وزیر اعظم نریندر مودی کی ایودھیا یاترا پر طرح طرح کے
اعتراض ہورہے ہیں مثلاً کورونا کی پابندیوں کے دوران وہ کیوں جارہے ہیں ؟
حالانکہ اس سے قبل وہ امفان طوفان اور لداخ کا دورہ کرچکے ہیں۔ عام لوگوں
پر پابندی ہے تو ان پر کیوں نہیں ؟ اس طرح کی باتیں کرنے والے بھول جاتے
ہیں کہ جمہوری نظام میں عام اور خاص کی تفریق کوئی خاص نہیں بلکہ عام سی
بات ہے۔کچھ لوگ سیکولر ملک کے حکمراں کامذہبی مقامات پر جانا درست نہیں
سمجھتے حالانکہ راجندر پرشاد اور اندرا گاندھی سمیت نہ جانے کون کون ایسا
کرچکا ہے اور اس میں کیا حرج ہے؟ مولانا آزاد کو اگر کوئی جامع مسجد میں
آنے سے یا کسی نئی مسجد کی سنگ بنیاد رکھنے سے روک نہیں سکتا تھا تو مودی
کو کیسے روک سکتا ہے؟ لیکن ایک اہم سوال قابلِ توجہ ہے کہ نریندر مودی اس
طویل رام مندر کی تحریک میں اب تک کہاں تھے ؟ سومناتھ مندر سے نکلتے ہوئے
رتھ میں ان کی ایک تصویر تو دکھائی دیتی ہے لیکن اس کے بعد وہ اچانک غائب
ہوکر برسوں بعد ابھی نمودار ہوجاتے ہیں ۔
رام مندر کے ایک بہت بڑے حامی ڈاکٹر سبرامنیم سوامی نے یہی بات ٹی وی ۹ کے
اپنے انٹرویو میں ببانگ دہل کہی ہے ۔ ان کے مطابق وزیر اعظم نریندر مودی نے
رام مندر کے لیے کچھ نہیں کیا اس لیے ان کا وہاں کوئی کام نہیں ہے۔ سوامی
جی کے مطابق رام مندر کا سہرہ راجیو گاندھی ، نرسمھا راو اور اشوک سنگھل کے
سر ہے ۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ بابری مسجد کی شہادت کے سلسلے میں جن لوگوں
پر مقدمہ چل رہا ہے ان میں مودی یا ان کے کسی کابینی وزیر کا نام کیوں نہیں
ہے؟ اوما بھارتی کا ہوسکتا تھا لیکن وہ بھی فی الحال وزارت سے محروم ہیں۔
مندرجہ بالہ سوالات کا جواب یہ ہے کہ مودی اور اڈوانی کی سیاست کا انداز
بالکل مختلف ہے۔ جلسوں میں جاکر تقریر کرنے اور تحریک چلانے میں بہت بڑا
فرق ہے۔ لال کرشن اڈوانی کی طرح سڑک پر اتر کرنریندر مودی نے عوامی تحریک
کبھی نہیں چلا ئی ۔
وزیر اعظم مودی نے سابرمتی ایکسپریس کے اندر رام بھکتوں کے ڈبے میں آگ
لگنے کے حادثے کا استعمال کیا اور فساد کی کھلی چھوٹ دے کر پہلا انتخاب
جیتا ۔ اس ڈبے میں اگر کوئی اور ہوتا تب بھی ایسا ہوسکتا تھا لیکن
کارسیوکوں کے سبب جذبات بھڑکانا سہل ہوگیا۔ آگے چل کر سہراب الدین و پرجا
پتی انکاونٹر کے ذریعہ فضا بنائی گئی اورپھر عشرت جہاں کا انکاونٹر کرکے
گجرات میں دوسری اور تیسری انتخابی کامیابی حاصل کی ۔ وزیر اعظم نے پہلا
قومی انتخاب ’اچھے دن ‘ اور دوسری بار ’ائیر اسٹرائیک‘ پر جیت لیا ۔ انہیں
ایودھیا یا رام مندر کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی اس لیے انہوں نے نہ تو مندر
کا مسئلہ اٹھایا اور نہ ایودھیا کا دورہ کیا۔ 2019کے انتخاب سے قبل سنگھ
پریوار چاہتا تھا کہ اس مدعا پر الیکشن لڑا جائے۔ اس کے لیے کمبھ میلے سے
