تحریر۔معیشہ اسلم, لاہور
میرے عنوان سے سمجھ آ گئی ہو گی کہ میں کن مسائل پر بات کرنا چاہتی ہوں
مجھے اپنی اس تحریر کو لکھتے وقت ایک اہم مسئلہ کا سامنا کرنا پڑا اور وہ
یہ تھا کہ میں بات کہاں سے شروع کروں اور کس طرح اپنے دکھ کو سب کے سامنے
ظاہر کروں_
میرے تمام حکمران جو آج کراچی کی صورتحال پر اپنے منہ چھپائے بیٹھے ہیں ان
سے یہ سوال ہے کہ اگلے آنے والے الیکشن میں کس منہ سے کراچی کی عوام سے ووٹ
مانگنے جائیں گے؟ کہنے کو کراچی سب کا ہے لیکن آج جو بھیانک صورتحال کراچی
کی ہے وہ کہیں اور دیکھنے کو نہیں ملی- کہا جا رہا ہے کہ کراچی کو ایک صوبہ
بنایا جائے کس منہ سے یہ بات کی جاتی ہے ایک شہر کی حالت ٹھیک نہیں ہوئی تو
ایک صوبے کے اختیارات کو کیسے پورا کیا جائے گا- رہ رہ کر ایک یہی بات
سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ اتنے سال ہو جانے کے باوجود ہمارے ملک کا ہر
نظام اس قدر ناقص ہے کہ بارش کے پانی نے کراچی میں رہنے والے ہمارے لوگوں
کی زندگیوں کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے-کراچی کا ہر علاقہ نا جانے کتنے کتنے
فٹ پانی میں ڈوبا ہوا ہے جس کی وجہ سے لوگ اپنے اپنے گھروں کی چھتوں پر
زندگی گزارنے پر مجبور ہیں- نا تو ان پیچاروں کو دن کا پتہ ہے نہ رات کا,
نہ نیند کا پتہ ہے نہ آرام کا, نہ بھوک کی فکر ہے نہ پیاس کی- گہرے پانی نے
کتنے ہی لوگوں کو اپنا شکار سمجھ کر نگل لیا کتنے ہی ماؤں کی گودیں اجڑ
گئیں, ناجانے کتنا مالی نقصان برداشت کرنا پڑا, بجلی سے چلنے والی چیزیں
بھی خراب ہو گئیں ہیں, لوگ باہر آ جا نہیں سکتے, کئی لوگ تو نقل مکانی کرنے
پر مجبور ہو گئے, لوگ اپنی مدد آپ کے تحت اپنے گھروں سے پانی نکال رہیں
ہیں- یہ تمام مسائل صرف گھروں میں رہائش پذیر لوگوں کے ساتھ ہی نہیں بلکہ
کراچی کی تمام مارکٹس, دکانیں, اور تمام بڑی بڑی شاہراہیں بھی آج پانی میں
ڈوبی ہوئی نظرآتی ہیں- سڑکوں پر کھڑی گاڑیاں پانی میں مکمل طور پر ڈوب چکی
ہیں اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے خود اندازہ ہو گا کہ کتنے فٹ پانی کراچی کی
سڑکوں پر موجود ہے-نوکریاں کرنے والے تمام لوگ دفتر جانیسے قاصر ہیں اور
گھروں میں بیٹھنے پر مجبور ہیں- کچھ لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ان تمام
مسائل سے نمٹنے کی بھر پور کوششیں کی لیکن میں یہاں اپنے نوجوان رینجرز کا
شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں جنہوں نے کسی بھی قسم کا خطرہ مول لیے بغیر
امدادی کارروائیاں جاری رکھیں اور لوگوں کی زندگیاں بچائیں, ان کو جلد از
جلد گھروں سے نکال کر محفوظ مقامات پر منتقل کیا اور ان کو ضروریات کی تمام
اشیاء فراہم کیں-
ہمارے نالائق حکمران باتیں خوب بڑی بڑی کرتے ہیں لیکن آج بارش کی صورتحال
نے ان کی باتوں کا سارا پول کھول کر دنیا کے سامنے رکھ دیا ہے اتنے سال
کراچی پر حکومت کرنے والوں نے اتنے انتظامات بھی نہیں کر سکے کہ بارش کو
لوگوں کے لیے رحمت بنایا جا سکے- ہمارے حکمران اپنی زندگی کا آدھے سے زیادہ
وقت بیرون ممالک میں سرف کرتے ہیں لیکن یہ کوشش آج تک نہیں کی گئی کہ
پاکستان کو بھی ایسے تمام انتظامات کی ضرورت ہے جو بیرون ممالک میں کیے گئے
ہیں لیکن ہمارے حکمران نے صرف اور صرف اپنے مفادات کے بارے میں سوچا عوام
جائے بھاڑ میں- حکمرانوں کو یہ بخوبی پتہ ہے کہ جب زیادہ بارش ہوتی ہے تو
زیادہ پانی آتا ہے تو یہ کیسے نا معلوم ہوا کہ زیادہ پانی کی وجہ سے اس
عوام پر کیا گزرے گی- اتنے سال ہو جانے کے باوجود کوئی عملی کام کیوں نہ
کیا گیا؟ کیوں اس عوام کو نظرانداز کیا جاتا رہا؟ جبکہ یہی عوام آپ. لوگوں
کو ہر بار اس قابل سمجھتے ہوئے اپنے ملک اور اپنے مستقبل کی ڈور آپ کے
ہاتھوں میں تھما دیتی ہے- آپ جیسے حکمران کا کیا فائدہ ہے جب ہر اہم
صورتحال سے رینجرز نے ہی لڑنا ہے- کون مداوا کرے گا ان لوگوں کے دکھوں کا؟
کون مرہم بنے گا ان کے زخموں کا؟ کون ذمیدار ہے ان کے ہونے والے نقصانات کا
اور کون ان نقصانات کو پورا کرے گا کون؟ کراچی کی عوام اپنے گھروں کے
دروازوں پر نظریں جمائے کھڑے ہیں کہ جن حکمرانوں کو منتخب کیا تھا وہ ان کے
غموں میں شریک ہونے آئیں گے ان لیکن ابھی تک کوئی بھی حکمران اپنی عوام کو
دلاسہ دینے نہیں پہنچا اس کے بجائے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے میں لگے ہیں
مگر کراچی کی اس حالت کی ذمیداری کسی نے بھی قبول نہیں کی- میں آج اپنی
عوام سے ہاتھ جوڑ کر درخواست کرتی ہوں کہ اگلے آنے والے الیکشن میں اپنے
ووٹ کا صحیح سے استعمال کیجئیگا تا کہ آپ لوگوں کی صورتحال بہتر ہو سکے اگر
ایسے ہی لوگوں کا انتخاب کیا جاتا رہا تو ہم اگلے آنے والے نا جانے کتنے
سالوں میں ایسے ہی حالات کی نظر ہوتے رہیں گے اور اپنے پیاروں کو کھوتے
رہنگے-
|