جمیل یوسف کا تحریر کردہ مضمون "قائداعظم میں کیا کرشمہ
تھا"الحمراء ستمبر ۲۰۱۹ء میں شائع ہوا۔ مضمون کا موضوع قائداعظم کی کرشمہ
ساز شخصیت ہے۔ اس میں قائداعظم محمد علی جناح کے کردار و شخصیت کی خوبیوں
کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے۔ فاضل مصنف جمیل یوسف نے اس مضمون میں ان
شخصیات کے مضامین میں سے ان کے اظہار عقیدت کو یکجا کیا جو اپنے محبوب قائد
محمد علی جناح سے بے پایاں محبت اور عقیدت رکھتے تھے۔
"قائداعظم میں کیا کرشمہ تھا" مضمون پڑھادل پر نقش ہو گیا لہذا میں اس
مضمون سے کچھ اقتسابات پیش کرتی ہوں تاکہ یہ سچے حقائق لوگوں تک پہنچ سکیں
اور نئی نسل معلومات حاصل کرکے اپنی کردار سازی پر توجہ دے۔جمیل یوسف
فرماتے ہیں۔ "جو لوگ کراچی میں قائداعظم کی نماز جنازہ میں شریک تھے وہ
بتاتے ہیں کہ غم و اندوہ میں ڈوبے ہوئے لوگوں کا ایک سمندر تھا جو حد نگاہ
تک موجزن تھا۔ لاکھوں لوگ، بچے، بوڑھے اور جوان یوں دھاڑیں مار مار کر رو
رہے تھے جیسے ان کا کوئی قریبی فوت ہو گیاہو۔ ہر شخص یوں محسوس کر رہا تھا
جیسے اس کی زندگی کا سہارا اس سے چھین لیا گیا ہو۔ ہر کوئی غم سے نڈھال
تھا، ہر آنکھ اشک بار تھی۔ ہر زبان پر یہی سوال تھا کہ اب کیا ہوگا؟ جناب
شعیب قریشی اپنے مضمون "امیر کارواں" (مطبوعہ ماہ نو۔ قائداعظم نمبر)میں
بیان کرتے ہیں۔
"ایک غریب ان پڑھ کشمیری بچہ اپنے ماں باپ کھو کر اور سب کچھ لٹا کر صرف
اپنی جان عزیز کے ساتھ بہ مشکل کراچی پہنچا تھا اور ایک مہاجر گھرانے میں
رہتا تھا۔ صبح کو جب دفعتاً قائداعظم کے انتقال کی المناک خبر شہر میں بجلی
کی طرح گشت کررہی تھی تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا اور کہتا تھا کہ "اب
ہم کشمیریوں اور ہمارے کشمیر کو کون بچائے گا۔"
لوگ قائداعظم سے دل و جان سے والہانہ محبت کرتے تھے اور ان پر فدا تھے اس
کا اندازہ ممتاز حسن کے بیان سے ہوتا ہے۔
"عام غریب مسلمان جناح کو کیا سمجھتے تھے مجھے اس کا اندازہ ۱۹۴۶ء میں
ہواجناح لندن کے مشرقی حصے میں واقع ایک مسجد میں جمعہ کی نماز کے لئے
تشریف لے گئے۔لوگوں نے انھیں دیکھتے ہی صفیں کی صفیں خالی کر دیں تاکہ وہ
سب سے آگے کی صف میں بیٹھ سکیں۔ اگرچہ خود انھوں نے آخری صف میں بیٹھنا
پسند فرمایا اور کہا کہ میں دیر سے آیا ہوں اور کسی اور جگہ کا مستحق
نہیں۔ نماز ختم ہوئی تو چھوٹے چھوٹے بچوں نے انھیں گھیر لیا۔ وہ قائداعظم
کو قریب سے دیکھنا اور ان سے ہاتھ ملانا چاہتے تھے۔اس کے بعد ہر نمازی نے
ان سےمصافحہ کیا یہ خلوص اور عقیدت کا ایک بے مثال مظاہرہ تھا۔ ایک شخص پر
رقت طاری ہو گئی اور اس نے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی کہ اے میرے خدا میری
