لاہور کے کے علامہ اقبال اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے معمول کے مطابق ق ایک مسافر بردار طیارہ اپنی منزل کراچی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی طرف اڑان بھرتا ہے عملے کے 8 اراکین سمیت 99 ے مسافروں کو کو اپنی آغوش میں لیے یہ بدقسمت طیارہ اے 320 تھا یہ مسافر بردار جہاز 22 مئی دوپہر ایک بج کر 15 منٹ پر پر فضا میں میں بلند ہوا اور دو بج کر 39 منٹ پر پرکراچی ایئرپورٹ کے قریب جناح گارڈن میں میں گر گیا یا اس ناگہانی حادثے میں معجزاتی طور پر دو مسافرمحمد زبیر اور مسعود بچ گئے تھے اس حادثے نےحکومتی وزراء خصوصا ہوا بازی اور صحت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان کھڑے کر دیے
ہوا بازی کے وزیر ر گلام سرور خان خان اسمبلی کے فلور پر میں کھڑے ہو کر پی آئی اے اے کے پائلٹس پرمشکوک لا ئس رکھنےکا الزام لگاتے ہیں ایک غیر ذمہ دارانہ بیان کی وجہ سےپاکستان سفارتی سطح پر تنقید کی زد میں آ گیا متعدد د ممالک میں پاکستانی پائلٹس کوجہاز اڑانے سے روک دیا گیا یہ وہی غلام سرور خان ہے جو ایک دفعہ اسلام آباد ائیرپورٹ پر اپنی اہلیہ کا پاسپورٹ لئے جہاز میں سفر کرنے جا رہے تھے
شہیدوں کی لاشوں کی شناخت اور لواحقین تک پہنچانے کے معاملے میں حکومت نے نہایت غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا متاثرہ خاندان سوشل میڈیا پر اپنے پیاروں کی جسد خاکی کے حصول کے لیے رو رو کر اپیل کرتے رہے
اسی تناظر میں حکومتی وزیر ر برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا ٹی وی پہ آکر حادثے کے متاثرین حسین سے معافی مانگ کر اپنے آپ کو کو بری الذمہ کر دیتے ہیں
اسی طرح ہمارے سامنے زندہ مثالیں ہیں جب ذمہ دار افراد اپنی نااہلی کی وجہ سے سے ملک و قوم کو کو ایک اندھیر نگری میں دھکیل دیتے ہیں اور جس کا خمیازہ اس قوم کو انسانی ی یا معاشی نقصان کی صورت میں ادا کرنا پڑتا ہے اور ارباب اختیار شدید ڈھٹائی کے ساتھ ہم پر احسان کرتے ہوئے اپنی غلطی تسلیم کر کے کے اپنے سر سے بوجھ اتار دیتے ہیں
ہمارے سامنے ایک اور مثال پشاور بی آر ٹی کی ہے-یہ منصوبہ 37 بلین روپے میں مکمل ہونا تھا جبکہ گزشتہ آٹھ مہینوں میں اس منصوبے پر سو ارب روپے سے زیادہ خرچ ہو گئے ہیں تاحال یہ منصوبہ مکمل نہیں ہوا ہے اس منصوبے کی وجہ سے پشاور کے شہریوں کو جن مشکلات کا سامنا ہے وہ آئے روز ہم میڈیا پر دیکھتے رہتے ہیں پشاور میں ایک بڑا مسئلہ نکاس اس اب کاناقص نظام ہے جس کی ایک جھلک گزشتہ ہفتہ ہونے والی بارشوں میں ہماری نظروں سے گزر چکی ہے
وزیر اطلاعات شبلی فراز صاحب سے سے جب بی آر ٹی کے بارے میں پوچھا گیا تو موصوف نے نہایت سلیقے سے کہا ہم مانتے ہیں ہم بہتر کر سکتے تھے لیکن ہم نہیں کر پائے مزید کہاکہ جب آپ اس ملک کو ایک اچھے ڈائریکشن میں لے کے جا رہے ہیں تو آپ غلطیاں کریں گے -یہ وہ معافی ہے ہے جو اس قوم کو کو سو ارب میں پڑی- لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ ہماری قوم ایسی کتنی غلطیاں ہضم اور کتنی معافیاں قبول کر سکتی ہے
آئے روز ز ہر دوسراذمہ دار شخص غلطی کرے گا اور معافی مانگ کر کر جان چھڑا لے گا
لیکن یہاں پر ایک بات توجہ طلب ہے کہ ماضی میں حکومتی عہدیدار دور حکومت ختم ہونے کے بعداس طرح کی بیان بازی کرتے تھے- ہماری ایک سابقہ وزیر خارجہ حنا ربانی صاحبہ ولایت میں بیشتر انٹرویوز میں میں اپنی غلطیوں کا اعتراف کرچکی ہیں یہاں تک کہ اپنے ساتھی وزراءکو کو بھی تنقید کا نشانہ نہ بناتی رہی ہیں اس وقت کے ڈیفنس منسٹر احمد مختار کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ڈیفنس منسٹر کوڈیفنس اور فارن پالیسی کے بارے میں کچھ بھی نہیں پتا تھا یہ بات حنا ربانی صاحبہ دوران حکومت بھی کہہ سکتی تھی لیکن اس کے بالکل برعکس انہوں نے حکومت میں اس بارے کبھی ذکر نہیں کیا -ہمارے سیاستدانوں کی منصوبہ بندی اور ویژن حکومت ملنے سے پہلے اور ختم ہونے کے بعد ب پروان چڑھتی ہے-
|