ماحول سازی کی جارہی تھی مگر وزیر اعظم نےاسے ٹھنڈے بستے میں ڈالنے کے لیے
معاملہ عدالت میں ہے کہہ دیا ۔
2019 کی انتخابی مہم کے دوران وہ ایودھیا ضلع کی سرحد تک گئے ۔اتفاق سے وہ
مزدوروں کا دن یکم مئی تھا اس لیے رام مندر کے بجائے محنت کشوں کے مسائل
پربول کرلوٹ آئے۔ اس نئی مدت کار میں مودی سرکار کی سمجھ میں آگیا کہ اب
ترقی یا پاکستان کا کارڈ نہیں چلے گا ۔ سیاست میں چونکہ لوگ بہت جلد اوب
جاتے ہیں اس لیے کوئی مدعا مختصر عرصے میں دوسری بار نہیں اٹھایا جاسکتا ۔
طویل وقفہ گزر جانے کے بعدجب لوگ بھول بھال جائیں تو اس کو پھر سے بھنایا
جاسکتاہے ۔ اس لیے کشمیر کی دفع 370 اور رام مندر کے مسائل اٹھائے گئے۔ بی
جے پی بہت پہلے اسے چلا چکی تھی پرانے لوگ مرکھپ گئے یا بوڑھے ہوگئے۔ اس
لیے نئی نسل کے سامنے اس کو پھر سے اچھالنا ممکن ہوگیا۔
بی جے پی نے پہلی بار خالص سیاسی دباو کے تحت رام مندر کا مسئلہ
اٹھایاتھا۔9نومبر 1989 میں وشوہندو پریشد نے کانگریس کے تعاون سے جب رام
مندر کا شیلانیاس کیا تو بی جے پی والوں نے گوں ناگوں وجوہات کی بناء پر
خود کو اس سے الگ رکھا ۔ اس کے بعد کانگریس صوبے اور مرکز میں اقتدار گنوا
بیٹھی۔ وی پی سنگھ اقتدار میں آئے تو بی جے پی نے باہر سے ان کی حمایت
کررہی تھی ۔ وی پی سنگھ نے جب منڈل کا کارڈ کھیلا تو بی جے پی کے ہاتھوں سے
طوطے اڑ گئےاور مجبوراً اس کو کمنڈل لے کر میدان میں اترنا پڑا۔ اڈوانی نے
رام رتھ یاترا کی شروعات میں کہا تھا کہ اب ہمارے پاس کو ئی اور متبادل ہی
نہیں بچاہے۔
کمنڈل کے ذریعہ منڈل کا مقابلہ بی جے پی کی مجبوری تھی ورنہ سیاسی بساط سے
اس کا صفایہ ہوجاتا ۔ بی جے پی نے بڑی آسانی سے رتھ یاترا میں عوام کو
الجھاکرجنتا دل کو منڈل کا فائدہ ا ٹھانے سے محروم کردیا ۔ اپنے حریف کی
جانب سے عوام کی توجہ ہٹاکر اسے نقصان پہنچانے کی حکمت عملی کامیاب رہی ۔
پوری قوم نےاس کی بہت بڑی قیمت چکائی ۔ ملک میں نفرت و فساد پھیل گیا اور
سب سے بڑا نقصان مسلمانوں کا ہوا ۔انہیں اپنی مسجد سے ہاتھ دھونا پڑا ۔
منڈل اورکمنڈل کی جنگ نے اترپردیش میں کانگریس کاجنازہ اٹھا دیا۔ 1989کے
بعد یوپی میں کانگریس کی حکومت ایک خواب بن گئی ۔ آگے چل کرقومی سیاست میں
جنتا دل کے بکھرنے سے پیدا ہونے والے خلاء کو پرُ کرکے بی جے پی کی اٹل
سرکار اقتدار میں آگئی۔
حکومت سازی کے بعد اٹل جی کی سرکار نے رام مندر کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا
اور مودی نے پہلی مدت کار میں اسے نہیں چھیڑا کیونکہ اس کی سیاسی ضرورت
نہیں تھی۔ یوم آزادی کے موقع پر گزشتہ سال وزیر اعظم نے پانچ ٹریلین ڈالر
کی معیشت کا جو خواب دکھایا اگر اس کی جزوی کامیابی کا بھی امکان ہوتا تو
ممکن ہے بی جے پی کو اتنا جلدی رام مندر کی یاد نہیں آتی ۔ ایسا لگتا ہے