زندگی محمد علی جناح کو بخش دے۔ یہ سارے کا سارا مجمع غریب اور نادار
مسلمانوں کا تھا، کوئی مزدور تھا، کوئی ملاح تھا، کوئی چھوٹا موٹا
دوکاندار، کوئی خوانچہ فروش۔ جناح نے نماز کے لئے یہ مسجد خوب منتخب کی
تھی۔ ان کا ارشاد تھا کہ میں کسی ایسی مسجد میں جانا چاہتا ہوں جو کسی فرقے
سے خاص نہ ہو اور جس میں غریب مسلمان نماز پڑھتے ہوں۔"
ایک واقعہ کو بیان کرتے ہوئے بیگم تصدیق حسین فرماتی ہیں۔ "قائداعظم لاہور
تشریف لائے ہوئے تھے۔ وہ پُرآشوب زمانہ بہت کرب انگیز تھا۔ حکومتِ برطانیہ
مسلمانوں کو دبانے اور پاکستان کے مطالبے کو پس پشت ڈالنے کے لئے طرح طرح
کی سختیاں کر رہی تھی۔ قائداعظم کے لاہور آنے کی خبر نے پژمُردہ دلوں میں
تازگی پیدا کردی۔ ہر شخص ان کی تشریف آوری کی خوشی سے سرشا ر تھا۔ اچانک
شام چھ بجے یہ سنسنی خیز خبر پہنچی کہ کسی نے قائداعظم پر حملہ کرکے انھیں
زخمی کر دیا ہے۔ میں اس وقت اندرون شہر ایک میٹنگ میں شریک تھی۔ خبر پہنچتے
ہی میٹنگ فوراً درہم برہم ہوگئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ خبر شہر میں آگ کی
طرح پھیل گئی۔لوگوں نے سنتے ہی دکانیں بند کردیں، بارونق بازار فوراً خاموش
اور سنسان ہو گئے۔لوگوں کی لمبی لمبی قطاریں ممدوث ولا کی طرف رواں
تھیں۔سڑکوں پر موٹروں اور ٹانگوں کا چلنا دشوار ہو گیا۔ جو سنتا وہیں سب
کام چھوڑ کر ساتھ ہو لیتا۔چند لمحوں میں ممدوث ولا کے دروازے پر بے پناہ
بھیڑ لگ گئی اور قائداعظم زندہ باد کے نعروں سے فضا گونج اٹھی۔ لوگوں کا
ہجوم بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ اندر کوٹھی میں شہر سے ہزاروں فون آ رہے تھے۔
قائداعظم کے سیکریٹری ہجوم کا شور سن کر باہر نکل آئے اور لوگوں کو بتایا
کہ قائداعظم بخیریت ہیں۔ انھیں کوئی حادثہ پیش نہیں آیا مگر سیکریٹری کی
بات کون سنتا تھا، لوگوں کا مطالبہ تھی کہ ہمیں قائداعظم دکھاؤ۔ وہ کہاں
ہیں؟ انھیں کس موذی نے زخمی کیا ہے؟ ہمیں بتاؤ وہ شقی القلب کون
ہے؟سیکریٹری کافی دیر تک ہجوم کو سمجھاتا رہا مگر لوگوں نے اس کی ایک نہ
مانی۔ ہجوم لمحہ بہ لمحہ اور بے تاب ہو رہا تھا۔ قائداعظم کی صورت دیکھنے
کے لئے ہر شخص بے چین تھا۔ جب مجمع بالکل قابو سے باہر ہو گیا اور اس کی
آوازیں اندر پہنچنے لگیں تو قائداعظم کا دل اپنے فدائی مسلمانوں کی محبت
دیکھ کر تڑپ اٹھا۔ وہ باہر نکل آئے اور برآمدے کی سیڑھیوں پرکھڑے ہو کر
فرمایا " میرے بھائیو! میں بالکل اچھا ہوں مجھے کوئی گزند نہیں پہنچا۔ تم
بے فکر ہو جاؤ۔ محمد علی کے ساتھ خدا کی مدد شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ کو
