کمال یہ نہیں کہ زندگی بس گزارلی جائے۔ کمال تو یہ ہے کہ
زندگی کو اس کی اصل حقیقت کے مطابق شعور ، ا دارک واحساس کے ساتھ بسر
کیاجائے۔یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ اکثرانسان زندگی محض گزار ر ہے
ہیں۔ہم ایک ایسی معاشرتی زندگی کے عادی ہوچکے ہیں جہاں زندگی میں شعور
،ادراک ، احساس اور اصول و ضوابط کو کم ہی اہمیت دی جاتی ہے۔ اگر زندگی کی
حقیقت کو سمجھ لیا جائے تو نہ صرف ہم اپنی زندگی کو بہتر طور پر بسرکر سکتے
ہیں بلکہ دوسروں کے لئے بھی فائدہ مند ثابت ہوسکتے ہیں۔ دنیا میں کامیاب
زندگی گزارنے کے خواہش مند کروڑوں انسان موجود ہیں۔ لیکن زندگی کو کامیابی
کی شاہراہ پر گامزن کرنے والے اصول و حقائق سے کم ہی لوگ واقف ہیں۔ اپنی
زندگی میں خوش گوار تبدیلیوں کے متمنی افراد اور شاہراہ کامیابی کے مسافرین
کے لئے یہ مضمون یقینا مددگار ثابت ہوگا۔ کامیاب زندگی بسر کرنے کے چند
ایسے زرین اصول اس مضمون میں بیان کئے گئے ہیں جن پر عمل درآمد کرتے ہوئے
یقینی طور پر بہت سارے ضروری سوالوں ،شکوک و شبہات کے جواب ازخود مل جائیں
گے۔90/10کا اصول کامیاب زندگی بسر کرنے کا ایک ایسا زرین اصول ہے جس پر عمل
پیرا ہوکر انسان اپنی زندگی کو خوشی و مسرت سے ہمکنارکرسکتا ہے۔90/10اصول
کے مطابق کسی بھی انسان کی زندگی میں مسائل، پریشانیوں اور دشواریوں کا حصہ
صرف دس فیصد ہوتا ہے۔ لیکن ان مصائب اور دشواریوں سے نجات دلانے یا پھر اسے
مزید پیچیدہ اور گنجلک بنانے میں 90فیصد حصہ ردعمل کا ہوتا ہے۔دس فیصد
مسائل پر قابو پانے کے لئے ردعمل کے نوے فیصد کو بہتر طریقے سے بروئے کار
لانا ضروری ہے۔ کسی بھی فرد معاشرے اور قوموں کی مثبت و معکوس ترقی میں
ردعمل کی کیفیت کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔90/10کا اصول ہمیں بتاتا ہے کہ
ہماری زندگی کا 90فیصد حصہ اس بات پر منحصر ہوتا ہے کہ ہم اپنے اطراف و
اکناف کے حالات پر کیسے رائے قائم کرتے ہیں اور اس پر کیا ردعمل پیش کرتے
ہیں۔محتاط اور شعوری ردعمل کی کیفیت آپ کی زندگی کو بدل دے گی۔آئیے 90/10کے
اصول کو دریافت کرتے ہیں کہ یہ کیسا اصول ہے؟
90/10کے اصول سے آگہی حاصل کرتے ہوئے کوئی بھی فرداپنی زندگی میں انقلابی
تبدیلیوں کو راہ دے سکتا ہے۔اس اصو ل کے مطابق، زندگی کا 10فیصد حصہ آپ کے
ساتھ پیش آنے والے واقعات پر مشتمل ہوتا ہے جب کہ زندگی کا 90فیصد حصہ آپ
کے حالات و واقعات پر پیش کئے گئے ردعمل پر منحصر ہوتا ہے۔آپ پوچھیں گے کہ
اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہی ہے کہ ہمارے ساتھ جو بھی حالات و
واقعات پیش آتے ہیں اس کے 10فیصد حصے پر ہمارا کوئی کنٹرول یا قابو نہیں
ہوتا ۔یہ دس فیصد واقعات ہمارے قابو سے بالکل باہر ہوتے ہیں۔مثلاً آپ جو
کچھ بھی اپنی زندگی میں حاصل کرتے ہیں اس کا انحصار مختلف عوامل پر ہوتا ہے
جیسے آپ کی اپنی فطری صلاحیتیں،خاندانی پس منظر،وہ طرزمعاشرت یا ماحول جس
میں آپ پروان چڑھیں ہوں،آپ کی بخت آوری وغیرہ وغیرہ اور یہ تمام عوامل آپ