کہ مودی سرکار کو یہ احساس بہت جلد ہوگیا کہ اس ملک میں اچھے دن لانا اس کے
بس کی بات نہیں ہے ۔ عوام کی مایوسی آئندہ انتخاب میں اس کی رخصتی کا سبب
بن جائے گی ۔ اسی لیے اس کو پھر ایک بار خالص فرقہ وارانہ خطوط پر سیاسی
حکمت عملی وضع کرنے پر مجبورہونا پڑا۔ یہ وہی منڈل کے بعد والا سیاسی دباو
تھا ۔
بی جے پی میں رام مندر کی تحریک چلانے والے رہنما مارگ درشن منڈل میں آرام
فرما رہے تھے اورہندو عوام بھی اسے بھول بھال گئے تھے ۔ نئی نسل کو پھر ایک
بار اس کے ذریعہ لبھانے کے مواقع پیدا ہوگئے تھے۔ ان لوگوں کو فون پر
دعوتنامہ دیا گیا اور انہوں نے دور سے درشن پر اکتفاء کیا۔ ویسے ان کی
بھلائی اسی میں ہے کہ نہیں گئے اس لیے مودی کی موجودگی میں تقریب کے دوران
کیمرہ ان کو نظر انداز کردیتا اور بلاوجہ کی رسوائی ہاتھ آتی۔ وزیر اعظم
نریندر مودی ایودھیا نے اسی لیے 5اگست کو ایودھیا میں مندر کا سنگ بنیاد
رکھنے کے علاوہ اس علاقہ کو سیاحتی مرکز بنانے کی خاطر ایک ہزار کروڈ کے
51منصوبوں کا افتتاح کرنے کا اعلان کردیا۔ اس میں ایک ۴ کلومیٹر لمبی اور
500 میٹر گہری سیتا جھیل بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ سڑکوں کو کشادہ کرنے کا
بھی اہتمام ہے ۔ اس مقصد کے لیے ریاستی حکومت نے 447کروڈ کا بجٹ مختص کیا
گیاہے لیکن جس دن یہ تفصیلات اخبارات کی زینت بن رہی تھیں اسی دن وزیر اعظم
کے حلقۂ انتخاب وارانسی سے ایک چونکانے والی تصویر سامنے آئی ۔ اس میں
سرکاری اسپتال سے ایک لاش کو ایمبولنس نہیں ملنے کے سبب اسٹریچر پرگھر لے
جایا جارہا تھا۔پی ایم مودی کی سمجھ میں آگیا ہےچونکہ اپنے حلقۂ انتخاب
کو حسبِ وعدہ کیوٹو نہیں بناسکتے اس لیے رائے دہندگان کو رام مندر کا
جھنجھنا پکڑا کر ان کا ووٹ لینے کی کوشش کرو۔ سوال یہ ہے کہ کیا ووٹرس پھر
سے بہل جائیں گے ؟ یا عقل کے ناخون لیں گے؟
عوام کو مندر سے بہلانے پھسلانے کے لیے ہی پچھلے سال نومبر میں سپریم کورٹ
کے ذریعہ گزشتہ سال متنازع فیصلہ کروایا گیا ۔ اس سال اپریل میں رام نومی
کے موقع پر رام مندر کی تعمیر کے آغاز کا منصوبہ بنایا گیا تاکہ ۲۰۲۴ کے
الیکشن سے قبل مندر کا افتتاح کرکے مودی رام کے نام پر ووٹ مانگیں۔ کورونا
کی وبا نے اچانک سب کچھ بدل دیا۔ اس ے نمٹنے میں ناکامی ، اس کے سبب امکانی
معاشی مصیبت اور چین کی سرحد پر ہزیمت بی جے پی کووقت سے پہلے رام کے شرن
میں لے آئی اور مودی چار سال قبل ہی ایودھیا جانے کے لیے مجبور ہوگئے۔ رام
مندر اب بی جے پی کے لیے اترپردیش کے صوبائی اور قومی انتخاب میں امید کی
آخری کرن ہے۔ یہ چراغ اس کو منزل تک پہنچاتا ہے یا اس کا گھر جلا دیتا ہے
اس کا فیصلہ مستقبل کی کتاب میں بند ہے۔ مودی جی کی اس قبل از وقت ایودھیا
یاترا پر عرش صہبائی کا یہ شعر صادق آتا ؎
دل بے تاب کو بہلانے چلے آئے ہیں
ہم سر شام ہی مے خانے چلے آئے ہیں |