پاکستان بنانا مقصود ہے۔ میں بالکل خیریت سے ہوں۔ تمہیں بے چین کرنے کے لئے
یہ خبر کسی دشمن نے اڑائی ہے، میں تمہاری محبت کا شکر گزار ہوں اور چاہتا
ہوں کہ تمہاری یہ محبت پاکستان کی محبت میں تبدیل ہو جائے۔"
پاکستان کا حصول اسی وقت ممکن ہواکہ جب مسلمانوں نے قائداعظم کے ایک اشارے
پر سر دھڑ کی بازی لگا دی۔ بیورلے نکلو اپنی کتاب "ورڈکٹ آف انڈیا" میں
قائداعظم کے بارے میں لکھتا ہے کہ " وہ اپنے ایک اشارے سے اپنی مرضی کے
مطابق جنگ کا رخ پلٹ سکتے ہیں۔ دس کروڑ مسلمان ان کے ایک اشارے پر دائیں
بائیں اور آگے پیچھے بڑھ سکتے ہیں اوریہ واقعہ ہے کہ وہ ان کے حکم کے
علاوہ کسی اور کا حکم ماننے کو تیار نہیں ہیں۔"
جمیل یوسف اپنے مضمون میں بیان کرتے ہیں کہ "سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر
قائداعظم محمد علی جناح کی شخصیت اور کردار میں ایسا کیا کرشمہ تھا کہ گنتی
کے چند لوگوں کو چھوڑ کر ہندوستان کے باقی سارے مسلمان اپنے گروہی اور
علاقائی اختلافات کو بھلا کر سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح قائداعظم کے
پرچم تلے کھڑے ہوئے تھے۔ کیا قائداعظم نے اپنی تحریروں اور تقریروں سے
انھیں اس قدر قائل کر لیا تھا؟ کیا انھوں نے روپے پیسے، پلاٹوں پرمٹوں،
ملازمتوں اور عہدوں کا لالچ دے کر لوگوں کو اپنے ساتھ ملا لیا تھا آخر وہ
کون سی قوت تھی جس کے بل بوتے پر قائداعظم نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا؟ دنیا
کے نقشے کو تبدیل کر دیا۔ تاریخ کا وہ معجزہ رونما ہو گیا جس کا نام
پاکستان ہے۔ دنیا کی وہ سپر پاور جس کا عالمگیر حدود میں سورج غروب نہیں
ہوتا تھا۔ اپنے تمام وسائل کے باوجود قائداعظم کے عزم کو پابہ زنجیر نہ کر
سکی۔ تحریک پاکستان کے بے پناہ سیلاب کے آگے کوئی بند نہ باندھ سکی۔"
قائداعظم جیسے عظیم لیڈر کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ ان کی
تقاریر سننے کے لئے لوگ جلسوں میں یوں خاموش ہوجاتے تھے کہ قائداعظم کے سوا
وہاں کوئی دوسرا موجود نہیں۔ برصغیر کے مسلمان قائداعظم کی قیادت پر اعتماد
اور یقین کامل رکھتے تھے انھوں نے اپنے کردار اور طرز عمل سے مسلمانوں کے
دل موہ لئے کیونکہ ان کی بےباکی، دیانت داری، بے لوث ایثار و قربانی عوام
کے سامنے تھی۔ قائداعظم نےصدق دل اور خلوص سے ہندکے مسلمانوں کی قیادت کی۔
وہ بے خوف و خطر انگریز حکومت سے بات کرتے، انھوں نے کبھی سودے بازی نہیں
کی۔ اللہ تعالٰی نے خود اعتمادی، یقین محکم اور فراست و بصیرت بے اندازہ
عطا کی تھی۔ ان کی تحریر و تقریر بڑی مئوثر ہوتی تھی۔ ان کی شخصیت میں جو
