ملک الموت سے ٹکرا کے رئیس
دیکھنا ہے کہ کہا ں گرتے ہیں
ہم کہ اس شہر کے بازاروں میں
سر ہتھیلی پر لئے پھرتے ہیں
ممتازشاعر رئیس امروہوی کو ہم سے بچھڑے بتیس برس بیت گئے
برصغیر کے بلند پایہ شاعر، ادیب، صحافی اور ماہر مرموز علوم رئیس امروہوی
کو اپنے مداحوں سے بچھڑے بتیس برس بیت گئے، ان کے دلوں میں اتر جانے والے
اشعا دنیا بھر میں آج بھی انتہائ مقبول ہی ، جناب رئیس امروہوی کی آج بائس
ستمبر بروز منگل بتیسویں برسی منائی جارہی ہے۔
رئیس امروہوی کا اصل نام سید محمد مہدی تھا اور آپ 12 ستمبر 1914ء کو
امروہہ میں پیدا ہوئے۔ والد علامہ سید شفیق حسن ایلیا بھی ایک بہترین شاعر
اور عالم انسان تھے۔ رئیس امروہوی کی عملی زندگی کا آغاز صحافت سے ہوا۔
قیام پاکستان سے قبل آپ نے امروہا سے جاری ہونے والے اخبارات قرطاس اور
مخبر عالم کی ادارت کی اسکے بعد مراد آباد سے جاری ہونے والے اخبار روزنامہ
جدت کے مدیر اعلیٰ رہئے۔
ممتاز شاعر، دانشور، کالم نگارکی بات کی جائے قطعہ نگاری یا اعلیٰ پائے کی
نثر نگاری کی
رئیس امروہوی نے ملکی اور غیر ملکی سطح پر بے پناہ پذیرائی حاصل کی جو ان
کی شہرت کی وجہ بنی۔ شاعری کے علاوہ نثر نگاری میں بھی انہوں نے بڑا نام
کمایا ۔ رئیس امروہی نے مختلف موضوعات پر کئی کتابیں تصنیف کیں۔انکی ۱۲
مجموعات شعر وسخن شائع ہوئیں اس کے علاوہ انھوں نے مختلف موضوعات پر ۱۵
کتابِیں بھی لکھیں۔
رئیس امروہوی ماورائی نفسیات یعنیٰ Parapsychology، نفسیات، روحانیت، اور
جنات کے موضوعات پر بہت مظبوط گرفت رکھتے تھے۔
آپ کے شعری مجموعوں میں الف، پس غبار، حکایت نے، لالہ صحرا، ملبوس بہار،
آثار اور قطعات کے۱۲ مجموعے شامل ہیں جبکہ نفسیات اور مابعدالطبیعات کے
موضوعات پر ان کی نثری تصانیف کی تعداد کوئی درجن سےزیادہ ہیں انکی تحاریر
میں صوفیانہ رنگ غالب ہے
قیام پاکستان کے بعد آپ نے کراچی میں سکونت اختیار کی اور روزنامہ جنگ سے
بطور قطعہ نگار اور کالم نگار وابستہ ہوگئے، اس ادارے سے ان کی یہ وابستگی
تا عمر جاری رہی۔
علم و ادب کے حوالے سے رئیس امروہوی کے چھوٹے بھائی سید محمد تقی اور جون
ایلیا بھی کسی تعرف کے محتاج نہیں ہیں۔
انکی ۱۲ مجموعات شعر وسخن شائع ہوئیں اس کے علاوہ انھوں نے مختلف موضوعات
پر ۱۵ کتابِیں بھی لکھیں۔
رئیس امروہی اسلوب تحریر کے انداز کے لئے مشہور تھے
رئیس امروہوی بائیس ستمبر 1988ء کی سہہ پہر کراچی میں ایک سیریل کلر محمد
جمیل عرف معاویہ کی گولی کا نشانہ بنے جو سر سے پار ہوتی ہوئی دیوار میں جا
لگی آپ کو سخی حسن قبرستان کراچی میں آسودہ خاک کیا گیا۔
|