس عجیب وغریب نظریے سے پریشان ہیں کہ سودکی شرح ملک میں مہنگائی کا گراف بلندکرے گی اوریہودیوں کی خواہش کے مطابق ملک کی معیشت تباہی سے دوچارہوجائے گی۔وہ دن ہوا ہوئے۔2019ءمیں ترکی کے مرکزی بینک نے اپنی خود مختاری بہت حد تک گنوادی۔ سودکی شرح کوخطرناک قراردینے کی ذہنیت اب تمام معاشی پالیسیوں پربُری طرح اثراندازہورہی ہے۔بونڈاوراکویٹی کی مارکیٹ سے سرمائے کابڑے پیمانے پراخراج کچھ یوں ہی توواقع نہیں ہوگیا۔معاملات کومزیدخراب لیراکی شرح مبادلہ کے دفاع کی کوششوں نے کیاہے۔اس کے نتیجے میں ترکی کے مرکزی بینک میں زرمبادلہ کے ذخائرخطرناک حدتک کم ہوگئے ہیں۔اس معاملے میں اردگان آسانی سے ہدف پذیرہیں کیونکہ یہ تمام کوششیں اُن کے نااہل وزیرخزانہ برأت البراک نے کی ہیں۔برات البراک کواس منصب پربٹھائے جانے کے حوالے سے اردگان کوغیرمعمولی تنقید کاسامناکرناپڑاہےکیونکہ البراک اُن کے دامادہیں۔

اس حقیقت سے بھی بہرحال انکارنہیں کیاجاسکتاکہ پہلے کئی بحرانی کیفیتوں میں اردگان نے خودکوحقیقت پسندثابت کیاہے ۔سودکی شرح میں بلندی بھی دکھائی دی ہے اوراس کے نتیجے میں معیشت کوبہتربنانابھی ممکن ہواہے۔اردگان نے پہلے کبھی سودکی شرح بڑھانے کی مخالفت کی تھی توبعدمیں اپنی رائے سے رجوع بھی کیاتھا۔جب روس سے معاملات خراب ہوئے تو انہوں نے اپنی انا اورتفاخرکونگل لیااورتعلقات کونئے سرے سے بہترشکل دینے کی بھرپورکوشش کی۔مشکل صرف یہ ہے کہ ان کی ہرکوشش صرف کوشش تھی،اختیارات منتقل کرنے کی طرف اٹھایاجانے والا قدم نہ تھی۔اس وقت میڈیاپران کامکمل کنٹرول ہے جس کے ذریعے وہ کسی بھی دوسرے جمہوری معاشرے کے مقابلے میں زیادہ آسانی سے یوٹرن لے سکتے ہیں۔انہوں نے 18برس کی مدت میں اپنے اقتدارکوطول اوراستحکام دینے کاعمل جاری رکھاہے۔جب تک یہ پوراعمل داؤپرنہ لگتاہو،وہ کوئی بھی یوٹرن بہت آسانی سے لے سکتے ہیں۔

ترک معیشت کولاحق بحران کے حل کیلئےاردگان اگرعالمی مالیاتی اداروں کادروازہ کھٹکھٹانے یامددلینے سے گریزکررہے ہیں تو اس کابنیادی سبب یہ ہے کہ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ جوبھی پیکیج دیاجائے گااس سے منسلک شرائط کے تحت حکمرانی کا اندازبدلناپڑے گا،اختیارات تقسیم اورمنتقل کرناپڑیں گے ۔اچھی حکمرانی ہرحال میں یقینی بناناپڑے گی۔ترکی میں سرکاری معاملات شفافیت اوردرستی سے دوررہے ہیں۔شفافیت اورجوابدہی کی ذمہ داری سے استثنا کا اردگان کی جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی نے بھرپورفائدہ اٹھایاہے۔

ترکی میں آزادوخودمختارفنڈ،جواردگان کے متوازی بجٹ کی حیثیت رکھتے ہیں،پارلیمان یاپھرکورٹ آف فائنل اکاؤنٹس کے تحت تنقیح کی منزل سے نہیں گزرتے۔ایک بڑے غیرسرکاری آڈیٹرنے تویہاں تک کہاہے کہ موزوں مواد دستیاب ہی نہیں، جس کی بنیاد پرجامع آڈٹ کیاجائے۔ترک ادارۂ شماریات (ٹی ایس آئی)کے فراہم کردہ اعدادوشماربھی مشکوک حیثیت کے حامل ہیں۔2017ءمیں جرمنی کے دوسرے سب سے بڑے قرض دہندہ کامرزبینک نے ترکی میں اقتصادی نموکے مشکوک اعداد وشمارکے حوالے سے رپورٹ مرتب کی تھی،جس کاعنوان تھا’’ترکی۔۔۔ کیاآپ مذاق کررہے ہیں؟‘‘

اردگان کی معیشت حکمراں جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کے دوستوں کیلئےبیلنس شیٹ سے ہرکیے جانے والے انتظامات کی بنیاد پرفروغ پذیرہے۔اس کی ایک واضح مثال مغربی ترکی کے صوبے کتھایامیں تعمیرکیاجانے والادی ظیفرایئرپورٹ ہےجس کانظم و نسق تعمیرات کے شعبے سے تعلق رکھنے والی ایک ایسی شخصیت کے ہاتھ میں ہےجواردگان کی دوست ہے اور جس نے میڈیا آؤٹ لیٹس کوسرکاری آغوش میں لابٹھانے میں کلیدی کرداراداکیاتھا۔حکومت نے پیش گوئی کی تھی کہ پہلے سات برس میں اس ایئر پورٹ سے76لاکھ افرادسفرکریں گے۔یہ تعدادتاحال تین لاکھ تک پہنچ سکی ہے!اس ایئرپورٹ کی تعمیرپر5کروڑ50لاکھ ڈالرخرچ ہوئے۔حکومت کی طرف سے آمدنی کی ضمانت کے طورپرکی جانے والی ایک ڈیل کے تحت (جو2044ءمیں ختم ہوگی)کمپنی کو عوام سے لیے گئے ٹیکس سے کم وبیش22کروڑ80لاکھ ڈالران پروازوں کیلئےاداکیے جائیں گے ،جن کاکوئی وجود نہیں۔

اگرترک قیادت عالمی مالیاتی فنڈسے کوئی پروگرام یابیل آؤٹ پیکیج لیتی ہے تواس کے ساتھ آنے والی شرائط کی تعمیل کے نتیجے میں پرائیویٹ کمپنیوں کواس نوعیت کی آمدنی کی ضمانت اوردیگرآف دی بیلنس شیٹ جیسے انتظامات کاخاتمہ لازم ہو گا۔بیل آؤٹ پیکیج کے ساتھ آنے والی شرائط کے تحت اصلاحات لازم ہوں گی۔ٹیکنوکریٹس کی خدمات حاصل کرناہوں گی،شفافیت لازم بنانا ہوگی، جوابدہ ہوناپڑے گا،خودمختارریگیولیٹری ایجنسیز قائم کرناپڑیں گی اور مرکزی بینک کوہر طرح اورہرسطح کے سیاسی دباؤ سے آزادکرناہوگا۔ اگرایساہوا تو اردگان کوبہت سے مشکوک معاملات سے الگ ہوناپڑے گا،ان کے حاشیہ برداروں کیلئےمشکلات پیدا ہوں گی کیونکہ وہ اُنہیں کچھ زیادہ دے نہیں پائیں گے۔اگردیگرالفاظ میں کہیں توآئی ایم ایف سے کوئی بھی ڈیل اردگان کے اقتدار کیلئےحقیقی نوعیت کاخطرہ ثابت ہوگی۔ساتھ ہی ساتھ ان کے سرپرستوں اوردوستوں کوبھی منظرسے ہٹناپڑے گا۔

ترکی کیلئےآئی ایم ایف کاپچھلاپروگرام1999ءمیں شروع ہوااور2001ءمیں اختتام کوپہنچا۔اس پروگرام کے تحت ترکی میں خاصی شفافیت آئی اور سرکاری فنڈ کے حوالے سے جوابدہی کا اہتمام بھی کیا جاسکا۔ وہ پیکیج سرکاری قرضوں کے بڑھتے بوجھ، ترک تجارتی بینکوں کی ہدف پذیری کے باعث دیاگیاتھا۔آئی ایم ایف نے اس بات پرزوردیاتھاکہ سرکاری فنڈکے خرچ کے حوالے شفافیت اورجوابدہی یقینی بنانے سے متعلق اصلاحات متعارف کرائی جائیں۔مالیاتی نظم ونسق بہتربنانے کیلئے نیا انتظامی ڈھانچادرکارتھا۔ ترک حکومت مان گئی اورآئی ایم ایف اپنی بات منواتے ہوئے معیشت ومالیات کے ڈھانچے کی ساخت میں اصلاحات متعارف کرانے کے حوالے سے کامیاب رہا۔ترکی استحکام کی طرف بڑھااورآئندہ6برس تک اس کی شرح نمواوسطاً7 فیصد رہی۔

اردگان بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے تحت لیاجانے والاکوئی بھی پروگرام ترک معیشت کیلئےغیرمعمولی فوائدکی راہ ہموارکرسکتاہے مگر انہیں شرائط کے تحت بہت کچھ چھوڑناپڑے گا۔وہ ایساکرنے کیلئےتیارنہیں۔یہی اصل مسئلہ ہے۔آئی ایم ایف کے پچھلے پیکیج سے ترکی کوبہت کچھ ملاتھا۔ سادگی اپنانے سے متعلق اصلاحات نے نتائج دیے تھے ۔اسی دورمیں ترکی کے سہ طرفہ سیاسی اتحادکے الٹرانیشنلسٹ پارٹنرڈیلویٹ بیچلی نے2002ء میں قبل ازوقت انتخابات کیلئےدباؤڈالا،پارلیمنٹ میں نمائندگی رکھنے والی تمام اپوزیشن جماعتوں کواکھاڑپھینکااوریوں اردگان کو(جواس وقت استنبول کے میئرتھے)اقتدارکے ایوان تک پہنچانے میں کلیدی کرداراداکیا۔ڈیلویٹ بیچلی تب کی طرح اب بھی ناقابل بیان ہیں اورآج وہ اردگان کے اہم اتحادی ہیں ۔

اردگان نے2002ء میں ڈیلویٹ بیچلی کی صلاحیتوں سے خوب استفادہ کیاتھا۔ اب وہ2023ءکے صدارتی انتخاب سے قبل کوئی بھی بڑی تبدیلی نہیں چاہیں گے۔18سال قبل وہ استنبول کے میئرتھے اوروہاں سے اقتدارکے مرکزی ایوان میں داخل ہوئے تھے۔اس وقت استنبول کے میئراکرم اماموغلو ہیں ،جوغیرمعمولی سیاسی حیثیت کے حامل ہیں۔انہوں نے اپوزیشن کوجوڑنے اورمضبوط کرنے میں کلیدی کرداراداکیاہے۔اس وقت سیاسی طورپر اردگان کیلئےسب سے بڑاخطرہ یہی اکرم امامو غلوہیں۔انتخابات تین سال دورہیں۔ترکی میں سیاسی اعتبارسے تین سال خاصی بڑی مدت ہے۔اس مدت کے دوران اردگان چاہیں گے کہ ان کے دوستوں،ساتھیوں اور حکمراں جماعت کے مہربانوں کوانڈردی ٹیبل دی جانے والی مراعات جاری رہیں۔
ترک معیشت دگرگوں ہے۔مشکلات بڑھتی جارہی ہیں۔ایسے میں آئی ایم ایف سے کوئی بڑابیل آؤٹ پیکیج ہی ترکی کے مسائل حل کرسکتاہے مگرخیر، عالمی مالیاتی ادارے کوترکی کیلئےکوئی بھی پیکیج تیارکرتے وقت یہ نہیں بھولناچاہیے کہ یہ اردگان کیلئےفری پاس نہیں ہوناچاہیے۔ترکی میں معیشت کے حوالے سے غیرمعمولی اصلاحات کی ضرورت ہے۔کوئی بھی بیل آؤٹ پیکیج دیتے وقت اردگان کواس بات کاپابندکرنالازم ہے کہ مالیاتی معاملات میں شفافیت ہونی چاہیے،کسی کوبھی انڈردی ٹیبل کوئی رعایت نہ دی جائے۔فیملی ممبرزکے بجائے ٹیکنوکریٹس کی خدمات حاصل کی جائیں اورسب سے بڑھ کریہ کہ منی لانڈرنگ اورکرپشن کی روک تھام کیلئےسخت ترقسم کے اقدامات کیے جائیں۔

ترکی کی بڑی،قدرے جواں اورمتحرک آبادی معاشی نموکے حوالے سے یورپ اورمشرق وسطٰی کیلئےمثال بن سکتی ہے۔اس آبادی کوایک موقع تودیاہی جاناچاہیے۔

 

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 356380 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.