جلال و جمال، نفاست اور آنکھوں میں چمک تھی اس کی مثال دنیا کے کسی بڑے
لیڈر میں نہیں ملتی۔ پروفیسر سٹینلے والپرٹ ( مصنف جناح آف پاکستان)کے
ناقابل فراموش الفاظ یہ تھے۔
" بہت کم شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو تاریخ کے دھارے کا رخ موڑ دیتی ہیں ان
میں سے بھی کہیں کم تعداد میں ایسی شخصیات ہونگی جو دنیا کے نقشے کو بدل کر
رکھ دیں مگر ایک نئی قوم اور ایک نئے ملک کی تخلیق کا سہرا تو شاید ہی کسی
کے سر ہو۔ قائداعظم نے یہ تینوں کارنامے کر دکھائے۔"
قائداعظم کے انتقال پر روزنامہ "پربھارت" دہلی نے تحریر کیا کہ "متحدہ
ہندوستان کی تمام طاقتیں اس ایک شخص سے شکست کھا گئیں۔"مشہور شاعر ڈاکٹر
محمد دین تاثیر رقم طراز ہیں۔ "ایک شخص کے راستے میں کیسے کیسے پہاڑ تھے
مگر اس کے پائے ثبات میں لغزش نہ آئی۔ اس کے خلوص قومی میں فرق نہ آیا۔
اس کا ہر قومی عمل اللہ کے لئے تھا اس لئے اس کے ہاتھ پر اللہ کا ہاتھ تھا۔
ہر مجاہد حق کے دست شمشیرزن پر اللہ کا ہاتھ ہوتا ہے۔"
ہاتھ ہے اللہ کا بندہ مومن کا ہاتھ۔۔۔۔۔۔۔غالب و کار آفریں، کار کشاو کار
ساز۔ (علامہ اقبال)
جمیل یوسف اپنے مضمون میں فرماتے ہیں کہ "قائداعظم کی زندگی میں کئی ایسے
واقعات ملتے ہیں جن سے اللہ تعالٰی کے ساتھ ان کے گہرے قلبی تعلق اور حضورﷺ
سے ان کی محبت اور قرآن حکیم سے ان کی شیفتگی کا ثبوت ملتا ہے۔"
محمد علی جناح نے اپنی فہم و فراست، تدبر، جہد مسلسل اور سیاسی دور اندیشی
کے باعث نہ صرف انگریزوں کو چلتا کیا بلکہ مسلمانوں کو ہندو شکنجے سے بچاتے
ہوئے ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء میں ایک آزاد ریاست حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ضرورت
اس امر کی ہے کہ ہم قائداعظم کا یوم پیدائش منانے کے ساتھ ساتھ اپنے قائد
کے ہر فرمان کو بھی مانیں اور اپنی نسل کو بھی اپنے قائد کی روشن سیرت و
کردار سے متعارف کرائیں۔ اگر ہمارے رہنما اور قوم قائداعظم جیسی سیرت و
کردار کا مظاہرہ کریں تو ہم آج بھی سر خرو ہو سکتے ہیں۔ قائداعظم محمد علی
جناح، علامہ اقبال کے خواب اور مسلمانوں کی خواہش پاکستان کوعملی طور پر
قائم کرنے کے ایک سال بعد ہی ۱۱ستمبر ۱۹۴۸ء کو ۷۱ سال کی عمر میں خالق
حقیقی سے جاملے۔ یوں لگتا ہے جیسے قائداعظم پاکستان کے قیام کے لئے ہی دنیا
میں وارد ہوئے اور اپنا فریضہ ادا کرتے ہی دینا سے منہ موڑ گئے۔ اللہ
تعالٰی ان کے درجات کو بلند فرمائے۔ آمین۔
بد قسمتی سے قائداعظم کے انتقال کے بعد سے تا حال ہمیں کوئی ان جیسا لیڈر
نہیں ملا اس لئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ،
ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے |