بڑھتی ہوئی عرب اسرائیل قربت اور ترکی کا جارحانہ کردار

کشمیر اور فلسطین ہم پاکستانیوں کی دو ایسی دکھتی رگیں ہیں جو ہمیں ہروقت بے چین اور اداس رکھتی ہیں ،شائد ان دو خطوں کے لئے ہم میں سے ہر شخص ہر وقت جہادی بن کر اپنا سب کچھ قربان کرنے میں ذرا تامل نہ کرے، اگست کا مہینہ ہے اور پاکستان میں موسم کے ساتھ ساتھ جذبات اور سیاست دونوں سخت گرم ہیں ۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا سعودی عرب کے حوالے سے غیرذمہ دارانہ بیان اور تیل کی دولت سے مالا مال متحدہ عرب امارات کا ناجائز ریاست اسرائیل کو تسلیم کرنا دونوں غیر معمولی واقعات ہیں ، ہم پاکستانی مزاجا" کچھ ذیادہ ہی گرم اور حساس واقع ہوئے ہیں اس لئے عالم اسلام کے حوالے سے ہمیشہ ہماری عقل پر جذباتیت کا غلبہ رہتا ہے ، ان دو واقعات پہ ہماری پوری قوم غم و غصے کا شکار نظر آتی ہے ۔

عرب کے موجودہ حالات کی وجہ سے بدووں سے ایسے ہی کسی فیصلے کی توقع کی جارہی تھی اور ہوا بھی یہی کہ حکمرانوں کے ذاتی مفادات اسلامی رشتوں اور احکامات پہ حاوی ہوگئے، متحدہ عرب امارات نے فلسطینیوں کے زخموں کو ناصرف کریدا بلکہ ان پہ نمک بھی چھڑکا، یہ ایسا افسوسناک واقعہ ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ سعودیہ اور عرب امارات کے شاہی خاندانوں کی قربت کو دیکھیں تو ایسا فیصلہ شاہ سلیمان اور ان کے بیٹے سے مشورے کے بغیر کرنا ممکن نہیں لگتا ۔ یہاں ایک اور سوال بھی پیدا ہوتا کہ کیا مستقبل میں محمد بن سلمان اور ان کے بزرگ والد بھی فلسطینیوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپ سکتے ہیں ؟ اور اگر خدانخواستہ ایسا ہوتا ہے تو سعودی عرب ایک ایسی آگ میں کود جائےگا جو سارے عالم اسلام کو جلا کر راکھ کردے گی ۔

شاہ فیصل شہید کے بعد عرب ممالک اسلامی اخوت پہ ہمیشہ اپنے زاتی فائدوں کو مقدم رکھتے آئے ہیں ، کشمیر ، افغانستان ہو یا فلسطین کا مسئلہ ان حکمرانوں نے کبھی عالم اسلام کی ترجمانی نہیں کی ، یہی وجہ تھی کہ شاہ محمود قریشی جیسا تجربہ کار شخص بھی اس پہ خاموش نہ رہ سکا اور جذبات کے بہاو میں بہہ کر ایسا بیان داغ دیا جس نے بہت سارے گڑھے مردے اکھاڑنا شروع کردئیے ہیں ۔

اس میں کچھ شک نہیں کہ سعودی حکمران پاکستان کے محسن ہیں انہوں نے ہمیشہ ہر مشکل گھڑی میں اپنے ریالوں سے پاکستان کی مدد کی ، سعودیہ کے ساتھ ہمارے ایسے برادرانہ اسلامی اور کچھ ریالی تعلقات ہیں جو کبھی ختم نہیں ہوسکتے ، سرزمین حرمین کے لئے ہمارے سر دھڑ سب قربان ، لیکن اس کے ساتھ ہمیں یہ حقیقت بھی تسلیم کر لینی چاہئے کہ ہر ملک کے اپنے فائدے اور اپنے نقصان ہوتے ہیں، مدد کرنے کی ایک حد ہوتی ہے، اور موجودہ سعودی حکومت کبھی ہمارے لئے یا کشمیر کے لئے بھارت کو ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتی ۔

شاہ محمود قریشی کیسے ان عربوں سے کشمیر کے مسئلے پہ حمائت کی توقع کرتے ہیں جو خود اپنے قلب پہ اسرائیلیوں کے وار سہے جارہے ہیں ، جن کے ضمیر قبلہ اول کے لہو لہان ہونے سے نہیں جاگے بھلا وہ جلتے کشمیر کی فکر کیوں کریں گے ؟ ۔

ترکی کے حکمران طیب اردوان ایک عرصے سے مسلمان نوجوانوں کے دل جیتتے چلے آرہے ہیں ، کشمیر ہو یا فلسطین انہوں نے ہر محاذ پہ عالم اسلام کی بروقت اور درست ترجمانی کی ہے پچھلے کچھ عرصے سے ترکی اور پاکستان کے آپسی تعلقات میں قربت بڑھتی جارہی ہے جو ہمارے کچھ عرب بھائیوں کے ساتھ کچھ پاکستانیوں کے لئے بھی تکلیف دہ صورتحال بنتی جارہی ہے ، موجودہ صورتحال میں جب طیب اردگان نے یو اے ای کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تو پاکستان میں ایک نئی بحث چھڑ گئی کہ جب خود اسرائیل کو ترکی نے تسلیم کیا ہوا ہے تو وہ کیسے عربوں کو برابھلا کہہ سکتے ہیں ؟ ۔

عالمی قوانین اور تاریخ سے عمومی لاعلمی کے سبب لوگ کئی معاملات میں کنفیوژن کا شکار ہو جاتے ہیں، اب اسی اسرائیل کو ترکی کی جانب سے تسلیم کئے جانے کے معاملے کو دیکھ لیں، ترکی سے اسلامی اقدار کو ختم کرنے والےمصطفی کمال اتاترک کے 1938میں جہنم واصل ہونے کے بعد بھی اس کے جانشین عصمت انونو نے اسلام دشمن پالیسی جاری رکھی ، پھر جب 1948 میں ناجائز ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلان کیاگیا تو اگلے ہی سال ترکی نے اسے بطور ریاست تسلیم بھی کر لیا، اور پھر 1950میں دونوں ممالک کے مابین باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم ہوگئے (واضح رہے کہ ترکی میں کئی عشروں تک داڑھی رکھنے، قرآن اور ، نماز پڑھنے پہ مکمل پابندی رہی ہے اس کے ساتھ فحاشی و عریانی کے لئے کھلی چھوٹ تھی )اب بین الاقوامی قوانیں کے مطابق ایک بار اگر کوئی ملک کسی ریاست کے وجود کو تسلیم کرلے تو پھر اس فیصلے سے یو ٹرن نہیں لیا جا سکتا ۔

ہاں یہ ممکن ہے کہ ترکی جلد یا بدیر سلطنت عثمانیہ طرز کی ایک بڑی طاقت بن جاۓ اور دنیا کو اپنے آگے لگا لے اور اسرائیل کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا فیصلہ واپس لے لے تو الگ بات ہے۔ فی الحال اردگان اور ترکی بطور ریاست اسرائیل کو تسلیم کرنے کا فیصلہ واپس نہیں لے سکتے اور اس کی کئی وجوہات ہیں ،

تاہم ترکی سے یہ مطالبہ بلکل جائز اور درست ہے کہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات بالکل ختم کردئیے جائیں ۔بہرحال ہمیں ایک بات اچھی طرح سے ذہن نشین کر لینی چاہئے ساری دنیا ہماری طرح جذباتی نہیں ، ہر ملک کے اپنے مفادات ہیں اور اکثر ممالک کی خارجہ پالیسی ہماری طرح جذبات کے تابع نہیں ہوتی ۔

 

Shahid Mushtaq
About the Author: Shahid Mushtaq Read More Articles by Shahid Mushtaq: 114 Articles with 87201 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.