کے قابو سے باہر ہیں۔جیسے آپ کسی ٹرین کو تاخیر سے چلنے سے نہیں روک سکتے
،یاجب کسی کام کے لئے آپ کو جلد پہنچنا ہو ،تاخیر سے بچنے کے لئے سڑک پر
ٹریفک کے لال سگنل کوگرنے سے نہیں روک سکتے یا پھر جس طرح اپنے اعلیٰ
عہدیداران کو آپ بے وجہ تنقید سے باز نہیں رکھ سکتے ۔ ایسے حالات سے پریشان
ہونے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔بے شک 10فیصد عوامل بالکل آپ کے قابو سے
باہرہیں جب کہ 90فیصدعوامل اس کے برعکس آپ کے قابو میں ہیں اور یہ ہی وہ
خوش آئند بات ہے جو انسانوں کی زندگیوں کو خوشیوں سے بھر دیتی ہے۔
آپ 90فیصد کا تعین کیسے کریں گے؟جواب نہایت ہی آسان ہے کہ آپ باقی ماندہ
90فیصد عوامل کا تعین اپنے ردعمل سے طئے کریں گے۔آج کی تیز رفتار دنیا میں
پائی جانے والی انتہا پسند مسابقت سے زندگی پیچیدگی اور تناؤ کا شکار ہوگئی
ہے۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم زندگی میں پائے جانے والی مسابقت اور
دباؤ کا روناہی روتے رہیں۔ کیا جب کسی کاسامنا ایسے ناموافق حالات سے ہو
جنہیں وہ اپنا وقت اور لاکھ توانیاں صرف کرتے ہوئے تبدیل نہ کرسکیں تو کیا
کریں؟ کیا مایوسی اور تناؤ کا شکار ہوجائیں؟بالکل نہیں ۔یہ بات بالکل درست
نہیں ہے کہ زندگی آپ کے آگے مواقعوں سے زیادہ چیالنجس مصائب اور ناموافق
حالات کا انبار لگا تی ہے۔ اقبال نے بھی اس حقیقت پر روشنی ڈالتے ہوئے
فرمایا کۃ’’ بلا رہی ہے تجھے ممکنات کی دنیا‘‘۔اﷲ رب العزت فرماتے
ہیں’’بندے کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دی جاتی‘‘۔(سورۃالبقرہ، پارہ
تین، آیت نمبر286)لیکن اکثر و بیشتر یہی دیکھنے میں آتا ہے کہ انسان خود
اپنے ہاتھوں سے مصیبت کو اپنا مسکن بنالیتے ہیں۔انسان کو اس بات کا شعوری
ادراک ہونا چاہئے کہ وہ ہر چیز کو تبدیل کرنے کی قدرت نہیں رکھتا خواہ اسے
وہ ناپسند کیوں نہ ہو اور نہ ہی اس شئے اور حقیقت سے راہ فرار اختیار
کرسکتاہے جو اس کے لئے ناموافق ہو۔اس سے ہرگز یہ مراد نہ لیں کہ خود کو
تقدیر کے رحم و کرم کے حوالے کرتے ہوئے مایوسی اور نامرادیوں کو گلے سے
لگالیں۔اس سے مراد یہ ہے کہ آدمی پریشان ہوئے بغیر اپنی زندگی سے زیادہ سے
زیادہ لطف و حظ اٹھائے۔اپنی زندگی کو کارعبث میں تباہ کرنے کے بجائے بہت
زیادہ فائدہ مند اور کارآمد بنائے ۔حقیقت سے دور افسانوی کائنات میں سانس
نہ لے۔ فضول اور بے کار افعال و افکار میں خود کو ملوث نہ کریں۔ایسے امور
جو قانون فطرت ،مشیت خداوندی کے مطابق انجام پارہے ہیں جسے بدلنا انسانی
طاقت کے باہر ہیں اس پر اپنی توانیاں صرف کرتے ہوئے مایوسی اور ناکامی کے
قعر مذلت میں خود کو نہ گرائے۔انسان اگر دباؤ کے زیر اثر آجاتا ہے تب کوئی
بھی طاقت اسے شکست و ریخت کے عمل سے نہیں بچا سکتی۔
ردعمل کی سوچ
ردعمل کی کیفیت میں رہنے والا فرد ہمیشہ ذ ہنی تناؤ کا شکار رہتا ہے۔ سوشل
میڈیا کے فضول استعمال نے ردعمل کی کیفیت میں مبتلا افراد کی تعداد میں غیر
معمولی حد تک اضافہ کیا ہے۔ آج پوری قوم سوشل میڈیا، فیس بک وغیرہ پر اپنے
مخالفین یا یوں کہئیے اختلافی نقطہ نظر رکھنے والوں کا حساب چکانے میں
مصروف ہے۔آزادی ہند کے بعد ہندی مسلمانوں بلکہ عالم اسلام کو آج جس صورتحال
کا سامنا ہے یہ ناگفتہ بہ حالات ان کے عمل اور ردعمل کی غیر شعوری نفسیاتی
ہیجان میں اسیری کی وجہ سے رونما ہوئے ہیں۔مخالف قوتیں دانستہ طور پرہمیں
ایسی صورتحال سے دوچار کردیتی ہیں جس پر ہم غیر شعوری طور پر اپنا ردعمل
پیش کرتے ہیں اور جس کا خمیازہ ملت کو خوب بھگتنا پڑرہا ہے۔درحقیقت ظلم و
استبداد کے خداوندان، انسانی فطرت میں پوشیدہ ردعمل کی کیفیت کو ایک موثر
ہتھیار کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔اگر ہم شعور و دانش سے کام لیتے ہوئے
کسی بھی واقعہ یا عمل پر اپنا ردعمل پیش کرنے میں احتیاط اور دانش و بینش
سے کام لیں تو یہ باطل و طاغوتی طاقتیں اپنی موت آپ مرجائیں گی۔اگر کوئی ہم
پر حرف گیری کرتا ہے تو ہم فوراً اپنی دفع میں کود پڑتے ہیں۔رد ردعمل کی
اسی عجلت پسندی نے ہمیں تعمیری کاموں سے بہت دور کردیا ہے۔ہم سانپ کے بجائے
لکیر پر لاٹھی مارتے ہوئے اپنی انا کو تسکین فراہم کرتے ہوئے مطمئن ہوجاتے
ہیں۔مسلم معاشرے کی یہ زبوں حالی صرف عوامی دائرے تک محدود نہیں ہے بلکہ
علم و دانش کے خود ساختہ رہنما اور حواس باختہ ٹھیکدار قیادت بھی اس کی
اسیر ہوچکی ہے۔آج ہم مقامی سطح سے لے کر بین الاقوامی سطح تک اپنے ہر
معاملے کو ملک و ملت کے مفاد کے برخلاف مخالف گروہ کی ترجیحات کے مطابق طئے
کررہے ہیں۔ ردعمل والی اسی سوچ نے ہم کو محدود کرکے رکھ دیا ہے۔مسلمانوں کا
ایک بہت بڑا طبقہ اسی ر دعمل والی سوچ میں زندہ رہنے کو ترجیح دے رہا ہے۔اب
تو ہمارا معاشرہ اخلاقی طور پر اس قدر ابتزال کا شکار ہوچکا ہے کہ جہاں ہم
اچھے کاموں کی مخالفت بھی صرف ردعمل کی سوچ کی وجہ سے کررہے ہیں۔ ہماری
سبکی اور ذلت کی وجہ بھی ہماری یہی عقل بند ردعمل کی فکر ہے۔ نوجوان تو دور
عمر رسیدہ افراد بھی سوشل میڈیا پر اسی ردعمل کی کیفیت کی وجہ سے پیری کے
لئے ذلت کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ ہمارا پڑھا لکھا طبقہ کسی بھی مسئلہ یا واقعہ
پر بے ڈھنگے پن سے جس طرح اپنا ردعمل پیش کررہا ہے وہ ہمارے اجتماعی ذہنی
دیوالیہ پن کی غمازی کرتا ہے۔ سیاسی قائدین نے پیرو کار وں کی صورت جاہل
غلاموں کی ایک ایسی فوج تیار کر رکھی ہے جن کا شیوہ ہر دم صرف اپنے سیاسی
آقاؤں کے فیصلوں( چاہے وہ غلط ہی کیوں نہ ہوں) ملت فروشی اور غلط بیانیوں
(Statements)کو حق بجانب قرار دینا ہے۔ ان کی مخالفت میں اٹھنے والی آوازیں
خواہ وہ حق پر ہی کیوں نہ ہو ان کو غلط ثابت کرنا اور اپنا فضول ردعمل پیش
کرنا ان کا وطیرہ بن چکا ہے۔ اس معاشرتی نفسیاتی عارضے کا مظاہرہ ہمارے
اسکولز ،کالجز،بازاروں بلکہ مساجد میں اب ایک عام بات ہے۔ ردعمل کی منفی
کیفیت میں گرفتار قوم کبھی بھی ْ نفسیاتی طور پر صحت مند نہیں ہوسکتی۔ایک
منظم سازش کی تحت ملت کو اس منفی عمل میں ملوث کیا جارہا ہے۔قوم وملت کے
وقار کی بلندی کے لئے ہمیں اس فضول نفسیاتی عارضے سے گلوخلاصی کی اشد ضرورت
ہے۔ہم جب اپنے ردعمل میں محتاط ہوجائیں گے ،مسائل کی ایک بڑی تعداد اپنے آپ
ہی دم توڑ دے گی۔90/10کا اصول ہمیں یہ سیکھاتا ہے کہ غیر متوقع سر اٹھانے
والے 10فیصد واقعات و مسائل پر ہم اپنے ردعمل سے بخوبی قابو پاسکتے
ہیں۔اپنی توانیاں کو بے سود ضائع کرنے سے اجتناب ضروری ہے تاکہ ملت کی
شیرازہ بندی اور تعمیری کاموں پر توجہ مرکوز کی جاسکے۔
آزمائشوں کے اس دورابتلاء میں ردعمل اور عدم برداشت کو تج کر اسلام کے محبت
اور عدم تشدد کے مشرب کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔اسلام اور نبی اکرم صلی اﷲ
علیہ و سلم کی سیرت طیبہ ہمیں انسانوں سے محبت ،صلہ رحمی ،عفو درگزر اور
صبر وتحمل کا برتاؤ رواں رکھنے کی تلقین کرتی ہے۔نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم
کو تمام عالموں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا۔دعوت اور حکمت کی تعلیم صبر و
رضا کی تربیت رسول پاک کے اسوہ حسنہ میں ہمیں بدرجہ اتم ملتی ہے ۔رسول اﷲ
صلی اﷲ علیہ وسلم کی مکی زندگی جو کشمکش ،مصائب اور آزمائش سے عبارت ہے
،ہمیں سخت اور مشکل حالات میں بھی جینے کا ہنر و سلیقہ بخشتی ہے۔مشرکین مکہ
کی جانب سے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم پر اور آپ کے ساتھیوں پر ظلم کے گوہ گراں
ڈھائے گئے،کسی کو کوڑوں سے مارا جاتاتوکسی کو تپتی ریت پر گھسیٹا جاتا تو
کسی کو آگ کے انگاروں پر لٹایا جاتا۔طائف میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو بد
بختوں نے پتھرمارمارکر لہولہان کردیا اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا معاشرتی و
سماجی مقاطع بھی کیاگیا۔ظلم و ستم کے ایسے خوفناک ماحول میں جب صحابہ کرام
نے آپ صلی اﷲ علیہ و سلم سے ظالموں اور مشرکین کے حق میں بددعا کی درخواست
کی تو آپ صلی اﷲ علیہ سلم نے فرمایا مجھے لعنت کرنے والا بنا کر مبعوث نہیں
کیا گیا ،مجھے تو سراپا رحمت اور صرف رحمت بناکر بھیجا گیا ہے۔ایسے سخت
حالات میں بھی رسول اﷲ علیہ و سلم نے ردعمل کا مظاہر ہ نہیں کیا ۔آپ صلی اﷲ
علیہ وسلم نے انسانیت دوستی ،خدمت خلق ،اعلیٰ اخلاق اور صلہ رحمی سے کام
لیا۔سرکار صلی اﷲ علیہ وسلم کا اسوہ مبارک ہمیں منفی ردعمل کی فکر سے مانع
رکھتا ہے۔قرآن وسیرت رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیمات کا صدق دل سے
مطالعہ کرنے والوں کے دل میں کبھی بھی منفی ردعمل والی سوچ اور نفرت گھر
نہیں بنا سکتی۔قرآن اور سیرت کے حاملین انسانوں سے نفرت کا تصور بھی نہیں
کرسکتے۔ہمارے رویوں میں انتہاپسندی اور شدید ردعمل کی بڑی وجہ اسلامی
تعلیمات سے دور ی کا نتیجہ ہے۔ہماری دانش گاہیں جہاں کاروبار علم کا بڑا
چرچاہے تربیت کے جوہر خاص سے عاری ہیں۔مہذب معاشرے کی تعمیر و تشکیل کے لئے
سب سے پہلے ہم کو احتسابی عمل سے گزرنے کی سخت ضرورت ہے۔ |